یورینیم افزودگی کیوں کر بہت مشکل لیکن اہم ہے
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
قدرت نے ہمیں بہت سے عناصر Chemical Elementsسے نوازا ہے۔ سورج کے اندر ہائیڈروجن جلتی ہے تو نظامِ شمسی بخوبی چل رہا ہے۔آکسیجن ہماری فضاء میں موجود ہے تو ہم اسے سانس کے ذریعے جسم کے اندر لے جاتے ہیں اور ہمارا خون صاف ہوتا ہے۔
1869میں روسی سائنسدان ڈیمتری منڈالیف نے ایٹم کے مرکزے میں پروٹانزProtons کی مقدار کی بنیاد پر پیریاڈِک ٹیبلPeriodic Table مرتب کیا۔کسی بھی ایٹم کے مرکزےNucleusمیں پروٹانز کی مقدار ہی کسی عنصرElementکو عنوان بخشتی ہے۔
اس ٹیبل کی ابتدا ہائیڈروجن کے عنصر سے ہوتی ہے کیونکہ ہائیڈروجن کے مرکزے میں صرف ایک پروٹان ہوتا ہے جس کے گرد ایک ہی الیکٹران گردش کر رہا ہوتا ہے۔ایٹموں کے مرکزے میں جوں جوں پروٹانز کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عنصر بھاری ہوتا جاتا ہے۔
اب تک کی دریافت کے مطابق قدرتی طور پر پائے جانے والے کل 92 ایسے عناصر ہیں۔یہ 92واںیورینیم کا عنصر ہے،قدرتی طور پر ملنے والا سب سے بھاری ریڈیو ایکٹو عنصر اس کوU سے تعبیر کیا جاتا ہے۔قدرتی طور پر ملنے والی اس بھاری دھات کے تین آئی سو ٹوپس ہوتے ہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے آئی سوٹوپس کو سمجھ لینا ضروری ہے۔
آئی سو ٹوپسIsotopesایسے ایٹم ہوتے ہیں جن کا ایٹمی نمبر یعنی اس کے مرکزے میں پروٹونز کی تعداد ایک جیسی ہوتی ہے لیکن کمیتی نمبرMass number یعنی اس میں نیوٹرانز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ Isotopesایک ہی عنصر کے وہ مختلف رُوپ ہوتے ہیں جن میں پروٹانز کی تعداد برابر جب کہ نیوٹرانز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔
جیسے کاربن کے عنصر کو لیں تو اس کے بھی تین Isotopesپائے جاتے ہیں۔کاربن 12میں چھ پروٹانز اور چھ ہی نیوٹرانز،کاربن13، میں چھ پروٹانز اور سات نیوٹرانز جب کہ کاربن14میں چھ پروٹانز اور8نیوٹرانز پائے جاتے ہیں۔سادہ الفاظ میں Isotopes ایک ہی عنصر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن کی شناخت نیوٹرانز کی تعداد سے ہوتی ہے۔
یورینیم بھی اسی طرح تین آئی سوٹوپس، یورینیم 234، یورینیم235اور یورینیم 238رکھتا ہے۔یہ چاندی مائل سفید رنگ کی دھات ہے۔تابکار ہے یعنی خود بخود تحلیل ہو کر تابکار شعائیں خارج کرتا ہے۔یورینیم235 ایٹمی بجلی گھروں اور ایٹمی ہتھیاروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہ توانائی کا بہت بڑا،بہت طاقتور ذریعہ ہے جو ایٹمی ری ایکٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔یہ ایٹمی آبدوزوںکا بھی ایندھن بنتا ہے۔
پہلے کہا گیا کہ قدرتی طور پر ملنے والے تمام عناصرمیں یورینیم سب سے بھاری عنصر ہے لیکن ہم انسان ہر وقت کچھ مزید کی جستجو میں رہتے ہیں۔ہمیں قدرت نے جو کچھ دیا ہے اس پر قانع نہیں ہوتے۔ یورینیم کا اٹامک نمبر92ہے اور یہ آخری عنصر ہے لیکن پیریاڈک ٹیبل پر نظر دوڑائیں تو عناصر کی کل تعداد 118ہو چکی ہے۔
اب آخری عنصر Oganessan ہے۔یہ ایک Syntheticعنصر ہے جو سب سے بھاری عنصر یورینیم سے 26اٹامک نمبر زیادہ بھاری ہے۔یورینیم کے تین آئی سو ٹوپس یورینیم 234,235238ہیں۔یورینیم234کے مرکزے میں142نیوٹرانز،یورینیم 235کے مرکزے میں 143نیوٹرانز اور یورینیم238کے مرکزے میں 146نیوٹرانز پائے جاتے ہیں جب کہ تینوں آئی سوٹوپس میں سے ہر ایک کے پاس92پروٹانز ہوتے ہیں۔
