گڈانی کا سمندری پانی گلابی ہوگیا، وجہ بھی سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
گڈانی کا سمندری پانی گلابی ہوگیا، وجہ بھی سامنے آگئی WhatsAppFacebookTwitter 0 2 August, 2025 سب نیوز
حب(آئی پی ایس) گڈانی جیٹی کا سمندری پانی گلابی رنگت اختیار کرگیا۔
گڈانی جیٹی کے پانی کی غیر معمولی صورتحال دیکھ کر مقامی افراد، ماہی گیر اور سیاح تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں تاہم اس حوالے سے محکمہ تحفظ ماحولیات بلوچستان کا بیان سامنے آیا ہے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات بلوچستان کی رپورٹ کے مطابق گڈانی جیٹی کا پانی آلودہ ہونے کے باعث گلابی رنگ کا ہوگیا ہے، جیٹی کے پانی کا رنگ تبدیل ہونےکے باعث بدبو بھی پھیل رہی ہے۔
اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات عمران کاکڑ کا کہنا ہے کہ جیٹی میں کافی عرصے سے پانی جمع تھا اور بائیو لوجیکل تبدیلی سے پانی کی رنگت تبدیل ہوئی۔
محکمہ تحفظ ماحولیات کی رپورٹ کے مطابق سمندری پانی گلابی ہونے کی وجہ خوردبینی حیاتیات کی تبدیلی ہے جس کے پیش نظرلوگوں کوپانی سےدور رہنےکی ہدایت کی گئی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرانسٹاگرام نے صارفین کو بڑی سہولت سے محروم کردیا اسلام آباد ایکسپریس حادثے میں 30 مسافر زخمی، ذمہ دار کون؟ راولپنڈی: عمران خان کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت آج اڈیالہ جیل ہوگی کراچی: وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قتل کا مقدمہ درج، تحقیقات کیلئے 6 رکنی کمیٹی قائم ایف آئی اے میں خود احتسابی کا نیا نظام متعارف اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئندہ ہفتے ججز کی ڈیوٹی کا روسٹر جاری اسلام آباد ایکسپریس لاہور سے راولپنڈی جاتے پٹڑی سے اتر گئی، 50 سافر زخمی، وزیراعظم کا اظہار افسوسCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سمندری پانی گلابی
پڑھیں:
ڈبلیو ڈبلیو ایف کا حکومت سندھ سے مزید سمندری محفوظ علاقے قائم کرنے کا مطالبہ
لاہور:ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان نے حکومت سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے ساحلی علاقوں میں مزید میرین پروٹیکٹڈ ایریاز (ایم پی ایز) یعنی سمندری محفوظ علاقے قائم کرے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ پٹیانی اور ڈبّو کریک جیسے علاقوں کو ایم پی اے قرار دینے سے سندھ کے ساحلی علاقوں کی حیاتیاتی تنوع اور مینگرووز کے قیمتی جنگلات کو بچایا جا سکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے یہ مطالبہ یکم اگست کو منائے جانے والے ورلڈ میرین پروٹیکٹڈ ایریاز ڈے کے موقع پر کیا۔
ادارے کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں تین سمندری محفوظ علاقے قائم کیے جا چکے ہیں، جن میں بلوچستان کے علاقے ’’میانی ہور‘‘ کو حال ہی میں 29 جولائی 2025 کو ایم پی اے قرار دیا گیا ہے، جبکہ اس سے پہلے چُرنا آئی لینڈ (2024) اور آستو لا آئی لینڈ (2017) کو ایم پی ایز کا درجہ دیا جا چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر کیے گئے حیاتیاتی تحفظ کے وعدوں کی تکمیل کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستان حیاتیاتی تنوع سے متعلق عالمی کنونشن کا رکن ہے اور کُن منگ-مونٹریال گلوبل بایوڈائیورسٹی فریم ورک کے تحت ہر ملک پر لازم ہے کہ وہ 2030 تک اپنے 30 فیصد سمندری رقبے کو محفوظ علاقہ قرار دے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے ایم پی ایز کے قیام میں حکومت، ماہرین اور مقامی ماہی گیر برادری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کو حد سے زیادہ مچھلی کے شکار، خطرناک جالوں کے استعمال، آلودہ پانی کے اخراج، پلاسٹک و دیگر کوڑا کرکٹ، رہائش گاہوں کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ان کے بقول، ’’ایم پی ایز کا قیام ان مسائل کا واحد مؤثر حل ہو سکتا ہے۔‘‘
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ ایم پی ایز کے قیام سے سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ممکن ہوگا اور ساحلی کمیونٹیز کو ایکو ٹورازم کے ذریعے متبادل روزگار میسر آ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میانی ہور میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دو دہائیاں قبل ڈولفن دیکھنے، ریت کے ٹیلوں کی سیر، پرندوں کی نگرانی اور کھیلوں کے لیے ماہی گیری جیسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا جو اب مقامی برادری کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں۔
مزید برآں، 22 جولائی 2025 کو پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بائیوڈائیورسٹی بیونڈ نیشنل جیو رسڈکشن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، جو اقوام متحدہ کے قانون برائے سمندری حدود کا حصہ ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال کے لیے ایک عالمی قانونی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی زون سے باہر بھی ایک آف شور ایم پی اے کے قیام پر غور کرے تاکہ غیر منظم ماہی گیری سے متاثرہ سمندری وسائل کا تحفظ کیا جا سکے۔