Islam Times:
2025-07-31@11:54:47 GMT

تجدیدِ مذہب و اسباب و علل

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

تجدیدِ مذہب و اسباب و علل

اسلام ٹائمز: اس تحریر کا مطالعہ کرنیوالے قارئین کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی محض سانس کی آمد و رفت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک باطنی جہاد ہے، جہادِ فکر، جہادِ صداقت اور جہاد تبیینِ حق۔ یہ تحریر ایک ایسے مسافرِ حق کا اعترافی بیانیہ ہے کہ جس نے موروثی عقیدے کے بوجھ، تعصب کی دیوار اور موروثی مذہب کے پردوں کو چاک کرکے، شعور و آگہی کی روشنی میں حق کو پہچانا۔ وہ سچ جسے صدیوں سے چھپایا جاتا رہا، اسے اس مسافرِ تحقیق نے نہ فقط تلاش کیا بلکہ پرکھا اور قبول بھی کیا۔ یعنی سچ کے اعتراف کیلئے حالات و مشکلات کے زہر کا جام پیا۔ یہ تحریر ہمارے قارئین کو ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی کہ مذہب اگر تحقیق سے محروم ہو جائے تو تعصب بن جاتا ہے اور ایمان اگر عقل سے خالی ہو تو اندھی تقلید بن جاتا ہے۔ تبصرہ: ڈاکٹر نذر حافی

عقیدے کی تبدیلی ایک داخلی ہجرت ہے۔ تحقیق نہ ہو تو عقیدہ انسان کیلئے ایک تاریک قفس بن جاتا ہے۔ مجھے ایسے افراد میں ہمیشہ دلچسپی رہی ہے کہ جنہوں نے دوسروں کے عقائد کو چھیڑنے کے بجائے اپنے ہی عقیدے پر تحقیق کی جرات کی ہے۔ میری اس دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک جو عقیدہ عقل کی دہلیز پر دستک نہ دے، وہ اپنانے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ آپ بھی اگر سوچیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ تحقیق، انسان کو عقیدے کے موروثی زندان سے آزاد کرکے اُسے ایک زندہ و پائندہ یقین عطا کرتی ہے، ایسا یقین جو نہ تعصب کا اسیر ہوتا ہے اور نہ جمود کا پجاری۔ میں نے ہمیشہ کھلے دل کے ساتھ تحقیق کرنے والے لوگوں کے قلوب میں اترنے کی کوشش کی ہے، تاکہ یہ سمجھ سکوں کہ تبدیلی مذہب کے بعد وہ کیسا محسوس کرتے ہیں! ہر دفعہ جب میں کسی ایسے شخص سے ملا تو مجھے یہی محسوس ہوا کہ سچائی اپنے آپ کو عقل سے متصادم نہیں ہونے دیتی  اور جو عقیدہ عقل اور تحقیق سے خائف ہو، وہ سچائی کا ہمزاد نہیں ہوسکتا۔

میرے سمیت بہت سارے لوگ اپنے عقیدے کے بارے میں تحقیق کرنے کو کفر سمجھتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں تحقیق کرنے سے ان کا عقیدہ غلط ثابت نہ ہو جائے۔ بہت ہی کم افراد یہ جانتے ہیں کہ تحقیق ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس میں انسان کو اپنے عقیدے کی حقیقی اور اصلی صورت نظر آتی ہے۔ اگر تحقیق کے آئینے میں اپنا عقیدہ بدشکل نظر آئے تو سمجھ جانا چاہیئے کہ میرے پاس جو عقیدہ ہے، وہ دراصل ایک دھوکہ ہے۔ جو عقیدہ تحقیق سے ثابت ہو جائے، صرف وہی انسان کو مخلوق کے من گھڑت عقیدوں سے نجات دے سکتا ہے۔ ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے گذشتہ دنوں ساہیوال سے تعلق رکھنے والے الحاج خورشید احمد چوہان ایڈووکیٹ صاحب کی تبدیلی مذہب کی داستان "الہیٰ خزانہ" کے بارے میں دو قسطیں لکھی تھیں۔ ہمارا مقصد تب بھی جھوٹ کے پردوں سے سچ کو برآمد کرنا تھا اور آج بھی یہی ہے۔ آج آپ مرحوم و مغفور پٹواری محمد صادق کی تبدیلی مذہب کی  روداد اُنہی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے 1996ء میں اپنے اس روحانی و معنوی سفر کو قلمبند کیا، جو معمولی پروف ریڈنگ کے بعد من و عن قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

