Islam Times:
2025-11-05@20:53:59 GMT

بلوچستان، اسرائیلی دلچسپی کا اگلا ہدف؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT

بلوچستان، اسرائیلی دلچسپی کا اگلا ہدف؟

اسلام ٹائمز: اسرائیل نے السویدا میں قائم کردہ نیٹ ورک کے ذریعے شامی حکومت کی عسکری بحالی کو روکنے، حزب اللہ کے جنوبی اثر کو محدود کرنے اور اردن کی سرحد کے قریب اپنی موجودگی کو اسٹریٹیجک تحفظ دینے میں کامیابی حاصل کی۔ شام کی طرح، بلوچستان میں بھی مذہبی و نسلی جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ یہاں ہدف ایران اور پاکستان دونوں ہیں اور بالواسطہ طور پر چین بھی۔ گوادر اور چاہ بہار، دو اسٹریٹیجک بندرگاہیں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے قلب میں واقع ہیں۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

21ویں صدی کی جنگیں صرف ٹینکوں اور بموں سے نہیں، بلکہ بیانیوں، پراکسی نیٹ ورکس، شناختی سیاست، اور جغرافیائی کمزوریوں کو ہدف بنا کر لڑی جا رہی ہیں۔ اسرائیل ان جدید طریقہ ہائے جنگ کا ماہر بن چکا ہے، اور اب اس کا نیا تجربہ گاہ بن رہا ہے، پاکستانی بلوچستان۔ یہ محض ایک علاقائی معاملہ نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کو جنوبی ایشیا میں ریپلیکٹ کرنے کی منظم کوشش ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں اسرائیل نے شام، لبنان اور کردستان جیسے خطوں میں مذہبی و لسانی اقلیتوں کو اسٹریٹیجک اثاثے بناکر استعمال کیا۔ اب انہی تجربات کو بلوچستان کے تناظر میں لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ، مڈل ایسٹ آئی، انٹرسیپٹ اور ہیومین رائٹس واچ جیسی باوثوق بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی ادارہ میمری (MEMRI) اور اس سے منسلک نیٹ ورکس نے "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" کے نام سے ایک نیا تحقیقی فریم ورک جون 2025ء میں قائم کیا، جس کا بانی سابق اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کرنل یگال کرمون ہے۔

میمری کا پسِ منظر کوئی خالص تحقیقی یا تعلیمی ادارے جیسا نہیں۔ 1998ء سے قائم یہ ادارہ خالصتاً اسرائیلی پالیسی ساز اداروں اور مغربی میڈیا کو "ترجمہ شدہ" عرب، ترک اور فارسی مواد فراہم کرتا ہے، مگر اس کا مقصد صرف معلومات دینا نہیں بلکہ مخصوص بیانیہ تراشنا ہے۔ اس کے پیچھے کام کرنے والی ٹیم کا اکثر تعلق اسرائیلی ڈیفنس فورسز، سائبر یونٹ 8200 اور نیشنل سیکیورٹی کونسل سے رہ چکا ہے۔ امریکی نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) اور پرو پبلکا نے 2022ء میں اپنی ایک تحقیق میں MEMRI کو اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کا soft propaganda arm قرار دیا تھا۔ بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ کے ذریعے جاری بیانیے میں دعویٰ کیا گیا کہ "بلوچ قوم" پاکستان اور ایران کی ریاستوں سے نالاں ہے، اور وہ عالمی برادری، خاص طور پر مغرب، کی حمایت سے ایک خودمختار وجود قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس پروجیکٹ میں “میر یار بلوچ” جیسے کرداروں کو "مقبول ترین بلوچ اسکالر" ظاہر کیا گیا ہے، حالانکہ بلوچ نیشنل موومنٹ سمیت دیگر حقیقی بلوچ قوم پرست تنظیمیں اسے ایک "جعلی ڈیجیٹل کردار" قرار دیتی رہی ہیں۔ 2025ء میں خود BNM کے ایک اہم رکن نیاز بلوچ نے اس کردار کو بھارت اور اسرائیل کے سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے تیار کردہ بیانیہ ساز ہتھیار کہا۔

یہی حربہ اسرائیل شام کے جنوبی صوبے السویدا میں آزماء چکا ہے۔ وہاں دروزی اقلیت کو بشار الاسد حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرنے کے نام پر اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس نے بفر زون قائم کیا۔ "انٹرنیشنل کرائسس گروپ" کی اپریل 2025ء کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے السویدا میں قائم کردہ نیٹ ورک کے ذریعے شامی حکومت کی عسکری بحالی کو روکنے، حزب اللہ کے جنوبی اثر کو محدود کرنے اور اردن کی سرحد کے قریب اپنی موجودگی کو اسٹریٹیجک تحفظ دینے میں کامیابی حاصل کی۔ شام کی طرح، بلوچستان میں بھی مذہبی و نسلی جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ یہاں ہدف ایران اور پاکستان دونوں ہیں اور بالواسطہ طور پر چین بھی۔ گوادر اور چاہ بہار، دو اسٹریٹیجک بندرگاہیں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے قلب میں واقع ہیں۔ چین کی اسٹریٹیجک موجودگی کو محدود کرنے کے لیے اسرائیل اور بھارت بلوچستان کو نرم بطن (soft underbelly) سمجھتے ہیں۔

