Express News:
2025-09-22@18:17:49 GMT

یورینیم افزودگی کیوں کر بہت مشکل لیکن اہم ہے

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

قدرت نے ہمیں بہت سے عناصر Chemical Elementsسے نوازا ہے۔ سورج کے اندر ہائیڈروجن جلتی ہے تو نظامِ شمسی بخوبی چل رہا ہے۔آکسیجن ہماری فضاء میں موجود ہے تو ہم اسے سانس کے ذریعے جسم کے اندر لے جاتے ہیں اور ہمارا خون صاف ہوتا ہے۔

1869میں روسی سائنسدان ڈیمتری منڈالیف نے ایٹم کے مرکزے میں پروٹانزProtons کی مقدار کی بنیاد پر پیریاڈِک ٹیبلPeriodic Table مرتب کیا۔کسی بھی ایٹم کے مرکزےNucleusمیں پروٹانز کی مقدار ہی کسی عنصرElementکو عنوان بخشتی ہے۔

اس ٹیبل کی ابتدا ہائیڈروجن کے عنصر سے ہوتی ہے کیونکہ ہائیڈروجن کے مرکزے میں صرف ایک پروٹان ہوتا ہے جس کے گرد ایک ہی الیکٹران گردش کر رہا ہوتا ہے۔ایٹموں کے مرکزے میں جوں جوں پروٹانز کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عنصر بھاری ہوتا جاتا ہے۔

اب تک کی دریافت کے مطابق قدرتی طور پر پائے جانے والے کل 92 ایسے عناصر ہیں۔یہ 92واںیورینیم کا عنصر ہے،قدرتی طور پر ملنے والا سب سے بھاری ریڈیو ایکٹو عنصر اس کوU سے تعبیر کیا جاتا ہے۔قدرتی طور پر ملنے والی اس بھاری دھات کے تین آئی سو ٹوپس ہوتے ہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے آئی سوٹوپس کو سمجھ لینا ضروری ہے۔

آئی سو ٹوپسIsotopesایسے ایٹم ہوتے ہیں جن کا ایٹمی نمبر یعنی اس کے مرکزے میں پروٹونز کی تعداد ایک جیسی ہوتی ہے لیکن کمیتی نمبرMass number یعنی اس میں نیوٹرانز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ Isotopesایک ہی عنصر کے وہ مختلف رُوپ ہوتے ہیں جن میں پروٹانز کی تعداد برابر جب کہ نیوٹرانز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔

جیسے کاربن کے عنصر کو لیں تو اس کے بھی تین Isotopesپائے جاتے ہیں۔کاربن 12میں چھ پروٹانز اور چھ ہی نیوٹرانز،کاربن13، میں چھ پروٹانز اور سات نیوٹرانز جب کہ کاربن14میں چھ پروٹانز اور8نیوٹرانز پائے جاتے ہیں۔سادہ الفاظ میں Isotopes ایک ہی عنصر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن کی شناخت نیوٹرانز کی تعداد سے ہوتی ہے۔

یورینیم بھی اسی طرح تین آئی سوٹوپس، یورینیم 234، یورینیم235اور یورینیم 238رکھتا ہے۔یہ چاندی مائل سفید رنگ کی دھات ہے۔تابکار ہے یعنی خود بخود تحلیل ہو کر تابکار شعائیں خارج کرتا ہے۔یورینیم235 ایٹمی بجلی گھروں اور ایٹمی ہتھیاروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہ توانائی کا بہت بڑا،بہت طاقتور ذریعہ ہے جو ایٹمی ری ایکٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔یہ ایٹمی آبدوزوںکا بھی ایندھن بنتا ہے۔

پہلے کہا گیا کہ قدرتی طور پر ملنے والے تمام عناصرمیں یورینیم سب سے بھاری عنصر ہے لیکن ہم انسان ہر وقت کچھ مزید کی جستجو میں رہتے ہیں۔ہمیں قدرت نے جو کچھ دیا ہے اس پر قانع نہیں ہوتے۔ یورینیم کا اٹامک نمبر92ہے اور یہ آخری عنصر ہے لیکن پیریاڈک ٹیبل پر نظر دوڑائیں تو عناصر کی کل تعداد 118ہو چکی ہے۔