تجدیدِ مذہب و اسباب و علل
(انتساب کہ انسانی ضمیر کے اُن گوشوں کے نام جو حق سوچنے اور حق کہنے پر اُکساتے ہیں)
بقلم: مُنشی محمد صادق
1954ء کے موسمِ سرما کا واقعہ ہے۔ میں اپنے سسرال میں چند روزہ قیام کے بعد جب واپس اپنے گھر لوٹا تو والدِ محترم نے فرمایا کہ چند دن ہوئے ہیں کہ پیر سید گل حیدر شاہ صاحب، جو قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر گئے تھے، اب واپس مقبوضہ کشمیر (ہندوستان کے زیرِ قبضہ علاقہ) اپنے وطن پہنچ آئے ہیں۔ دورانِ ہجرت ہمارے خاندان نے بھی کچھ عرصہ پاکستان میں ان کے ساتھ گزارا تھا۔ تاہم، وہ ہم سے بعد میں وطن واپس آئے، کیونکہ ہم دو سال قبل ہی مقبوضہ کشمیر لوٹ چکے تھے۔ میں نے والد صاحب سے اُن کے موجودہ قیام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ شاہ صاحب اپنی زمین سے کچھ فاصلے پر، اپنے ایک ہم زلف کے ہاں مقیم ہیں اور یہاں آکر ہم سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ چونکہ ان کا ذاتی مکان فسادات (غدر) میں جل چکا تھا، اس لیے میں نے تھوڑا سا غلہ۔۔۔ مکئی وغیرہ۔۔۔ اکٹھا کیا اور ان سے ملاقات کی نیت سے روانہ ہوگیا۔

اس وقت میرے چچازاد بڑے بھائی بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ "یہ غلہ کس کے لیے ہے؟" میں نے جواب دیا کہ "یہ گیارہویں شریف کی بچی ہوئی مکئی ہے، جو میں شاہ صاحب کے لیے لے کر جا رہا ہوں۔" انہوں نے کہا کہ "لیکن شاہ صاحب تو شیعہ ہیں اور شیعہ غوثِ اعظمؒ کو نہیں مانتے۔ تم یہ ان کے لیے نہ لے کر جاؤ۔" میں نے کہا کہ "مجھے تو نہیں معلوم کہ وہ غوثِ پاک کو مانتے ہیں یا نہیں، لیکن اس وقت وہ ضرور محتاج اور امداد کے مستحق ہیں۔ اگر غوثِ اعظمؒ نے مجھے خواب میں شکوہ کیا کہ تُو نے میرے عاق کردہ شیعہ کو میرا حصہ کیوں دیا، تو میں اس کے بدلے میں اُن کے کسی اور ماننے والے کو مزید غلہ دے دوں گا۔" بہرحال، میں اُن کے ہاں گیا اور تھوڑا سا وہ غلہ بھی ساتھ لے گیا۔ کافی دیر ہم ایک دوسرے کی خیریت دریافت اور احوال پرسی کرتے رہے۔ میرے ذہن میں مسلسل بھائی کی وہی بات کھٹک رہی تھی۔ بالآخر میں نے ہمت کی اور شاہ صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ  "شاہ صاحب! کیا آپ مکتبِ تشیع سے تعلق رکھتے ہیں؟"

انہوں نے اطمینان سے جواب دیا کہ "ہاں، ایسا ہی ہے۔" میں نے عرض کیا کہ "ہمارے ہاں تو شیعہ ہونا بڑی معیوب بات سمجھی جاتی ہے، بلکہ شیعوں سے منسوب بہت سی منفی باتیں مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شیعہ لوگ اپنے متوفی رشتہ دار کے پیٹ سے غلاظت صاف کرنے کے لیے ایک ڈنڈے سے اُس کی صفائی کرتے ہیں، یعنی پیٹ میں ڈنڈا ڈال کر نجاست نکالتے ہیں اور اس کے بعد کفن دفن ہوتا ہے۔" شاہ صاحب نے یہ بات سن کر، میری توقع کے برخلاف، خفگی ظاہر کرنے کے بجائے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ "اگر آپ شیعہ کو ایک مسلک یا فرقہ سمجھتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ اس مسلک کی بھی کوئی مذہبی کتاب ضرور ہوگی، جس میں کفن و دفن کے احکامات درج ہوں گے اور اہلِ تشیع اسی کے مطابق عمل کرتے ہوں گے۔" میں نے کہا کہ "جی، کتاب تو ہونی چاہیئے۔" تب انہوں نے تجہیز و تکفین کے متعلق ایک چھوٹا سا فقہی رسالہ نکالا اور مجھے دیا، فرمایا کہ "اسے پڑھ کر دیکھیں کہ ہمارا طریقہ کیا ہے۔ اہلِ تشیع کی تجہیز و تکفین اسی کے مطابق ہوتی ہے۔"