بھاری عناصر کسی حد تک unstableہوتے ہیں کیونکہ بہت سے پروٹونز مرکزے سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ مرکزے میں پازیٹو چارج ہوتا ہے جو پروٹانز کو بھی پازیٹو رہنے میں مددگار ہوتا ہے لیکن ایک جیسے چارج ایک دوسرے کو ری پل کرتے ہیں،یوں نیوکلس پروٹانز کو ری پل کرتے ہوئے Unstableکر دیتا ہے۔
نیوٹرانز کے اوپر کوئی چارج نہیں ہوتا اس لیے نیوٹرانز جب مرکزے کی طرف بڑھتے ہیں تو کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ نیوٹرانز جب مرکزے پر بمبارڈ کیے جاتے ہیں تو ایٹم تقسیم ہو کر دو چھوٹے ایٹموں میں بٹ جاتا ہے لیکن ان دونوں کی کمیت کم ہو جاتی ہے۔کمیت کم تو ہوتی ہے لیکن اس کمی کی وجہ سے بے انتہا انرجی ریلیز ہوتی ہے۔
234اور238 کے مرکزوں پر نیوٹران بمبارڈمنٹ سے تقسیم تو ہوتی ہے لیکنChain Reaction جاری نہیں ہوتا۔ یہ صرف یورینیم235ہے جس کے ایٹم کے ٹوٹنے اور تقسیم سے ایک Chainری ایکشن جاری ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٗU-235بہت ہی اہم ہے۔Chain ری ایکشن میں پہلے دو نیوٹران عمل پذیر ہوتے ہیں،پھر چار پھر آٹھ،پھر سولہ اور یوں یہ عمل بار بار خود بخود دہرایا جاتا ہے اور بے پناہ انرجی ریلیز ہوتی ہے۔
یورینیم کی دھات چونکہ اس کے تینوں آئی سو ٹوپس کے آمیزے کی شکل میں ملتی ہے ،اس لیے افزودگی کے ذریعے اس آمیزے میں سے یورینیم 235 کو الگ کرنا ضروری ہوتا ہے۔افزودگی کا یہ عمل کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے۔آمیزے میں یورینیم 238 ننانوے فیصد ،235یورینیم 0.
انسان کو توانائی اور ہتھیاروں کے لیے صرف اور صرف خالص 235درکار ہوتی ہے۔ توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ری ایکٹر کو صرف 5فیصد افزودہ یورینیم 235 درکار ہوتی ہے۔ایٹمی آبدوز کو کمیشن کرنے کے لیے کوئی 20فیصد افزودہ یورینیم جب کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے 90فیصد سے اوپر افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔
یورینیم 235کو افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز یا لیزر بیمLaser beem چاہیے۔سینٹری فیوجز سالڈ میٹریل پر کام نہیں کرتیں۔اس کے لیے یورینیم دھات کو پہلے محلول Liquidیا گیس کی شکل دی جاتی ہے۔مادے کی ان دونوں حالتوں میں سے یورینیم کو گیس میں تبدیل کرنا زیادہ آسان اور سستا ہوتا ہے۔
یورینیم افزودگی ایک ایسا سائنسی اور ٹیکنیکل عمل ہے جو جوہری توانائی اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس عمل میں قدرتی حالت میں ملنے والی یورینیم یعنی اس کے تینوں آئی سو ٹوپس میں سے یورینیم235کو الگ کر کے اس کی خالص مقدار کو 0.7فیصد سے بڑھایا جاتا ہے تاکہ اسے مطلوبہ مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔
اس سلسلے میں گیس سینٹری فیوج سب سے کارآمد اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا طریقہ ہے۔اس طریقے میں یورینیم ہکسا فلورائیڈ گیس U-Hexa floride کی مدد سے 235 آئی سو ٹوپ کو الگ کیا جاتا ہے۔ایک سینٹری فیوج مشین میں گیس کو انتہائی تیز رفتاری سے گھمایا جاتا ہے۔
بھاری238آئی سو ٹوپ نیچے اور باہر کی جانب جاتا ہے جب کہ نسبتاً ہلکا235اوپر اور اندر کی طرف مرتکز ہوتا ہے۔اس عمل کو کئی مراحل میں دہرایا جاتا ہے تاکہ افزودگی کی مطلوبہ سطح حاصل ہو سکے۔ لیزر افزودگی سب سے جدید مگر سب سے مشکل اور پیچیدہ طریقہ ہے۔
اس میں لیزر بیم کے ذریعے مخصوص آئی سو ٹوپ کو متحرک یا الگ کر لیا جاتا ہے۔یہ طریقہ بہت زیادہ افزودگی اور بڑے پیمانے پر افزودگی حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہے مگر ابھی یہ طریقہ تجرباتی مراحل میں ہے۔
