واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 اگست2025ء) امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے امریکا میں مزید 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایپل کے سی ای او ٹم کک کے ہمراہ کیا اور اسے امریکا میں ایپل کی جانب سے سب سے بڑی سرمایہ کاری قرار دیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایپل امریکہ میں مزید 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس سے اگلے چار سال میں اس کی مجموعی سرمایہ کاری 600 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاکہ ایپل اپنے مقامی سپلائی چین پر اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرے گا۔ اس موقع پر انہوں نے ریاست کینٹکی میں آئی فون اسکرینز میں استعمال ہونے والے گلاس کی تیاری کے لیے نئے پیداواری مرکز کا بھی ذکر کیا۔

(جاری ہے)

فروری میں ایپل نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا میں 500 ارب ڈالر سے زائد خرچ کرے گا اور 20 ہزار افراد کو ملازمت دے گا ۔

یہ سرمایہ کاری ان منصوبوں میں توسیع ہے جو ایپل نے 2021 میں اعلان کیے تھے جب اس نے کہا تھا کہ وہ امریکا میں 430 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اور پانچ سال میں 20,000 نئی ملازمتیں پیدا کرے گا۔ ٹم کک نے اوول آفس میں کہا کہ صرف اس سال امریکی کارخانے 19 ارب چپس تیار کرنے جا رہے ہیں جو ایپل کے لیے 12 مختلف ریاستوں میں قائم 24 فیکٹریوں میں بنائی جائیں گی۔

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ سرمایہ کاری ان کی انتظامیہ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ اس حتمی مقصد کی جانب ایک اہم قدم ہے کہ جو آئی فون امریکا میں فروخت ہوتا ہے، وہ یہیں بنایا بھی جائے۔بعد ازاں، ٹم کک نے وضاحت کی کہ اگرچہ آئی فون کے کئی پرزے امریکا میں تیار کیے جائیں گے مگر مکمل اسمبلنگ بیرون ملک ہی کی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ اگر آپ مجموعی طور پر دیکھیں تو ہم یہاں سیمی کنڈکٹرز، گلاس، فیس آئی ڈی ماڈیول تیار کر رہے ہیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں فروخت ہونے والی مصنوعات کے لیے بھی تیار کی جا رہی ہیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ارب ڈالر کی سرمایہ کاری امریکا میں کرے گا

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ کا ایچ ون بی ورک ویزا ہولڈرز کے لیے 1لاکھ ڈالر فیس عائدکرنے کا اعلان

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 ستمبر ۔2025 )ٹرمپ انتظامیہ نے اعلی مہارت کے حامل افراد کے لیے مخصوص ایچ ون بی ورک ویزا ہولڈرز کے لیے آجرکمپنیوں سے سالانہ 1لاکھ ڈالر فیس عائدکرنے کا اعلان کیا ہے جوبھارت اور چین سمیت دیگر ممالک سے اعلی مہارت کے حامل افراد پر انحصار کرنے والی کمپنیوں خصوصا ٹیکنالوجی سیکٹر کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے. امریکی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری میں وائٹ ہاﺅس سنبھالنے کے بعد وسیع پیمانے پر امیگریشن کریک ڈاﺅن شروع کیاتھا جس میں قانونی امیگریشن کی بعض شکلوں کو محدود کرنے کے اقدامات شامل ہیں ایچ-1 بی ویزا پروگرام کی شکل نو انتظامیہ کی سب سے نمایاں کوشش ہے جو عارضی ملازمت کے ویزوں کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لیے کی گئی ہے ‘مخصوص کیٹگری کا ویزا امریکا کو برتری فراہم کرتا تھا کہ وہ دنیا بھر سے اعلی ترین مہارت کے حامل ذہین افراد کو امریکی کمپنیوں میں ملازمتیں مہیا کرئے.

ماہرین کے مطابق ایچ ون بی ویزے کے تحت ٹیکنالوجی ‘ہیلتھ‘تعلیم‘انجیئرنگ اور دیگر اہم شعبوں میں دنیا بھر سے اعلی مہارتوں کے حامل پروفیشنل جن میں آئی ٹی ماہرین‘ڈاکٹر‘یونیورسٹیوں کے اساتذہ ‘سائنس کے مختلف شعبوں کے ماہرین کو امریکی کمپنیاں ‘تعلیمی ادارے اور ہسپتال نوکریاں آفرکرتے تھے اس طریقہ کار سے ایچ ون بی سمیت کئی ویزا کیٹگریاں امریکا میں مختلف شعبوں میں اعلی مہارتوں کے حامل ماہرین کی کمی کو پورا کرنے کے لیے متعارف کروائی گئی تھیں.

امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لوٹ نک نے کہا کہ اگر کسی کو تربیت دینا ہے تو ملک کی معروف یونیورسٹیوں کے حالیہ گریجویٹس میں سے کسی کو تربیت دیں امریکیوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کریں اور بیرونی افراد کو ہماری نوکریاں لینے کے لیے لانا بند کریں ٹرمپ کی ایچ-1 بی ویزا پر کریک ڈاﺅن کی دھمکی ٹیکنالوجی صنعت کے لیے تنازع کا باعث بنی ہے جس نے ان کی صدارتی مہم میں لاکھوں ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی تھی.

نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ داخلی ای میلز کے مطابق مائیکروسافٹ اور جے پی مورگن نے نئے فیس کے اعلان کے بعد ایچ-1 بی ویزا ہولڈرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ امریکہ میں رہیں۔

(جاری ہے)

بیرون ملک موجود ایچ-1 بی ویزا ہولڈرز کو بھی کہا گیا کہ وہ مقررہ وقت سے پہلے واپس آئیں تاکہ نئی فیس نافذ ہونے سے پہلے کام جاری رہ سکے. جے پی مورگن کے ملازمین کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اوگلی ٹری ڈیکنز نے ہدایت دی کہ جو ایچ-1 بی ویزا ہولڈرز امریکہ میں موجود ہیں، وہ حکومت کی واضح رہنمائی تک بین الاقوامی سفر سے گریز کریں مائیکروسافٹ، جے پی مورگن اور اوگلی ٹری ڈیکنز نے نشریاتی ادارے کی تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا.

ایچ-1 بی پروگرام کے ناقدین جن میں کئی امریکی ٹیکنالوجی کارکن شامل ہیں کہتے ہیں کہ یہ پروگرام کمپنیوں کو تنخواہیں کم رکھنے اور امریکی کارکنوں کو پسِ پشت ڈالنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ ایلون مسک کہتے ہیں کہ یہ پروگرام انتہائی ماہر کارکنان لاتا ہے جو ٹیلنٹ کے خلا کو پر کرنے اور کمپنیوں کو مقابلے کے قابل رکھنے کے لیے ضروری ہیں ایلون مسک خود جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے امریکی شہری ہیں اوروہ ایچ-1 بی ویزا حاصل کرکے امریکا آئے تھے.

ٹیک کمپنیوں گوگل‘مائیکروسافٹ‘میٹا‘ایکس ‘ایمازون سمیت امریکا تقریبا تمام بڑی کمپنیوں میں ایچ-ون بی ویزا کے حامل ماہرین اعلی عہدوں پر کام کررہے ہیں صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق کچھ آجر اس پروگرام کا فائدہ اٹھا کر تنخواہیں کم رکھ رہے ہیں، جس سے امریکی ملازمین متاثر ہو رہے ہیں رپورٹ کے مطابق سال 2000 سے 2019 کے دوران امریکہ میں غیر ملکی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد دگنی سے زیادہ بڑھ کر تقریباً 2.5 ملین ہو گئی جبکہ مجموعی STEM ملازمت میں صرف 44.5 فیصد اضافہ ہوا. 

متعلقہ مضامین

  • بینک کھاتوں، مختصر قرضوں اور سرمایہ کاری میں 12فیصد اضافہ ریکارڈ
  • گوگل کا برطانیہ میں 5 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • چین کی انیس ٹریلین ڈالر کی اسٹاک مارکیٹ غیر ملکیوں کے لیے پھر پرکشش
  • آئی ٹی سی این ایشیا کراچی 2025: آئی ٹی سیکٹر کی ترقی اور عالمی شراکت داری کے فروغ کا شاندار موقع
  • پاکستان سرمایہ کاری کیلئے موزوں‘ حکومت نے بہت مراعات دی ہیں: گورنر
  • پاکستان میں چاندی کی قیمت میں نمایاں اضافہ
  • ٹک ٹاک پر چین کا مؤقف برقرار، ٹرمپ کال کے بعد بھی لچک نہ دکھائی
  • ٹرمپ انتظامیہ کا ایچ ون بی ورک ویزا ہولڈرز کے لیے 1لاکھ ڈالر فیس عائدکرنے کا اعلان
  • پاکستان میں بانڈز‘ حصص اور دیگر ذرائع میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈ کی واپسی دوگنا ہوگئی
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