میں نے تقریباً دس سے پندرہ منٹ میں اس کتابچے کو ترجمے کے ساتھ پڑھا، جس میں ایسی کسی حرکت کا ذکر نہ تھا۔ شاہ صاحب نے پوچھا کہ "پڑھ لیا ہے؟" میں نے جواب دیا کہ "جی ہاں، اس میں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا۔" شاہ صاحب نے فرمایا کہ "آپ کا امام دیہہ، جو غالباً آپ کا استاد بھی ہے، ہمارا ہمسایہ ہے۔ اس سے پوچھیں کہ کیا واقعی شیعہ ایسا کرتے ہیں۔؟ اگر وہ کہے کہ ہاں، تو اس سے کہیں کہ اہلِ تشیع کی کسی معتبر کتاب سے ایسا کرنا لکھا ہوا دکھا دے۔" چونکہ شاہ صاحب کا ذاتی مکان فسادات میں جل چکا تھا اور ان کا موجودہ پڑاؤ ہمارے امامِ دیہہ یعنی میرے مذہبی استاد کے مکان کے قریب ہی تھا، اس لیے میں نے شاہ صاحب سے اجازت لی اور امام صاحب کے پاس چلا گیا۔ ان دونوں کی زمینیں بھی ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ میں نے امام صاحب سے پوچھا کہ "کیا واقعی شیعہ لوگ اپنے متوفی کے پیٹ سے نجاست نکالنے کے لیے ایک ڈنڈے سے صفائی کرتے ہیں۔؟"

انہوں نے جواب دیا کہ "بالکل! ضرور ایسا ہی کرتے ہیں۔" میں نے عرض کیا کہ "اگر ایسا ہے تو یقیناً ان کی کسی مذہبی کتاب میں یہ ہدایت درج ہوگی۔" امام صاحب بولے کہ "میں نے خود ان کی کتابوں میں یہ بات پڑھی ہے۔" میں نے کہا کہ "کیا آپ ان کی کسی کتاب سے مجھے یہ بات لکھی ہوئی دکھا سکتے ہیں۔؟" انہوں نے جواب دیا کہ "میں چند دنوں میں اہلِ تشیع کی کسی کتاب سے یہ حوالہ نکال کر دکھا دوں گا۔" لیکن پھر دن، ہفتے اور مہینے گزر گئے۔ یہ معاملہ "آج اور کل، یہ دن اور وہ دن" کی نذر ہوتا گیا، حتیٰ کہ ایک سال بیت گیا، مگر وہ کوئی حوالہ نہ دکھا سکے۔ میرا ان دنوں میں تحصیل دفتر آنا جانا معمول تھا۔ سید گل حیدر شاہ صاحب بھی ایک تعویذات کی کتاب بغل میں دبائے روزانہ بازار آتے اور واپسی پر ہم دونوں اکٹھے گاؤں واپس جاتے۔ واپسی کے اس راستے میں، میں اکثر ان کے مذہبی نظریات سے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور پوچھ لیتا اور شاہ صاحب ہر بار ایسا مدلل اور اطمینان بخش جواب دیتے کہ میرے اندر کا شبہ دُور ہو جاتا۔