ربِ کریم کا بہت بہت احسان ہے کہ پاکستان نے 1980کی دہائی میں ویپن گریڈیورینیم افزودگی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔اقوامِ عالم کی اس وقت غالب قوتیں کسی بھی مسلمان ملک کو یہ صلاحیت حاصل نہیں کرنے دیتیں۔یہی وجہ ہے کہ ایران کا اس سلسلے میں راستہ روکا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے مرکزے میں قدرتی طور پر جاتے ہیں کی تعداد ہوتے ہیں ہوتی ہے جاتا ہے ہے لیکن ہوتا ہے عنصر ہے کے تین
پڑھیں:
سروائیکل کینسر سے بچاؤ ممکن: ماہرین کا HPV ویکسین کو قومی پروگرام میں شامل کرنے کا مطالبہ
سروائیکل کینسر خواتین میں پایا جانے والا ایک سنگین لیکن قابلِ روک تھام مرض ہے، جو بچہ دانی کے نچلے حصے یعنی سروائیکس کو متاثر کرتا ہے۔
یہ بیماری زیادہ تر ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) کی کچھ خاص اقسام کی وجہ سے ہوتی ہے، جو ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والا وائرس ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس بیماری کی شرح بڑھ رہی ہے، اور ہر سال قریباً 5 ہزار سے زائد خواتین اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ چونکہ اس کی علامات ابتدا میں ظاہر نہیں ہوتیں، اس لیے زیادہ تر کیسز میں تشخیص بیماری کے آخری مراحل میں ہوتی ہے، جب علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ سروائیکل کینسر پاکستانی خواتین کو ہونے والا تیسرا بڑا کینسر ہے جبکہ 15 سے 44 برس کی خواتین میں تیزی سے ہونے والا سرطان دوسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان ایچ پی وی سینٹر کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 5008 خواتین اس کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور 3197 خواتین موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: خواتین میں بڑھتے سروائیکل کینسر کی وجوہات کیا ہیں؟
خوش آئند بات یہ ہے کہ سروائیکل کینسر سے بچاؤ ممکن ہے، اور اس کے لیے دنیا بھر میں HPV ویکسین استعمال کی جاتی ہے۔ Gardasil اور Cervarix نامی ویکسینز اس وائرس کی ان اقسام کے خلاف مؤثر ہیں جو سروائیکل کینسر کا سبب بنتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ ویکسین 9 سے 14 سال کی عمر کے بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) کو دی جانی چاہیے، یعنی جنسی سرگرمی شروع ہونے سے پہلے۔ تاہم، 15 سے 26 سال تک کی عمر میں بھی یہ ویکسین مؤثر سمجھی جاتی ہے، اور بعض صورتوں میں 27 سے 45 سال کی خواتین کو بھی مشورے سے لگائی جا سکتی ہے۔
اس حوالے سے ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر ثمرین فاطمہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں پر بات کرنا اب بھی ایک بہت بڑا کلچرلی ٹیبُو ہے۔ چونکہ HPV کا تعلق جنسی رویوں سے جوڑا جاتا ہے، والدین بچوں کو یہ ویکسین لگوانے سے ہچکچاتے ہیں، حالانکہ یہ صرف بچاؤ کے لیے ہے، نہ کہ کسی طرزِ زندگی کی عکاسی۔ ان کا کہنا ہے کہ آگاہی کی کمی، سماجی شرم، اور ویکسین کی قیمت وغیرہ یہ سب مل کر ایک ایسی فضا بناتے ہیں جہاں ایک مؤثر اور جان بچانے والی ویکسین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: مانع حمل ادویات کا طویل مدتی استعمال سروائیکل کینسر کے خطرے کا سبب ہے، ماہرین
