بلوچستان میں لڑکی اور لڑکے کو غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کا واقعہ سامنے آیا تو چند ہی دنوں میں ملک کے مختلف حصوں سے اسی نوعیت کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے، جنہوں نے معاشرے کے اجتماعی رویے اور ریاستی ردِعمل پر نئے سوالات کھڑے کر دیے۔

صرف 2 ہفتوں کے اندر اندر سندھ اور جنوبی پنجاب سے بھی ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں خواتین کو خاندان کی ’عزت‘ بچانے کے لیے قتل کر دیا گیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے مطابق، پاکستان میں ہر سال اوسطاً 500 سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ 2023 میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 479 تھی، لیکن ماہرین کے مطابق یہ اصل تعداد سے کہیں کم ہے کیونکہ کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

مزید پڑھیں: کراچی: میاں بیوی قتل کیس میں نیا موڑ، مقتول کے والد کے بیان سے تفتیش کا رخ تبدیل

گزشتہ چند ہفتوں میں خواتین کے قتل کے حوالے سے کئی کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں کچھ وہ بھی شامل تھے جو پہلے ہو چکے تھے، مگر سوشل میڈیا پر دوبارہ ان کا ذکر ہونے لگا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی غیرت کے نام پر قتل کی شرح اچانک بڑھ گئی ہے؟ یا یہ وہی واقعات ہیں جو پہلے بھی ہوتے تھے، مگر اب رپورٹنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے؟

اس حوالے سے سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ جب کوئی واقعہ قومی سطح پر خبروں میں آتا ہے تو یہ دیگر متاثرہ لوگوں کو بھی ہمت دیتا ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں۔ میڈیا کی توجہ وقتی طور پر اداروں کو بھی متحرک کر دیتی ہے، جس سے مزید کیسز سامنے آتے ہیں۔

فرزانہ باری کے مطابق، اس طرح معاشرتی خاموشی ٹوٹنے لگتی ہے، اور رپورٹنگ کی ہمت صرف متاثرین میں ہی نہیں بلکہ مقامی رپورٹرز، پولیس اور سماجی اداروں میں بھی پیدا ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: مستونگ، پسند کی شادی کرنے والا جوڑا 7 سال بعد غیرت کے نام پر قتل

ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم (SADF) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل میں سزا کی شرح صرف 5 فیصد سے بھی کم ہے، جس سے مجرموں کو ایک طرح سے غیر اعلانیہ چھوٹ مل جاتی ہے۔

راولپنڈی پولیس کے ایک افسر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی معاملہ میڈیا میں چھا جاتا ہے، تو پولیس فورس پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ فوری کارروائی کرے، چاہے وہ مقدمے کا اندراج ہو، گرفتاری یا پریس ریلیز۔ اور اگر اس دوران اس قسم کا کوئی اور واقعہ پیش آ جائے، تو پولیس چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کر پاتی۔ حتیٰ کہ بعض کیسز میں بڑے اثر و رسوخ والے لوگ ملوث ہوتے ہیں، مگر ایک کیس کے بعد دوسرا کیس بھی کسی نہ کسی طرح منظرِ عام پر آ ہی جاتا ہے، اور پولیس کو ہر صورت اس کی ایف آئی آر درج کرنا ہوتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عام دنوں میں بہت سے کیسز میں پولیس خود بھی معاملات کو طول دیتی ہے، اور ہم میں سے ہی کئی لوگ سفارشات پر بعض شکایات کو درج نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے تو اداروں پر بھی دباؤ آ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: غیرت کے نام پر 17 سالہ سدرہ کے قتل میں ملوث والد، بھائی اور سابق شوہر نے اعتراف جرم کرلیا

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سوشیالوجسٹ سائرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ایک سنگین واقعہ دراصل پورے معاشرے میں موجود چھپے ہوئے مسائل کو بے نقاب کر دیتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اب اس پر بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایک کیس جب میڈیا میں آتا ہے تو وہ دیگر متاثرین کو آواز دیتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ شاید اب انہیں بھی سنا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ریاست ان مواقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال رکھے، میڈیا مسلسل کوریج دے اور عدلیہ فوری انصاف فراہم کرے، تو یہ وقتی بیداری ایک دیرپا تبدیلی میں بدل سکتی ہے۔

پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو ‘قابلِ معافی’ جرم تصور نہیں کیا جاتا، تاہم عملی طور پر کئی کیسز میں صلح یا دباؤ کے تحت ملزمان چھوٹ جاتے ہیں، جس سے انصاف کے عمل پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

HRCP بلوچستان راولپنڈی پولیس غیرت کے نام پر قتل فرزانہ باری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان راولپنڈی پولیس غیرت کے نام پر قتل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان غیرت کے نام پر قتل کے مطابق

پڑھیں:

دنیا میں صحافی قتل کے 10 میں سے 9 واقعات غیر حل شدہ ہیں: انتونیو گوتریس

نیویارک (ویب ڈیسک )اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ آج کے دن ہم صحافیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے 10 میں سے تقریباً 9 واقعات غیر حل شدہ ہیں۔

اپنے بیان میں انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ غزہ کسی بھی تنازع میں صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر آزاد اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں، سزا نہ ملنا صرف متاثرین اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ناانصافی نہیں بلکہ صحافتی آزادی پر حملہ ہے۔

یو این کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ سزا نہ ملنا مزید تشدد کو بڑھاتا ہے اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہے، تمام حکومتوں کو ہر کیس کی تحقیقات کرنی چاہئیں، ہر مجرم کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔

انتونیو گوتیرس نے کہا کہ تمام حکومتوں کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافی ہر جگہ اپنے فرائض آزادانہ طور پر انجام دے سکیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ جب صحافیوں کو خاموش کیا جاتا ہے تو ہم سب اپنی آواز کھو دیتے ہیں، آئیں ہم سب مل کر ایک ساتھ کھڑے ہو کر صحافتی آزادی کا دفاع کریں۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد، ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہونے لگا
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • دنیا میں صحافی قتل کے 10 میں سے 9 واقعات غیر حل شدہ ہیں: انتونیو گوتریس
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی
  • اہل کاروں کے کرپشن کیسز سامنے آنے کے بعد ڈی جی  این سی سی آئی اے کا بڑا فیصلہ
  • اہل کاروں کے کرپشن کیسز سامنے آنے کے بعد ڈی جی این سی سی آئی اے کا بڑا فیصلہ
  • خواتین کے سرطان کے 40 فیصد کیسز چھاتی کے سرطان پر مشتمل ہیں
  • ماتلی ، ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ، کوئی اقدامات نہیں کیے گئے
  • کراچی میں رات گئے مختلف حادثات و واقعات میں 3 افراد جاں بحق