انہی دنوں محکمہ مال نے ہمارے ایک ملحقہ موضع میں بندوبست کا آغاز کیا۔ یہ موضع صرف ڈھائی میل مغرب کی جانب واقع تھا۔ یہاں مالی، بندوبستی اور امیدوار پٹواریان کی تربیت ہوتی تھی۔ میں بھی امیدوار پٹواری کی حیثیت سے وہاں پیمائش اور دیگر امور سیکھتا تھا۔ ایک دن عصر کے وقت وہاں کے تحصیلدار بندوبست کا ایک ہندو ریڈر سیر کرتے ہوئے آیا۔ اس نے کہا کہ "میں واپس جا رہا ہوں، غالباً تم بھی گھر جاؤ گے، آؤ اکٹھے چلتے ہیں۔" راستے میں اُس نے کہا کہ "میں ایک ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوں، امید ہے تم میری رہنمائی کرو گے۔" میں نے کہا کہ "کیا پریشانی ہے؟" وہ بولا کہ "کسی عام مسلمان یا مولوی سے اس بارے میں بات کرنے سے ڈر لگتا ہے، کہیں الٹا مسئلہ نہ بن جائے۔ تم سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ تم سوچ سمجھ کر بات کرتے ہو۔"

پھر اس نے کہا کہ "ہم ہندو گائے کا گوشت اس لیے حرام سمجھتے ہیں کہ ہم اس کا دودھ پیتے ہیں اور یوں وہ ہمارے لیے "ماتا" یعنی ماں کے درجے کی ہوتی ہے۔ اس لیے بطورِ احترام ہم اسے ذبح نہیں کرتے۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آپ مسلمان لوگ سور کا گوشت کیوں حرام سمجھتے ہیں۔؟" میں نے کہا کہ "قرآن نے اسے حرام کہا ہے۔" وہ بولا کہ "اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ قرآن میں یہ بات لکھی ہے، مگر میں ہندو ہوں۔ قرآن کو آسمانی کتاب نہیں مانتا، اس لیے قرآن کی بات میرے لیے حجت نہیں۔" میں نے کہا کہ "پھر میں کسی مولوی سے پوچھ کر آپ کو بتاؤں گا۔" میں نے بعد ازاں امامِ دیہہ سے پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ "یہ جانور بے غیرت ہے، اپنی ہی مادہ سے اجتماعی جفتی کرتا ہے، اسی لیے اسلام نے اسے نجس اور حرام قرار دیا ہے۔" میں نے اسی بنیاد پر اس ہندو ریڈر کو جواب دیا، لیکن وہ مطمئن نہ ہوا۔ وہ بولا کہ "یہ عمل تو میں نے دوسرے حلال جانوروں میں بھی دیکھا ہے، بلکہ اب تو انسان، جو اشرف المخلوقات ہے، وہ بھی اجتماعی جفتی کو روزمرہ کا معمول بنا چکا ہے۔" یہ جواب سن کر مجھے بھی کچھ تشویش ہوئی۔

ایک دن میں نے یہی سوال سید گل حیدر شاہ صاحب سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ "قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر ذکر ہے کہ نافرمانی کرنے والی اقوام مسخ ہو کر جانوروں کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ اہلِ ہنود کی کتابوں میں بھی اس سے بڑھ کر تفصیلات موجود ہیں کہ ان کے اوتاروں کی مخالفت کرنے والے افراد مختلف جانوروں کی شکل میں بدل دیئے گئے۔" انہوں نے بتایا کہ "ایک نبی کی بد دعا کے نتیجے میں ان کی قوم مسخ ہو کر سور بن گئی، اسی وجہ سے قرآن نے اسے حرام قرار دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ حکم نہ دیتا تو انسانوں کے لیے انسان خوری کا جواز پیدا ہو جاتا۔" جب میں نے یہی بات اس ہندو ریڈر کو بتائی تو وہ قدرے مطمئن ہوگیا۔ اب پہلے مسئلے یعنی متوفی شیعہ کے پیٹ کی صفائی سے متعلق، مزید عرض ہے کہ میرے مکان سے دو، اڑھائی فرلانگ دور ایک اہلِ ہنود ٹھیکیدار کی الاٹ شدہ زمین تھی۔ ایک دن وہاں ان کے مویشی خانہ کی لادئی (چھت بندی) کا کام ہو رہا تھا۔ اس زمین کو میرے استاد، یعنی امامِ دیہہ نے "خلہ بٹائی" پر کاشت کر رکھا تھا۔