اب آخری عنصر Oganessan  ہے۔یہ ایک Syntheticعنصر ہے جو سب سے بھاری عنصر یورینیم سے 26اٹامک نمبر زیادہ بھاری ہے۔یورینیم کے تین آئی سو ٹوپس یورینیم 234,235238ہیں۔یورینیم234کے مرکزے میں142نیوٹرانز،یورینیم 235کے مرکزے میں 143نیوٹرانز اور یورینیم238کے مرکزے میں 146نیوٹرانز پائے جاتے ہیں جب کہ تینوں آئی سوٹوپس میں سے ہر ایک کے پاس92پروٹانز ہوتے ہیں۔

بھاری عناصر کسی حد تک unstableہوتے ہیں کیونکہ بہت سے پروٹونز مرکزے سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ مرکزے میں پازیٹو چارج ہوتا ہے جو پروٹانز کو بھی پازیٹو رہنے میں مددگار ہوتا ہے لیکن ایک جیسے چارج ایک دوسرے کو ری پل کرتے ہیں،یوں نیوکلس پروٹانز کو ری پل کرتے ہوئے Unstableکر دیتا ہے۔

نیوٹرانز کے اوپر کوئی چارج نہیں ہوتا اس لیے نیوٹرانز جب مرکزے کی طرف بڑھتے ہیں تو کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ نیوٹرانز جب مرکزے پر بمبارڈ کیے جاتے ہیں تو ایٹم تقسیم ہو کر دو چھوٹے ایٹموں میں بٹ جاتا ہے لیکن ان دونوں کی کمیت کم ہو جاتی ہے۔کمیت کم تو ہوتی ہے لیکن اس کمی کی وجہ سے بے انتہا انرجی ریلیز ہوتی ہے۔

234اور238 کے مرکزوں پر نیوٹران بمبارڈمنٹ سے تقسیم تو ہوتی ہے لیکنChain Reaction جاری نہیں ہوتا۔ یہ صرف یورینیم235ہے جس کے ایٹم کے ٹوٹنے اور تقسیم سے ایک Chainری ایکشن جاری ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٗU-235بہت ہی اہم ہے۔Chain ری ایکشن میں پہلے دو نیوٹران عمل پذیر ہوتے ہیں،پھر چار پھر آٹھ،پھر سولہ اور یوں یہ عمل بار بار خود بخود دہرایا جاتا ہے اور بے پناہ انرجی ریلیز ہوتی ہے۔

 یورینیم کی دھات چونکہ اس کے تینوں آئی سو ٹوپس کے آمیزے کی شکل میں ملتی ہے ،اس لیے افزودگی کے ذریعے اس آمیزے میں سے یورینیم 235 کو الگ کرنا ضروری ہوتا ہے۔افزودگی کا یہ عمل کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے۔آمیزے میں یورینیم 238 ننانوے فیصد ،235یورینیم 0.

7فیصد اور بقیہ یورینیم 234ہوتی ہے۔

انسان کو توانائی اور ہتھیاروں کے لیے صرف اور صرف خالص 235درکار ہوتی ہے۔ توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ری ایکٹر کو صرف 5فیصد افزودہ یورینیم 235 درکار ہوتی ہے۔ایٹمی آبدوز کو کمیشن کرنے کے لیے کوئی 20فیصد افزودہ یورینیم جب کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے 90فیصد سے اوپر افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔

یورینیم 235کو افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز یا لیزر بیمLaser beem چاہیے۔سینٹری فیوجز سالڈ میٹریل پر کام نہیں کرتیں۔اس کے لیے یورینیم دھات کو پہلے محلول Liquidیا گیس کی شکل دی جاتی ہے۔مادے کی ان دونوں حالتوں میں سے یورینیم کو گیس میں تبدیل کرنا زیادہ آسان اور سستا ہوتا ہے۔

یورینیم افزودگی ایک ایسا سائنسی اور ٹیکنیکل عمل ہے جو جوہری توانائی اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس عمل میں قدرتی حالت میں ملنے والی یورینیم یعنی اس کے تینوں آئی سو ٹوپس میں سے یورینیم235کو الگ کر کے اس کی خالص مقدار کو 0.7فیصد سے بڑھایا جاتا ہے تاکہ اسے مطلوبہ مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔

اس سلسلے میں گیس سینٹری فیوج سب سے کارآمد اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا طریقہ ہے۔اس طریقے میں یورینیم ہکسا فلورائیڈ گیس U-Hexa floride کی مدد سے 235 آئی سو ٹوپ کو الگ کیا جاتا ہے۔ایک سینٹری فیوج مشین میں گیس کو انتہائی تیز رفتاری سے گھمایا جاتا ہے۔

