نیشنل کانفرنس کے سربراہ نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ کشمیر میں عسکریت پسندی ختم ہوگئی ہے، جو لوگ کہہ رہے تھے کہ دفعہ 370 عسکریت پسندی کیلئے ذمہ دار ہے، وہ اتنے سالوں سے یہاں اقتدار میں تھے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019ء کو دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹائے گئے چھ سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارت کی بی جے پی حکومت سے سوال کیا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ کب واپس ملے گا۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلٰی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پارلیمنٹ کی نشستوں کے لئے انتخابات کرائے اور لوگوں کو ان کے مسائل کے بارے میں بولنے کے حق سے محروم نہ کرے۔ فاروق عبداللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بی جے پی پر سخت طنز کیا اور پوچھا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ کب واپس ملے گا۔

فاروق عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی نے کہا تھا کہ جیسے ہی انتخابات ہوں گے اور حکومت بنے گی، ریاست کا درجہ بحال ہوجائے گا، اس کا کیا ہوا، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ دو خالی اسمبلی سیٹوں پر الیکشن کرائیں گے، لیکن پارلیمنٹ کی چار سیٹوں کا کیا ہوگا، وہ عوام کو ایوانوں میں جانے اور اپنے مسائل بتانے کے حق سے کیوں محروم کر رہے ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی کا جشن منانے کے لئے بی جے پی کے کچھ پروگراموں کی منصوبہ بندی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے سینیئر لیڈر نے کہا کہ بی جے پی کے پاس جشن منانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی قیمتوں پر مرکز سے سوال کیا۔

فاروق عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی نے 6 سال میں ریاست کی بہتری کے لئے کیا کیا، ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں بے روزگار ہیں، قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے، جب کہ امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ کیا یہ بی جے پی کارنامہ ہے۔ فاروق عبداللہ نے مزید کہا کہ انہیں امن آتا نظر نہیں آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک بے وقوف دنیا میں یہ سوچ کر رہ رہے ہیں کہ امن راتوں رات آ جائے گا، ہمارا ایک مضبوط پڑوسی ہے، چاہے وہ چین ہو یا پاکستان۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح راستہ نکالنا ہوگا، جنگ کوئی راستہ نہیں ہے بالآخر آپ کو قلم اٹھانا ہوگا اور مذاکرات کرنا ہوں گے۔ فاروق عبداللہ نے مزید کہا "میں نے کبھی نہیں کہا کہ عسکریت پسندی ختم ہوگئی ہے، جو لوگ کہہ رہے تھے کہ دفعہ 370 عسکریت پسندی کے لئے ذمہ دار ہے، وہ اتنے سالوں سے یہاں اقتدار میں تھے"۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فاروق عبداللہ نے ریاست کا درجہ عسکریت پسندی نے کہا کہ بی جے پی رہے ہیں ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

تعلیم ریاست کی ذمے داری

تعلیم ریاست کی ذمے داری کے فلسفے پر قائم ہونے والی پیپلز پارٹی نے تعلیم کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کی پالیسی پر خوبصورتی سے عمل کرنا شروع کردیا۔ سندھ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت صوبہ بھر میں 500 اسکول قائم کیے جائیں گے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کی حکومت نے صوبے میں معیاری تعلیم تک رسائی کے فروغ کے لیے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ماڈل کے تحت ایک سہ فریقی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایس ای ایف)، دی سٹیزنز فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) اور حکومت سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کی شراکت سے نئے اسکول تعمیر ہوںگے۔ یہ شراکت داری 2019سے 2029 تک کے عریہ پر محیط ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بعض غیر فعال ، ترک شدہ اور بند اسکولوں کی بحالی عمل میں آئے گی اور یہ غیر سرکاری اداروں کو اسکولوں کی انتظامی ذمے داری سونپی جائے گی۔ اس معاہدے کے تحت حکومت سندھ کی جانب سے ان اداروں کو سبسڈی کی فراہمی کا بھی ایک نیا نظام وضع کیا جائے گا۔

اس نظام کے تحت ٹی سی ایف کو فی طالب علم 200 روپے اساتذہ کی تربیت اور نصابی کتب کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلہ میں ٹی ایس ایف نے اب تک بدین، دادو، حیدرآباد، جیکب آباد، کورنگی، ملیر، کشمور، مٹیاری، میرپور خاص، سانگھڑ، شہید بے نظیر آباد، شکارپور اور سجاول سمیت مختلف اضلاع میں 98 اسکول قائم کیے ہیں۔ جون 2029 تک مجموعی طور پر 500 اسکول تعمیر ہونگے۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اس تجویز پر بھی غور کیا گیا کہ فی طالب علم ماہانہ سبسڈی 2 ہزار 500 روپے کردی جائے گی۔ تعلیم حکومت سندھ کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ پورے سندھ میں سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 48 ہزار 932 کے قریب ہے جن میں سے 43 ہزار کے قریب اسکول فعال ہیں۔ اسی طرح اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد تقریباً 147,945 ہے جن میں سے سرکاری اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی تعداد 141,718 کے قریب ہے۔

ان میں سے بہت سے اساتذہ وہ ہیں جو غیر حاضر اساتذہ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ حکومت سندھ نے اس سال کے مالیاتی بجٹ میں تعلیم کے لیے 3,45 Trillion روپے مختص کیے ہیں۔ اس رقم میں سے بیشتر حصہ اسکولوں کی تعمیر اور ترقی، ان میں سہولتوں کی فراہمی، اساتذہ کی تنخواہوں، ریٹائرڈ اساتذہ کی پنشن اور دیگر تعلیمی لوازمات پر خرچ ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کی اتنی خطیر رقم تعلیم پر خرچ کرنے کے باوجود سندھ بھر میں 7.9 ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور سندھ کے تعلیمی اداروں خاص طور پر اسکولوں کا معیار مایوس کن ہے۔ شعبہ تعلیم کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا بیانیہ ہے کہ سندھ کا تعلیم کا پورا نظام شفاف نہیں ہے۔ اس نظام میں ’سفارش‘ اور ’پیسہ کی چمک‘ دو بنیادی لوازمات ہیں۔

 گزشتہ سال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے مقابلے میں پرائیوٹ اسکولوں کے طلبہ نے امتیازی پوزیشن حاصل کیں۔ میڈیکل اور پری انجنیئرنگ کے داخلہ ٹیسٹ میں حیدرآباد اور دیگر بورڈ سے پاس ہونے والے طلبہ مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرسکے۔ سندھ حکومت نے نجی اداروں کو پابند کیا ہے کہ 10فیصد نشستیں غریب طلبہ کے لیے میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی مگر کوئی تعلیمی ادارہ اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے پر تیار نہیں ہے۔

جب 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت ورلڈ بینک اسکولوں کی تعلیم کے لیے خطیر رقم فراہم کرتا تھا۔ ورلڈ بینک کے ماہرین نے اساتذہ کے تقرر کے معیار کو غیر اطمینان بخش قرار دیا اور اس بات پر اتفاق رائے ہوا تھا کہ اساتذہ کے تقرر کے لیے انٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے مگر کئی ہزار افراد کو بغیر انٹری ٹیسٹ پاس کیے بھرتی کر لیا گیا، یوں اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کو سبکدوش کیا گیا اور ان افراد کو رخصت کیا گیا۔ یہ ہزاروں افراد کئی برسوں تک کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے رہے۔

کچھ افراد ٹکنیکل بنیادوں پر قانونی کمزوریوں کی بنیاد پر عدالتوں سے بحال ہوئے۔ اساتذہ کی بھرتی کے لیے سکھر آئی بی اے کے انٹری ٹیسٹ سے پاس ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سکھر آئی بی اے ٹیسٹ میں بھی کئی خامیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ بہرحال پھر حکومت سندھ نے اساتذہ کے تقرر کے لیے لائسنس سسٹم کا اجراء کیا۔ اب کسی بھی فرد کو ٹیچر بننے کے لیے یہ لائسنس حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ اس لائسنس کی مدت 5 سال قرار دی گئی، یوں سندھ میں اس بات کے قوی امکانات پیدا ہوگئے کہ اب اساتذہ کا تقرر میرٹ کی بنیاد پر ہوگا مگر گریڈ 17 اور اس سے بالا کی آسامیوں کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا، البتہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ خراب ہے ۔ حکومت نے میرٹ پر اساتذہ کے تقرر، نئے اسکولوں کی تعمیر اور اسکولوں میں جدید ترین سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے ایک نیا طریقہ سیکھا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے سپرد اسکولوں کا نظام کردیا جائے مگر اس کے ساتھ حکومت ان تنظیموں کو سبسڈی دینے پر بھی تیار ہے ، یوں اب اربوں روپے ان تنظیموں کو ہر سال سبسڈی کی مد میں دیے جائیں گے۔

یہ تنظیمیں اپنے معیارکے مطابق اساتذہ کا تقرر کریں گی، یوں حکومت کو نئے اساتذہ کو میرٹ پر ملازمت دینے، ان اساتذہ کو بہتر تنخواہیں دینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ادا کرنے کے جھنجھٹ سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ نیو لبرل ازم کے نظریے کے تحت اب سندھ حکومت بھی تعلیم کی ذمے داری سے بچ جائے گی۔

یہ بھی خبریں ہیں کہ صوبے کے سب سے بڑے سرکاری کو بھی غیر سرکاری تنظیموں کے سپرد کیا جارہا ہے۔ صوبائی وزراء جب پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ایس آئی یو ٹی کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایس آئی یو ٹی کے سربراہ عظیم ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے نجی شعبے سے فنڈز تو لیے مگر سارا انتظام سرکاری شعبے میں ہے۔ اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ جب حکومت تعلیم اور صحت کی ذمے داریاں بھی پوری نہیں کرے گی، تو اتنی بڑی کابینہ اور اتنی بڑی بیوروکریسی کا کیا جواز ہے؟

 سوویت یونین کے خاتمے کے بعد فری مارکیٹ آنے سے تعلیم بھی ایک جنس کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی یہ پالیسی ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے نجی شعبے کے سپرد ہونے چاہئیں۔ سندھ کی حکومت بالواسطہ طور پر ان عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو عملی شکل دینے کی کوشش کررہی ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ ان غیر سرکاری اداروں کے تحت قائم کرنے والے تعلیمی اداروں کا معیار بلند ہوتا ہے، یوں عام طالب علم کو معیار تعلیم ملے گی مگر یہ مفروضہ ایک محدود سوچ کی پیداوار ہے۔ یہ غیر سرکاری ادارے حکومت کی سبسڈی سے ہی تعلیمی اداروں کا نظام چلائیں گے۔

ان اداروں میں فرائض انجام دینے والے اچھی تنخواہ، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن نہ ہونے اور کسی بھی وقت ملازمت ختم ہونے کے خطرے کی بناء پر ذہنی دباؤ کا شکار رہیں گے جس کے اثرات ان کے خاندانوں پر ہی نہیں بلکہ طالب علموں پر بھی پڑیں گے۔

یوں اسکول نہ جانے والے کروڑوں بچوں کے اسکولوں میں داخلہ کا معاملہ الجھا رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ تعلیم اور صحت کی ذمے داری صرف ریاست ہی پورا کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسی اصول کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی اختیار کی تھی اور یہی پالیسی تھی کہ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی عوام میں مقبول ہوئی تھی ، اصولی طور پر تو پیپلز پارٹی کو اپنی بنیادی تعلیمی پالیسی میں جو خامیاں ہیں انھیں دور کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اساسی پالیسی دستاویز سے انحراف کرکے کچھ حاصل نہ کرسکے گی۔

متعلقہ مضامین

  • جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
  • تعلیم ریاست کی ذمے داری
  • 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق ابھی تک ایم کیو ایم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، ہم تو ایک 27 ویں شب کو جانتے ہیں، فاروق ستار
  • اہم انتظامی اختیارات پر بھارت کے کنٹرول کی وجہ سے کشمیر حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں، عمر عبداللہ
  • بھارتی ریاست تلنگانہ میں المناک بس حادثہ، 20 افراد ہلاک
  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • وسطی ایشیا میں بھارتی موجودگی کا خاتمہ، تاجکستان نے بھارت سے اپنا ایئربیس واپس لے لیا
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • اس وقت آزاد کشمیر میں حکومت بنانا بڑا چیلنج، تحریک عدم اعتماد اسی ہفتے آ جائےگی، راجا فیصل ممتاز راٹھور
  • ای چالان بند نہ ہوا تو 60 لاکھ موٹرسائیکل سواروں کے ساتھ شاہراہ فیصل پر دھرنا دوں گا، فاروق ستار