غدر 1947ء سے قبل یہ اراضی پانچ سال تک اس ہندو الاٹی کی ذاتی ملکیت تھی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ زمین ڈاکٹر فقیر محمد (نیریاں چوکیاں والے) کو فروخت کر دی تھی، جو بعد ازاں راولپنڈی منتقل ہوگئے۔ اب وہی سابقہ مالک 1947ء کے فسادات کے بعد اس زمین کا الاٹی بن کر واپس آیا تھا۔ ہمارے خاندان کے اس ہندو ٹھیکیدار سے پرانے مراسم بھی تھے۔ اس دن، دورانِ لادئی (چھت بندی)، میں، میرے استاد (امامِ دیہہ) اور وہ ہندو ٹھیکیدار تینوں موجود تھے۔ اسی اثناء میں سید گل حیدر شاہ صاحب ایک عزیز کی بیمار پرسی کے بعد وہاں سے گزرے اور اپنے گھر جا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر امام صاحب نے بلند آواز میں کہا کہ "شاہ صاحب، ذرا ادھر آئیں، آج آپ سے مناظرہ ہوگا!" شاہ صاحب، جو قدرے تیزی سے اپنے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے، رک گئے اور بولے کہ "میں مناظرہ نہیں کروں گا۔ تم شرارت کرنا چاہتے ہو۔" تب میں نے مداخلت کی اور کہا کہ "شاہ صاحب، آپ تشریف لائیں، میری موجودگی میں کوئی آپ سے بدتمیزی نہیں کرسکتا۔" شاہ صاحب مجھ پر بھروسا کرکے واپس آگئے۔

میں نے دونوں فریقوں سے کہا کہ "آپ دونوں کی بات چیت کے دوران کوئی ثالث ہونا چاہیئے، تاکہ معاملہ فیصلہ کن ہو۔" دونوں نے ثالث کے طور پر اس ہندو ٹھیکیدار کو تسلیم کر لیا، جو ایک معتدل مزاج اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ جب گفتگو کا آغاز ہوا تو میرے استاد نے سید گل حیدر شاہ صاحب کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے شور مچانا شروع کر دیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہاں موجود لوگ شاہ صاحب پر حملہ کر دیں۔ مگر عین اُس وقت ہندو ٹھیکیدار بول اٹھا کہ "مولوی صاحب! اگر آپ کے پاس ان کے سوالات کا جواب نہیں ہے تو شور کیوں مچا رہے ہیں۔؟" ٹھیکیدار کی یہ بات سب کے لیے فیصلہ کن سمجھی گئی۔ امام صاحب بوکھلا گئے۔ میں نے موقع مناسب جانا اور امام صاحب سے عرض کیا کہ "مولوی صاحب، ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ شیعہ متوفی کے پیٹ میں گز ڈالنے کا ثبوت شیعہ مذہبی کتاب سے دیں گے۔ مگر آپ آج تک کوئی حوالہ نہ دے سکے۔" وہ بولے کہ  "میں اب بھی تلاش میں ہوں، کتاب مل نہیں رہی۔"

میں نے کہا کہ "اگر واقعی ایسی کوئی کتاب ہوتی، تو ایک سال میں کہیں نہ کہیں سے ضرور مل جاتی۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی کوئی بات اہلِ تشیع کی کتابوں میں موجود ہی نہیں۔" تب میں نے سب کے سامنے اعلان کیا کہ "آج میں ان تمام لوگوں کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں شیعہ مذہب اختیار کرتا ہوں۔ اگر آپ اگلے ایک سال میں بھی اس الزام کا کوئی مستند حوالہ اہلِ تشیع کی کسی کتاب سے پیش کرسکے، تو میں دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ آؤں گا۔" میرا یہ اعلان میرے قبیلے اور اہلِ دیہہ کے لیے ایک دھچکہ تھا، لیکن چونکہ کوئی بھی میرے دلائل کا جواب نہ دے سکا، اس لیے کسی نے ظاہراً مخالفت نہ کی۔ یوں غلط الزامات اور توہمات کی کلی کھلنے کی بنیاد پر میں نے مکتبِ اہلِ بیت سے اپنا تعلق جوڑ لیا۔ اس واقعے کے بعد میں سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے ضلعی ہیڈکوارٹر، پونچھ چلا گیا۔ ایک روز وہاں ایک مجلسِ عزا کے لیے اعلان سنا، جو میرے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ میں نے پہلی بار کسی مجلس میں شرکت کی۔

