اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں بڑھنے کا امکان، طلبہ و طالبات کے لیے بڑی خبر
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
بلوچستان میں شدید گرمی کی لہر کے باعث تعلیمی اداروں کی گرمیوں کی تعطیلات میں توسیع کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ محکمہ تعلیم نے اسکولوں کو فوری طور پر کھولنے کے بجائے 12 اگست تک بند رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ہنگامی مراسلہ ارسال کر دیا ہے۔
شدید گرمی تعلیمی نظام کے لیے خطرہمحکمہ موسمیات کے مطابق اگست کے ابتدائی 2 ہفتے بلوچستان میں شدید گرمی کی لپیٹ میں رہیں گے، اور درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسی تناظر میں، محکمہ تعلیم نے گرمی کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی ادارے کھولنے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے نجی اسکولز کی من مانی، محکمہ تعلیم کے احکامات ہوا میں اڑا دیے
ماہرین صحت کی وارننگطبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس درجہ حرارت میں بچوں کو اسکول بھیجنا ان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں جہاں سہولیات محدود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے موسم گرما کی تعطیلات 14 اگست تک بڑھانے کا فیصلہ، نوٹیفکیشن جاری
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور آئندہ 24 گھنٹوں میں اسکولوں کی تعطیلات میں توسیع سے متعلق حتمی اعلان متوقع ہے۔
پنجاب میں شیڈول برقرار، مگر خدشات موجوددوسری جانب پنجاب میں پہلے سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق گرمیوں کی تعطیلات 15 اگست 2025 تک مقرر ہیں، اور تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے اسی تاریخ کو دوبارہ کھلیں گے۔ تاہم گرمی کی شدت کے پیش نظر والدین میں تشویش پائی جا رہی ہے کہ کہیں تعطیلات میں توسیع نہ کر دی جائے۔
یہ بھی پڑھیے شدید گرمی یا درسی کتب کی چھپائی میں تاخیر؛ سندھ کے اسکولوں کی تعطیلات میں اضافہ کیوں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسکول 15 اگست کو کھل جائیں گے، لیکن مکمل حاضری اور تدریسی عمل کا باقاعدہ آغاز 18 اگست (پیر) سے متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان تعلیمی ادارے موسم گرما کی تعطیلات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان تعلیمی ادارے موسم گرما کی تعطیلات تعطیلات میں کی تعطیلات گرمی کی کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندوتوا بھارتی حکومت کیطرف سے اگست 2019ء میں 370 اور 35 اے دفعات کی منسوخی کے بعد بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے اگست 2019ء سے اب تک مقبوضہ علاقے میں کئی خواتین سمیت 1 ہزار 43 افراد کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں اکثر نوجوان تھے۔ اس عرصے کے دوران 2 ہزار 6 سو 56 سے زائد افرار کو زخمی جبکہ 29 ہزار 9 سو 97 سے زائد کو شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ دریں اثنا بھارتی فورسز نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں گزشتہ ماہ(اکتوبر) میں 2 کشمیریوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا۔بھارتی فوجیوں، پولیس، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) کی ٹیموں نے محاصرے اور تلاشی کی 244 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 42 شہریوں کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان اور طلباء شامل ہیں۔
گرفتار کیے جانے والوں میں سے بیشتر کے خلاف ”پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران 20 کشمیریوں کے مکان، اراضی اور دیگر املاک ضبط کی گئیں جبکہ دو کشمیری مسلم ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ بھارتی فورسز اہلکاروں نے اکتوبر میں دو کشمیری خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد شاہ ڈار، سید شاہد شاہ،، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، شاہد الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ظفر اکبر بٹ، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، رفیق احمد گنائی، فردوس احمد شاہ، سلیم ننا جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عمر عادل ڈار، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اور صحافی عرفان مجید سمیت 3 ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں جہاں انہیں طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وادی کشمیر میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دنیا جنوبی ایشیا میں ایک اور فلسطین جیسی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ بی جے پی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی کررہی ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں نہتے لوگوں پر جاری بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالے۔