Daily Mumtaz:
2025-08-02@01:57:12 GMT

لارڈ سرفراز یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کے چوتھے چانسلر مقرر

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

لارڈ سرفراز یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کے چوتھے چانسلر مقرر

لندن(نیوز ڈیسک)یونیورسٹی آف ایسٹ لندن (UEL) نےپاکستانی نژادبرطانوی شہری پاکستانی عامر احمد سرفراز، لارڈ سرفراز آف کینسنگٹن کو اپنا نیا چانسلر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کی تعیناتی آج سے ہوگی۔

لارڈ سرفراز، جو برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے ممتاز رکن اور کاروبار، عوامی خدمت اور فلاحی کاموں میں نمایاں قیادت کے حامل ہیں، یونیورسٹی کے مطابق اس اہم وقت میں عالمی تجربے کا منفرد امتزاج لے کر آ رہے ہیں۔ بطور چانسلر وہ یونیورسٹی کے سفیر کی حیثیت سے طلبہ، مشن اور اسٹریٹجک وژن کو فروغ دیں گے۔

یہ تقرری اس وقت ہوئی ہے جب یونیورسٹی “ویژن 2028” پر عمل درآمد کر رہی ہے، جس کا مقصد یونیورسٹی کو برطانیہ کی صفِ اول کی “کیرئیرز فرسٹ” یونیورسٹی بنانا ہے، جہاں شمولیت، پائیداری اور جدت پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر امانڈا بروڈیرک نے کہا:
“لارڈ سرفراز کی بطور چانسلر تقرری ہمارے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ان کی قیادت میں طلبہ کے لیے ایسا ماحول فراہم ہوگا جہاں ہر پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کامیاب ہو سکیں۔ ان کی پائیداری کے حوالے سے قیادت ہمارے 2030 تک نیٹ زیرو کاربن کے ہدف سے ہم آہنگ ہے۔”

لارڈ سرفراز نے 2019 میں ہاؤس آف لارڈز میں نامزدگی حاصل کی اور 2020 میں بارون سرفراز آف کینسنگٹن بنے۔ وہ 2022 سے 2024 تک وزیراعظم کے سنگاپور کے لیے تجارتی نمائندے بھی رہے اور اس وقت نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی کی مشترکہ کمیٹی کے رکن ہیں۔

بطور وینچر کیپیٹلسٹ اور نیٹ زیرو ایگ کے بانی، جو ترقی پذیر خطوں میں پائیدار زراعت کی معاونت کرتا ہے، ان کا کیریئر یونیورسٹی کے ویژن 2028 کے معاشی خودمختاری اور ماحولیاتی قیادت کے اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ مختلف ٹیکنالوجی کمپنیوں اور فنڈز کے سینئر مشیر بھی ہیں جبکہ ان کی فلاحی سرگرمیاں لارڈ سرفراز فاؤنڈیشن کے ذریعے تعلیم اور مواقع پر مرکوز ہیں۔

لارڈ سرفراز نے کہا:
“یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کا نیا چانسلر بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ UEL نے ہمیشہ متنوع کمیونٹیز کی خدمت، مواقع فراہم کرنے اور طلبہ کو مستقبل بنانے کی صلاحیت دینے کی شاندار تاریخ رکھی ہے۔ میں اس مشن کو آگے بڑھانے اور نئی نسل کے لیڈرز اور انوویٹرز کی حمایت کرنے کا منتظر ہوں۔”

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: لارڈ سرفراز

پڑھیں:

مغربی تعلیم زوال پذیر کیوں ہے؟

 ریچل مارسڈن کی تحریر سے ماخوذ

مغربی دنیا کے تعلیمی نظام کو درپیش بحران اب محض خدشہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ ریچل مارسڈن، جو کہ ایک معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، نے اپنی حالیہ تحریر میں کینیڈا اور فرانس جیسے ممالک میں تعلیمی انحطاط کی گہرائی سے نشاندہی کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ’احساسات کو مقدم رکھنے‘ والی تعلیم نے علمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انفرادی کارکردگی سے اجتماعی ہم آہنگی تک

مارسڈن کے مطابق تعلیمی ادارے اب انفرادی کارکردگی کے بجائے ’اجتماعی تعاون‘ کو ترجیح دے رہے ہیں۔