ابتدا میں مجلس کا آغاز ماتم سے ہوا، جو اُس وقت میرے لیے ایک اجنبی اور بظاہر بے مقصد عمل محسوس ہوا۔ دل کو تسلی دی کہ "جس مکتبِ اہلِ بیتؑ کے دیگر کئی مسائل میرے دل کو بھا گئے ہیں، شاید کچھ عرصہ بعد یہ عملِ ماتم بھی مجھے قابلِ قبول لگنے لگے۔" اس کے بعد علمائے کرام اور ذاکرین نے وعظ فرمایا۔ میں چونکہ مجلس میں نیا اور اجنبی تھا، تو کچھ لوگ میرے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مجھ سے میرا تعارف پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں مہنڈر کا رہائشی، پٹواری کے پیشے سے وابستہ ہوں اور فلاں فلاں وجوہات کی بنا پر، شیعہ مذہب اختیار کرچکا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ "میرے پاس مکتبِ اہلِ بیتؑ کی کوئی کتاب نہیں ہے۔" انہوں نے مجھے لکھنؤ کے اہلِ تشیع کتب خانوں کے پتے دیئے۔ چنانچہ میں نے وہاں سے کتابیں منگوائیں، مطالعہ کیا اور پھر دوسروں کو بھی حقائق سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں ایک ذریعۂ تفکر بن گیا۔

سوچنے سمجھنے والے سادات کی بستیاں آہستہ آہستہ مکتبِ اہلِ بیتؑ میں آنے لگیں۔ میں نے اپنے کئی ہم جلیس افراد کو مذہبِ حقّہ خیرالبریہ کی جانب راغب کیا۔ ان میں تحصیلدار سید عبد القیوم شاہ صاحب بھی شامل تھے، جو ترقی پا کر اسسٹنٹ کمشنر پونچھ بن گئے تھے۔ وہ مجھے اپنا معنوی رہبر سمجھتے اور اکثر کہا کرتے کہ "منشی صاحب! مجھے میرے والد نے بچپن میں ڈرایا تھا کہ یہ شیعہ لوگ آدمی کھاتے ہیں۔" اسی طرح مولوی خادم حسین شاہ صاحب (گورساہی) بھی ہماری صحبت میں آئے، سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوئے اور پھر اپنے علاقے میں مکتبِ اہلِ بیتؑ کو خوب پھیلایا۔ یہ وہی خادم حسین شاہ ہیں، جن کا ذکر تونس کے ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی کی مشہور کتاب "پھر میں ہدایت پا گیا" کے اردو ترجمے کے مقدمے میں موجود ہے۔ 1965ء کے بعد میں نے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آکر سکونت اختیار کی۔ یہاں 1947ء اور 1965ء کے مہاجرین میں ہمارے کئی قریبی رشتہ دار بھی موجود تھے۔

1989ء میں میں نے ریٹائرمنٹ لے لی، مگر کچھ افراد نے میرے ساتھ ذاتی رنجش کو مذہبی رنگ دے دیا۔ انہوں نے دیہات و شہروں میں وفود بھیجے اور برادری کو یہ کہہ کر مشتعل کیا کہ "چونکہ شیعہ کافر ہیں، اس لیے ہم نے اپنے حقیقی چچا، منشی صادق سے سوشل بائیکاٹ کر دیا ہے۔ کوئی بھی فرد نہ اس کی خوشی میں شریک ہو اور نہ اسے اپنی خوشی میں شریک کرے۔" یوں مجھے سماجی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ ان لوگوں نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اس بائیکاٹ نے مجھے روحانی اور جسمانی عوارض میں مبتلا کر دیا۔ ایسے وقت میں مجھے اللہ کی یہ آیت سہارا دیتی رہی کہ  "وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۗ أَتَصْبِرُونَ" (یعنی کہ ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے آزمائش بنایا، کیا تم صبر کرو گے۔؟) سورۃ الفرقان، آیت 20۔ ربّ کریم نے اپنے اس ابدی قانون کے تحت میری بھی آزمائش کی۔ یہ تھا میرے تجدیدِ مذہب اور زندگی کے نشیب و فراز کا مختصر مگر سچا، ذاتی اور ناقابلِ انکار خاکہ جس کے متعلق اکثر لوگ مجھ سے دریافت کرتے رہتے ہیں۔ (منشی محمد صادق صاحب یکم فروری 2018ء بروز جمعرات کو اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔ التماسِ فاتحہ)