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ ویکسین محدود پیمانے پر دستیاب ہے اور چند نجی اسپتالوں، کلینکس اور میڈیکل اسٹورز پر Gardasil یاCervarix کے نام سے مل سکتی ہے۔ تاہم، ویکسین کی قیمت عام افراد کی پہنچ سے باہر ہے، جو فی ڈوز قریباً 7 سے 12 ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے، اور مکمل کورس میں 2 یا 3 ڈوزز لگتی ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں فی الحال HPV ویکسین کا کوئی قومی سطح پر مربوط پروگرام موجود نہیں جو لازمی طور پر ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر ثمرین فاطمہ کہتی ہیں کہ حکومت کو نہ صرف HPV ویکسین کو اپنی قومی حفاظتی ٹیکہ جات مہم میں شامل کرنا چاہیے بلکہ اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹیز میں آگاہی پروگرام بھی شروع کرنے چاہئیں تاکہ اس مہلک بیماری سے ہزاروں خواتین کو بچایا جا سکے۔
اسلام آباد شفا انٹرنیشنل اسپتال کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹر شہناز نے اس حوالے سے بتایا کہ سروائیکل کینسر کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں نقل و حمل بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
ڈاکٹر شہناز نے کہا کہ کام کے سلسلے میں لوگ ایک شہر سے دوسرے اور بیرونی ممالک بھی جاتے رہتے ہیں اور جب ٹریولنگ زیادہ بڑھتی ہے تو ان کے پارٹنرز میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیں: خواتین میں اووریز کا کینسر کیوں بڑھ رہا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم جیسے معاشروں میں مردوں کی ٹریولنگ ہی سب سے زیادہ ہے تو وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ سروائیکل کینسر اگر عورت کو ہے تو یہ یقیناً مختلف پارٹنرز کے ساتھ رہ چکی ہے جو بالکل غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرد کی عیاشی کو عورت کے سر تھوپنا سراسر غلط ہے کیونکہ ایسے مرد کی وجہ سے عورت سروائیکل کینسر کا شکار ہو رہی ہے اور 90 فیصد سروائیکل کینسر ایچ بی وائرس کے ٹرانسمیشن سے ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر شہناز نے کہا کہ ملک میں سروائیکل کینسر کی اسکریننگ نہیں ہوتی ہے اور جب یہ کینسر ایڈوانس اسٹیج پر چلا جاتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ یہ لاحق ہوچکا ہے لیکن اس وقت تک یہ کینسر بہت حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو خواتین اس کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں عورت ویسے ہی اتنی مظلوم ہوتی ہے اگر وہ یہ بتا دے تو گھر میں طوفان برپا ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ عورت شرم اور عزت کے مارے بھی یہ بتانے سے گریز کرتی ہے اور بجائے علاج کے موت کو ترجیح دیتی ہے تاکہ وہ نہ سہی اس کی عزت بچ جائے۔
مزید پڑھیں: امریکا اربوں روپے مالیت کی ادویات کیوں تلف کی جا رہی ہیں؟
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کچھ ریسرچ اسٹڈیز یہ بھی کہتی ہیں کہ خواتین میں سروائیکل کینسر کی ایک وجہ غیر معیاری پیڈز کا استعمال بھی ہے کیونکہ پلاسٹک اور کیمیائی مادوں سے بنے یہ پیڈز وجائنل ہیلتھ کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس پر اب بھی ریسرچ جاری ہے مگر خواتین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی وجائنل ہیلتھ کے لیے کبھی بھی غیر معیاری اشیا کا استعمال نہ کریں اور کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے انفیکشن کو بھی سنجیدگی سے لیں اور معالج کے پاس جاکر باقائدہ علاج کروائیں۔ اور سروائیکل ویکسین کی طرف اب لوگوں کہ توجہ لانا بے حد ضروری ہے۔ تاکہ اس کینسر کے کیسز کو کم کیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
cervical cancer HPV سروائیکل کینسر