کامیاب طلبہ کی تصاویر ہٹا کر ان کی جگہ مختلف اقلیتوں کے پرچم اور سروے نتائج لگا دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ طلبہ بیت الخلا تک جانے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کا سابقہ نعرہ ’ہم برتری کے طالب ہیں‘ اب بے معنی دکھائی دیتا ہے۔

معیار کے بجائے نرمی کا غلبہ

برٹش کولمبیا (کینیڈا) جیسے علاقوں نے ریاضی، کیمیا، فزکس جیسے مضامین کے معیاری ٹیسٹ ختم کر دیے ہیں۔ ان کی جگہ صرف لٹریسی اور نمبریسی کے عمومی ٹیسٹ باقی رہ گئے ہیں۔

ٹیسٹ کے سوالات بچوں کو چیلنج کرنے کے بجائے ان کی سطح سے نیچے رکھے جا رہے ہیں۔

سوالات اتنے آسان ہیں کہ گویا 7 سال کے بچے سے پوچھے جا رہے ہوں، نہ کہ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے امیدوار سے۔

گریڈنگ سسٹم میں تبدیلی

اب گریڈز کی جگہ مختلف الفاظ نے لے لی ہے مثلاً ’ابھرتا ہوا، ترقی کرتا ہوا، ماہر، یا آگے بڑھتا ہوا، وغیرہ۔

یہ تبدیلی کسی کی کمی کو اجاگر نہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن اصل دنیا میں ایسی نرمی کی کوئی جگہ نہیں۔ مارچسن کے بقول، یہی طالبعلم بعد میں سوشل میڈیا پر ’احمق‘ کہلا کر شدید تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔

فرانسیسی تجربہ: ناکامی کے بعد واپسی

فرانس نے بھی 2019 میں ہائی اسکول کے لیے ریاضی کو نصاب سے نکال دیا، مگر نتائج اتنے خراب آئے کہ حکومت کو 2023 میں فیصلہ واپس لینا پڑا۔

حالیہ امتحانات میں ہدایات دی گئیں کہ املا اور گرامر کی غلطیوں پر مکمل نمبر نہ کاٹے جائیں بلکہ صرف سمجھ آنے پر توجہ دی جائے۔

تنقیدی سوچ کی کمی

مارسڈن طنزیہ انداز میں بتاتی ہیں کہ جب طلبہ فلسفے کے پرچے میں ’ preponderant ‘ جیسے عام الفاظ کے معانی بھی نہیں سمجھ پاتے، تو پھر ان کی علمی بنیادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔

آخر یہ طلبہ گریجویشن کے بعد کس معیار پر کھڑے ہوں گے؟

’محفوظ جگہ‘ مگر کمزور علم

مارسڈن کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب میں تعلیم اب حقیقت سے زیادہ احساسات کے گرد گھومنے لگی ہے۔ سختی اور معیار کو ظلم سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجتاً ہم ایسے گریجویٹس دیکھ رہے ہیں جو دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے صرف ’سیف اسپیس‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا برٹش کولمبیا فرانس کینیڈا مغربی تعلیم

متعلقہ مضامین

  • کراچی: ڈی آئی جی ایسٹ زون نے انویسٹی گیشن پولیس میں تعینات 7 پولیس افسران کو معطل کر دیا
  • بچوں کی موجیں ختم، اسکول کھل گئے
  • غزہ سے لندن تک؛ بیشترین برطانوی بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹس پر شہید کمانڈر کا نام
  • زیورات بھرا بیگ لندن ایئرپورٹ سے چوری ہو گیا، اروشی روٹیلا کا دعویٰ
  • اروشی روٹیلا کا زیورات سے بھرا بیگ ایئرپورٹ سے چوری، کتنی مالیت تھی؟
  • مغربی تعلیم زوال پذیر کیوں ہے؟
  • اب آبروئے شیوۂ، اہل نظر گئی
  • لندن، فلسطین ایکشن پر پابندی کا فیصلہ عدالت میں چیلنج کرنے کی اجازت دے دی گئی
  • اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی میں ’اسٹڈی موڈ‘ متعارف کرا دیا