آخر میں مذکورہ بالا تحریر کا مطالعہ کرنے والے قارئین کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی محض سانس کی آمد و رفت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک باطنی جہاد ہے، جہادِ فکر، جہادِ صداقت اور جہاد تبیینِ حق۔ یہ تحریر ایک ایسے مسافرِ حق کا اعترافی بیانیہ ہے کہ جس نے موروثی عقیدے کے بوجھ، تعصب کی دیوار اور موروثی مذہب کے پردوں کو چاک کرکے، شعور و آگہی کی روشنی میں حق کو پہچانا۔ وہ سچ جسے صدیوں سے چھپایا جاتا رہا، اسے اس مسافرِ تحقیق نے نہ فقط تلاش کیا بلکہ پرکھا اور قبول بھی کیا۔ یعنی سچ کے اعتراف کیلئے حالات و مشکلات کے زہر کا جام پیا۔ یہ تحریر ہمارے قارئین کو ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی کہ مذہب اگر تحقیق سے محروم ہو جائے تو تعصب بن جاتا ہے اور ایمان اگر عقل سے خالی ہو تو اندھی تقلید بن جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سید گل حیدر شاہ صاحب نے جواب دیا کہ ہندو ٹھیکیدار میں نے کہا کہ سمجھتے ہیں بن جاتا ہے فرمایا کہ عقیدے کے یہ تحریر انہوں نے کرتے ہیں یہ ہے کہ تشیع کی کتاب سے میں بھی ہو جائے کی کتاب کہ میرے لیے ایک سے پوچھ ہیں اور ایک سال اس لیے کر دیا کی کسی یہ بات کے لیے ہیں کہ تو میں کیا کہ کے بعد کے پیٹ

پڑھیں:

چیلنج ہے سیاسی و جمہوری طریقے سے حکومت گرا کر دکھاؤ: گنڈا پور

اسلام آباد(نوائے وقت رپورٹ+وقائع نگار) وزیراعلیٰ خیبرپی کے علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ چیلنج ہے سیاسی اور جمہوری طریقے سے حکومت گرا کر دکھاؤ۔ ڈسٹرکٹ کورٹس اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ، 5 اگست کو ملک بھر سے لوگ احتجاج کیلئے نکلیں گے ، بانی رہا ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مقدمات سے گھبرانے والے نہیں، میرے اوپر جھوٹے اور من گھڑت مقدمات بنائے گئے ہیں، ہم ہمیشہ سے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میرے خلاف یہ کیس 2016 سے چل رہا ہے ، میرے خلاف جو کیس بنایا گیا ہے اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہے ، میرے اوپر اسلحہ اور بوتلیں ڈالی گئی ہیں، جب یہ کیس بنایا گیا میں نہ ہی وہاں موجود تھا نہ ہی وہ گاڑی میری تھی۔ ہماری جنگ حق کی ہے یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے ، میں اپنے صوبے میں اس احتجاج کو لیڈ کروں گا۔ دوسری جانب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں شراب اور اسلحہ برآمدگی کیس کی سماعت ہوئی، عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے پر وزیراعلیٰ خیبرپی کے علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیئے گئے ۔جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسن چشتی نے کیس پر سماعت کی، علی امین گنڈا پور اپنے وکیل راجہ ظہور الحسن کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ۔ بعدازاں عدالت نے وزیراعلیٰ خیبرپی کے کو جانے کی اجازت دے دی، علی امین گنڈاپور کے ضمانتی کو دیا گیا شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ میں بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں، جمشید دستی
  • میرے لیے علیزے شاہ زیرو ہے، روبینہ اشرف کا تبصرہ وائرل
  • چیلنج ہے سیاسی و جمہوری طریقے سے حکومت گرا کر دکھاؤ: گنڈا پور
  • ’’ ہمایوں نامہ ‘‘
  • توہینِ مذہب کے الزامات کی تحقیقات پر کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ معطلی کا تحریری حکم نامہ جاری
  • چیلنج ہے سیاسی اور جمہوری طریقے سے ہماری حکومت گرا کر دکھائو، علی امین گنڈاپور
  • میرے بیٹے احتجاج کے لیے پاکستان نہیں آئیں گے، عمران خان