کشمیریوں کے جذبات کی پارلیمنٹ میں ترجمانی کرنے والے اراکین لائق ستائش ہیں، میرواعظ کشمیر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
حریت کانفرنس کے چیئرمین نے کہا کہ بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں نے جنگ، اسکے مقصد، کامیابی یا ناکامی کے بارے میں مختلف خیالات پیش کئے، لیکن چند ہی نمائندوں نے جنگ کے انسانی پہلوؤں اور اسکے کشمیر پر پڑنے والے اثرات پر بات کی۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے وادی کشمیر سے منتخب تینوں اراکین پارلیمنٹ میاں الطاف، انجینئر رشید اور آغا سید روح اللہ کے "متفقہ موقف" کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان اراکین نے جموں و کشمیر کے عوام کے گہرے خدشات اور ان کی حالت زار کو مؤثر انداز میں پارلیمنٹ میں اجاگر کیا ہے۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے میں میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ تینوں اراکین پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کے لوگوں کی بے اختیاری اور محرومی پر بات کی اور ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ ان معاملات پر سب ایک ہی صف میں ہیں۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے بھی اپیل کی کہ اگر واقعی "دل کی دوری" مٹانی ہے تو ان ہی آوازوں کو سنا جائے جو جموں و کشمیر سے آ رہی ہیں۔
پارلیمنٹ میں "آپریشن سندور" اور پہلگام حملے پر ہوئی بحث کے حوالے سے میرواعظ نے کہا کہ بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں نے جنگ، اس کے مقصد، کامیابی یا ناکامی کے بارے میں مختلف خیالات پیش کئے، لیکن چند ہی نمائندوں نے جنگ کے انسانی پہلوؤں اور اس کے جموں و کشمیر پر پڑنے والے اثرات پر بات کی۔ جو میرواعظ کے مطابق موجودہ دور کی ذہنیت اور مزاج کی عکاس ہے۔ میرواعظ عمر فاروق نے اپنے اس یقین کا اعادہ کیا کہ وہ ہمیشہ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اس سے امن اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں اربوں لوگ اسی چیز کی خواہش رکھتے ہیں اور اس خطے کے غریب لوگ اس کے مستحق ہیں، ہر سطح پر بات چیت ایک بہت سستا اور بہتر متبادل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمر فاروق کہا کہ پر بات بات کی
پڑھیں:
معروف کشمیری رہنما غازی ملت سردار ابراہیم خان کو بچھڑے 22 برس گزر گئے
معروف کشمیری رہنما اور تحریک آزادی کے عظیم مجاہد سردار ابراہیم خان المعروف ’’غازی ملت‘‘ کو بچھڑے 22 برس بیت گئے۔
سردار ابراہیم خان 22 اپریل 1915 کو ضلع پونچھ کے علاقے کوٹ مٹے خان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، جبکہ وکالت کی تعلیم کے لیے لندن یونیورسٹی اور لنکنز اِن سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
سردار ابراہیم خان نے 1946 میں جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ وہ 19 جولائی 1947 کو اپنی رہائش گاہ پر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس کی میزبانی کرتے ہوئے قرارداد الحاق پاکستان منظور کروانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے رہنما تھے۔
24 اکتوبر 1947 کو پونچھ میں مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج کے خلاف ایک کامیاب بغاوت کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی۔ اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں وہ 1948 میں آزاد جموں و کشمیر کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
اپنے سیاسی کیریئر کے دوران سردار ابراہیم خان چار مرتبہ آزاد کشمیر کے صدر کے منصب پر فائز رہے۔
31 جولائی 2003 کو 88 برس کی عمر میں وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اور اپنے آبائی گاؤں کوٹ مٹے خان میں سپرد خاک کیے گئے۔
تحریک آزادی کشمیر کے لیے ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’بانی کشمیر‘‘ اور ’’غازی ملت‘‘ جیسے عظیم القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا نام کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کی علامت بن چکا ہے۔