غیرت کے نام پر قتل: رپورٹنگ بڑھی یا لرزہ خیز واقعات بڑھ گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
بلوچستان میں لڑکی اور لڑکے کو غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کا واقعہ سامنے آیا تو چند ہی دنوں میں ملک کے مختلف حصوں سے اسی نوعیت کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے، جنہوں نے معاشرے کے اجتماعی رویے اور ریاستی ردِعمل پر نئے سوالات کھڑے کر دیے۔
صرف 2 ہفتوں کے اندر اندر سندھ اور جنوبی پنجاب سے بھی ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں خواتین کو خاندان کی ’عزت‘ بچانے کے لیے قتل کر دیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے مطابق، پاکستان میں ہر سال اوسطاً 500 سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ 2023 میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 479 تھی، لیکن ماہرین کے مطابق یہ اصل تعداد سے کہیں کم ہے کیونکہ کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
مزید پڑھیں: کراچی: میاں بیوی قتل کیس میں نیا موڑ، مقتول کے والد کے بیان سے تفتیش کا رخ تبدیل
گزشتہ چند ہفتوں میں خواتین کے قتل کے حوالے سے کئی کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں کچھ وہ بھی شامل تھے جو پہلے ہو چکے تھے، مگر سوشل میڈیا پر دوبارہ ان کا ذکر ہونے لگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی غیرت کے نام پر قتل کی شرح اچانک بڑھ گئی ہے؟ یا یہ وہی واقعات ہیں جو پہلے بھی ہوتے تھے، مگر اب رپورٹنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے؟
اس حوالے سے سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ جب کوئی واقعہ قومی سطح پر خبروں میں آتا ہے تو یہ دیگر متاثرہ لوگوں کو بھی ہمت دیتا ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں۔ میڈیا کی توجہ وقتی طور پر اداروں کو بھی متحرک کر دیتی ہے، جس سے مزید کیسز سامنے آتے ہیں۔
فرزانہ باری کے مطابق، اس طرح معاشرتی خاموشی ٹوٹنے لگتی ہے، اور رپورٹنگ کی ہمت صرف متاثرین میں ہی نہیں بلکہ مقامی رپورٹرز، پولیس اور سماجی اداروں میں بھی پیدا ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: مستونگ، پسند کی شادی کرنے والا جوڑا 7 سال بعد غیرت کے نام پر قتل
ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم (SADF) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل میں سزا کی شرح صرف 5 فیصد سے بھی کم ہے، جس سے مجرموں کو ایک طرح سے غیر اعلانیہ چھوٹ مل جاتی ہے۔
راولپنڈی پولیس کے ایک افسر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی معاملہ میڈیا میں چھا جاتا ہے، تو پولیس فورس پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ فوری کارروائی کرے، چاہے وہ مقدمے کا اندراج ہو، گرفتاری یا پریس ریلیز۔ اور اگر اس دوران اس قسم کا کوئی اور واقعہ پیش آ جائے، تو پولیس چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کر پاتی۔ حتیٰ کہ بعض کیسز میں بڑے اثر و رسوخ والے لوگ ملوث ہوتے ہیں، مگر ایک کیس کے بعد دوسرا کیس بھی کسی نہ کسی طرح منظرِ عام پر آ ہی جاتا ہے، اور پولیس کو ہر صورت اس کی ایف آئی آر درج کرنا ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عام دنوں میں بہت سے کیسز میں پولیس خود بھی معاملات کو طول دیتی ہے، اور ہم میں سے ہی کئی لوگ سفارشات پر بعض شکایات کو درج نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے تو اداروں پر بھی دباؤ آ جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: غیرت کے نام پر 17 سالہ سدرہ کے قتل میں ملوث والد، بھائی اور سابق شوہر نے اعتراف جرم کرلیا
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سوشیالوجسٹ سائرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ایک سنگین واقعہ دراصل پورے معاشرے میں موجود چھپے ہوئے مسائل کو بے نقاب کر دیتا ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اب اس پر بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایک کیس جب میڈیا میں آتا ہے تو وہ دیگر متاثرین کو آواز دیتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ شاید اب انہیں بھی سنا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ریاست ان مواقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال رکھے، میڈیا مسلسل کوریج دے اور عدلیہ فوری انصاف فراہم کرے، تو یہ وقتی بیداری ایک دیرپا تبدیلی میں بدل سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311 کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو ‘قابلِ معافی’ جرم تصور نہیں کیا جاتا، تاہم عملی طور پر کئی کیسز میں صلح یا دباؤ کے تحت ملزمان چھوٹ جاتے ہیں، جس سے انصاف کے عمل پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
HRCP بلوچستان راولپنڈی پولیس غیرت کے نام پر قتل فرزانہ باری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان راولپنڈی پولیس غیرت کے نام پر قتل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان غیرت کے نام پر قتل کے مطابق
پڑھیں:
غیرت کے نام پر قتل کی روکتھام کیلئے اقدامات کرینگے، ترجمان حکومت بلوچستان
اپنے بیان میں صوبائی ترجمان نے کہا کہ کوئٹہ میں دہرے قتل کا کیس تفتیش کے مراحل میں ہے۔ کسی کو بھی قتل کرنیکی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی روک تھام کیلئے جو ممکن قانون سازی ہوگی وہ کی جائے گی۔ اپنے بیان میں صوبائی ترجمان نے کہا کہ کوئٹہ میں دہرے قتل کا کیس تفتیش کے مراحل میں ہے۔ کسی کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعے پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے واضح مؤقف اختیار کیا اور بہت سی جماعتوں سے بات چیت کی ہے۔