2024ء میں امریکی کانگریس کی ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے ذیلی اجلاس میں بھی بلوچستان کے "ہیومن رائٹس ایشوز" پر علیحدہ سیشن رکھا گیا، جس میں "بلوچ قوم کے حق خودارادیت" پر بحث ہوئی۔ یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ مغرب اس خطے کو کس طرح عالمی تزویراتی کھیل میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ریاست فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو فوجی جارحیت سے کچلتی رہی ہے، وہی ریاست بلوچستان، کردستان، اور دروزی اقلیتوں کے حق خودارادیت کے لیے زبردست ہمدردی کا اظہار کر رہی ہے۔ یہ ہمدردی حقیقی نہیں، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ فلسطینی جدوجہد کسی دوسری تحریک سے فکری یا سیاسی اتحاد نہ بنا سکے۔ اگر بلوچ یا کرد فلسطینیوں سے نظریاتی ہم آہنگی پیدا کر لیں، تو اسرائیل کے لیے یہ ایک اسٹریٹیجک دھچکا ہوگا۔ اسی لیے ہر تحریک کو علیحدہ رکھا جاتا ہے، اور الگ الگ ایجنڈوں پر چلایا جاتا ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ نہیں کہ اسرائیل بلوچستان میں کیا کر رہا ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کیا نہیں کر رہے۔

اگر یہ ریاستیں اپنے محروم اور حساس علاقوں میں داخلی اصلاحات، سیاسی شمولیت، شفاف وسائل کی تقسیم اور انسانی حقوق کی پاسداری کو اپنا لائحہ عمل نہ بنائیں، تو بیرونی مداخلت محض ایک "عذر" سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ تحریکوں کی قیادت کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہر مسکراتا ہمدرد درحقیقت ایک موقع پرست ہو سکتا ہے۔ مصافحہ کرتے وقت دیکھنا ہوگا کہ ہاتھ نرم ہے یا خنجر پوشیدہ ہے۔ اور اگر قیادت محض بیانیے اور فنڈنگ کے فریب میں آگئی، تو ان تحریکوں کا مقدر وہی ہوگا جو کیمپ ڈیوڈ کے بعد عرب قوم پرستی کا ہوا۔  منتشر، معزول، اور تاریخ کے حاشیے پر۔ اگر مشرقِ وسطیٰ کی تباہی سے کچھ سیکھنا ہے تو یہی کہ اصل آزادی اور خودمختاری داخلی خود احتسابی، شراکت داری، اور عوامی شمولیت سے آتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اسرائیل جیسے ریاستی فنکار خاموشی سے ایسے علاقے اور بیانیے ہتھیا لیتے ہیں جن کی جڑیں پہلے ہی کھوکھلی کر دی گئی ہوں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے ذریعے یہ ہے کہ رہا ہے

پڑھیں:

نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ایسے متنازع بل کی حمایت کردی ہے جس کے ذریعے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ انکشاف اسرائیل کے کوآرڈینیٹر برائے یرغمال اور لاپتا افراد گال ہیرش نے پیر کے روز کیا۔

یہ بل کنیسٹ میں بدھ کو پہلی مرتبہ پیش کیا جائے گا اور اسے انتہائی دائیں بازو کی جماعت یہودی پاور نے جمع کرایا ہے، جس کی قیادت قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کی خلاف ورزی: نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی

مجوزہ قانون کے متن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو نسل پرستی، نفرت یا ریاست اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اسرائیلی پارلیمان میں کسی بھی بل کو قانون بننے کے لیے تین مراحل کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

گال ہیرش نے بتایا کہ وہ ماضی میں اس قانون کے مخالف تھے کیونکہ اس سے غزہ میں موجود زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا، لیکن اب انہوں نے اپنی مخالفت واپس لے لی ہے۔

کنیسٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے بھی بل کو پیش کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ بن گویر پہلے بھی متعدد بار فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا

اکتوبر میں حماس نے ایک جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور انہیں بھوک، تشدد اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ متعدد قیدی دوران حراست ہلاک ہوچکے ہیں۔

حقوقِ انسانی گروہوں کا کہنا ہے کہ ایتامار بن گویر کے دور میں قیدیوں کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں، ملاقاتوں پر پابندی، کھانے میں کمی اور غسل کے محدود اوقات جیسے اقدامات معمول بن چکے ہیں۔

یہ بل اگر منظور ہوجاتا ہے تو یہ اسرائیل کے عدالتی اور انسانی حقوق کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی تصور کی جائے گی، جبکہ عالمی سطح پر اس کی شدید مخالفت متوقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسرائیلی وزیراعظم پھانسی غزہ فلسطینی قیدی قانون سازی

متعلقہ مضامین

  • نیشنل پارٹی سے حق نمائندگی چھین کر فارم 47 کو دیا گیا، اسلم بلوچ و دیگر
  • جعلی ڈگری ہولڈر وزیراعظم مودی کو شعبہ تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ، راہل گاندھی
  • اسرائیل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اسرائیلی صدر کا اعتراف
  • ’اسرائیلی بیانیہ نازی پروپیگنڈا جیسا ہے‘، جرمنی میں اردن کی ملکہ رانیہ کا خطاب
  • پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
  • اسرائیل امن معاہدہ پھر سوالوں کی زد میں( تازہ حملوں میں 7 افراد شہید)
  • اسرائیل کے غزہ،لبنان میں تازہ حملے ، 7 شہید, کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے‘ نیتن یاہو
  • نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی
  • حماس نے غزہ امن معاہدےکے تحت مزید 3 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالےکردیں
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں