ماہ صفر المظفر کے متعلق پائے جانے والے چند توہمات کی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
(بھیرہ شر یف)
اسلامی سال کے مہینوں میں سے دوسر ے مہینے کا نا م صفر ہے جس کے لغو ی معنی گھر خالی کرنا، سونا، پیتل، یرقان، پیٹ میں زرد رنگ کا پانی جمع ہو جانا ہیں۔ ماہ صفر کو زبان نبوت نے مظفر فرمایا ہے مگر عو ام النا س میں جہا لت کی بنا پر اس کے با ر ے میں توہمات پر مبنی عجیب و غر یب نظر یا ت ہیں حالانکہ ہمار ے پیا ر ے نبی اکرم ﷺ نے بد شگونی کو شر ک سے تعبیر فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا بد شگونی شرک ہے اور حضو ر ﷺ نے یہ الفاظ تین مر تبہ دوہرائے۔ (مشکو ۃ شر یف)
درج ذیل سطور میں قرآن و سنت کی روشنی میں ان توہمات کو دور کرنے کی سعی بلیغ کی جا ر ہی ہے ۔
پہلا وہم: یہ آفتوں اور بلاوٗں کے نازل ہونے کا مہینہ ہے حالانکہ اس بات کا حقیقت حال سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل زمانہ جاہلیت میں اہل عرب لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے اپنا پیٹ پالتے تھے اس کے باوجو د ملت ابراہیمی ہونے کی وجہ سے چار مقد س مہینوں کا احترام اپنے اوپر لازم جانتے تھے۔ چناچہ تین ما ہ تسلسل کے سا تھ آتے اس لیئے تیسر ے مہینے تک ان کی جمع پو نجی ختم ہو جاتی اور تیسرا مہینہ محرم کو صفر میں تبد یل کر لیتے تھے۔ اب جونہی صفر کا مہینہ شر و ع ہوتا تو لڑائی مار کٹائی لوٹ کھسوٹ غارت گری دوبارہ شر وع ہو جاتی اس بنا پر دور جا ہلیت سے ہی عوام صفر کے مہینے کو مصیبتو ں کا مہینہ گردانتے تھے۔
اس باطل نظریہ کے بطلان کے لیے حضور اکر م ﷺ کا یہ فرمان عالی شان پیش خدمت ہے :
حضر ت جابرؓ فرماتے ہیں میں نے ر سول ا کرم ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا کہ ما ہ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا (مسلم شر یف)
اور حقیقت یہ ہے کہ اگربلائیں اور مصیبتیں نا ز ل ہو تی بھی ہیں تو وہ نا فرمان لوگوں پر ا ن کی نافرمانی کی و جہ سے ہوتی ہیں اور وہ ماہ صفر کے ساتھ خا ص نہیںہیں۔
دو سرا وہم: اس ماہ میں شا دی کرنے وا لا ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے حتی کہ زوجین میں طلاق یا ان میں سے کو ئی ایک ہلا ک ہو جاتا ہے حالانکہ اس بات میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔ ما ہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں کیونکہ شادی تو سنت رسو ل ﷺ اور نیکی کا عمل ہے اور نیکی کے لیئے کوئی وقت مخصوص نہیں ہوتا اس باطل نظریہ نے لوگوں کے اندر اس وجہ سے رواج پکڑا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی اور اس وبا کا زیا دہ تر شکار نو عروس ہوئیں لیکن اگر دقت نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ طاعون کی وبا شوال میں پھیلی تھی جسے امتداد زمانہ نے شوال سے صفر کی جا نب موڑ دیا اور ماہ شوال بھی ہرگز منحوس نہیں کیونکہ رسو ل اکرم ﷺ کا نکا ح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ما ہ شوال میں ہوا تھا۔ جہاں تک تعلق ہے ماہ صفر میں شا دی کرنے کا تو اگر اس ما ہ میں شا دی کر نے میںکو ئی قبا حت ہوتی تو رسول اکر م ﷺ ا پنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ا للہ عنہا کا نکا ح کبھی بھی ما ہ صفر میں نہ کرتے۔ رسول اکرم ﷺ کا اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ ر ضی ا للہ عنہا کا نکاح ماہ صفر میں کرنا اس بات پر د لالت کرتا ہے کہ ماہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں۔
تیسرا و ہم: ماہ صفر میں کو ئی بھی شرو ع کیا جانے و ا لا کا م اد ھو را اور نامکمل رہتا ہے کبھی بھی کامیاب ہو کر منزل مقصود تک نہیں پہنچتا۔ یہ بھی باطل نظریہ ہے کیو نکہ اگر اسلامی تاریخ پر نگاہ دو ڑائی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ماہ صفر کے مہینہ کی اسلام کے سا تھ بہت عظیم یادگاریں وابستہ ہیں جو اس وہم کے ازالہ کے لیئے کافی ہیں۔
مثلا اسلا م کا پہلا غزوہ ودان ماہ صفر میں پیش آیا۔ خیبر جیسی عظیم سلطنت ماہ صفر میں اسلا م کے دا من میںآئی، سریہ رجیع ماہ صفر میں ہوا، سریہ ضحا ک بن سفیا ن ماہ صفر میں ہوا ۔
قارئین کرام ا پ خود ا ندازہ لگائیے کہ ا تنے اہم امور ما ہ صفر میں وقو ع پذیر ہوئے اس کے باوجود افسوس آج بھی بعض عاقبت نااندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں شروع کیا جا نے وا لا کا م اپنے منطقی ا نجا م تک نہیں پہنچ سکتا۔
چوتھا و ہم: حضور اکر م ﷺ نے ماہ صفر کے اختتا م کی خبر دینے والے کو جنت کی خو شخبر ی سنائی ہے۔ معلوم ہوا کہ صفر وہ منحو س مہینہ ہے جس سے نکلنے پرآپ ﷺ نے خوشی منائی ہے۔
یہ نظریہ بھی حدیث مبارکہ کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہے۔ اس حدیث میں ماہ صفر کی نحوست کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس میں ایک راز پو شید ہ ہے اصل بات یہ ہے کہ چونکہ انبیا ء اور اولیا ء کو دار فنا سے دار بقا کی طر ف کوچ کر نے کا وقت اور دن پہلے سے بتا دیا جا تا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فر مایا کہ اللہ کے ایک نیک بند ے کو اختیار دیا گیا تھا تو اس نے رفیق ا علی کی طر ف جا نا پسند کیا۔
چونکہ ما ہ ر بیع ا لاول میں حضوراکرم ﷺ کو محبوب حقیقی سے ملنا تھا اور آپ ﷺ کو ماہ ربیع ا لاول کا شدت سے ا نتظار تھا اس لیئے آ پﷺ نے ما ہ صفر کے اختتام کی خبر دینے وا لے کو جنت کی خوش خبر ی کا عندیہ دیا۔ دعا ہے ا للہ کر یم ہمیں ہر قسم کے توہمات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اسلام کے بتلائے ہوئے ا حکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماہ صفر میں ہ صفر کے اکرم ﷺ
پڑھیں:
سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
اسلام ٹائمز: معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔
عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔
قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔ فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