بھاری238آئی سو ٹوپ نیچے اور باہر کی جانب جاتا ہے جب کہ نسبتاً ہلکا235اوپر اور اندر کی طرف مرتکز ہوتا ہے۔اس عمل کو کئی مراحل میں دہرایا جاتا ہے تاکہ افزودگی کی مطلوبہ سطح حاصل ہو سکے۔ لیزر افزودگی سب سے جدید مگر سب سے مشکل اور پیچیدہ طریقہ ہے۔

اس میں لیزر بیم کے ذریعے مخصوص آئی سو ٹوپ کو متحرک یا الگ کر لیا جاتا ہے۔یہ طریقہ بہت زیادہ افزودگی اور بڑے پیمانے پر افزودگی حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہے مگر ابھی یہ طریقہ تجرباتی مراحل میں ہے۔

ربِ کریم کا بہت بہت احسان ہے کہ پاکستان نے 1980کی دہائی میں ویپن گریڈیورینیم افزودگی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔اقوامِ عالم کی اس وقت غالب قوتیں کسی بھی مسلمان ملک کو یہ صلاحیت حاصل نہیں کرنے دیتیں۔یہی وجہ ہے کہ ایران کا اس سلسلے میں راستہ روکا جا رہا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مرکزے میں قدرتی طور پر جاتے ہیں کی تعداد ہوتے ہیں ہوتی ہے جاتا ہے ہے لیکن ہوتا ہے عنصر ہے کے تین

پڑھیں:

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250922-03-8

 

باباالف

 

 

۔14 ستمبر 2019 کی صبح سعودی عرب کے مرکز میں واقع دو بڑے آئل پراسیسنگ پلانٹس، ابیق (Abaiq) اور خریص (Khurais) جو دنیا کے سب سے بڑے تیل کے مراکز اور سعودی عرب آئل کمپنی (سعودی آرامکو) کے اہم ترین اسٹیبلائزیشن یونٹس میں شمار ہوتے ہیں یہاں پر حوثی باغیوں نے ڈرونز اور کروز میزائلوں سے بڑا فضائی حملہ کیا۔ اس حملے نے سعودی عرب کی خام تیل کی پیداوارکا نصف حدتک متاثر کیا اور تقریباً 57 لاکھ بیرل روزانہ تیل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی جو تیل کی عالمی پیداوار کا تقریباً 5 فی صد تک بنتا تھا۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ تاریخ میں کبھی تیل کی عالمی منڈی کو اتنا بڑا حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔ حوثی باغیوں نے فوری طور پر حملہ کی ذمے داری قبول کرلی تھی مگر امریکا نے سعودی عرب کی حفاظت اور اس کے دفاع کے جو وعدے کیے تھے ان پر پورا اترنے سے انکار کردیا۔ سعودی حکام کو پہلی مرتبہ شدت سے احساس ہوا کہ اربوں ڈالرز کا خریدا گیا امریکی اسلحہ محض تماشے کے کھلونے ہیں اور امریکی سعودی دفاعی وعدے محض داستان سرائی اور وہ بھی کسی بڑی طاقت اور ملک کے خلاف نہیں حوثی باغیوں جیسی معمولی فورس کے خلاف۔ تب سے سعودی حفاظتی امریکی عہد وپیمان اور دفاعی چھتری ریاض میں اپنی اہمیت کھو بیٹھی اور ایک گمراہ کن تصور قرار پائی۔ اس کے باوجود سعودی ’’تبدیلی مسلک‘‘ کے لیے تیار نہیں ہوئے اور بدستور امریکی کیمپ میں ہی رہے۔

2023 اور 2024 تک آتے آتے سعودی عرب 1960 میں کیے گئے ’’امریکا اور جاپان اسٹائل ایگریمنٹ‘‘ یا امریکا اور جنوبی کوریا کی طرز کے دفاعی معاہدے کا امریکا سے خواہاں ہوا۔ یعنی ان ممالک کی طرح سعودی عرب پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں اس معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی لیکن امریکا نے ایسی شرائط رکھیں جو سعودی خود مختاری کا کریا کرم ہی نہیں اسے بہت گہرا دفنانے کے مترادف تھیں۔ پہلی شرط اسرائیل کو تسلیم کرنا ہی نہیں خطے میں اور مسلم ورلڈ میں اسرائیل کو برتری دلانے میں امریکا کے ساتھ خودسپردگی کی حدتک تعاون تھی۔ یہ اسی سمت پیش رفت تھی کہ سعودی فضائیں اسرائیل کے لیے کھول دی گئیں اور عرب امارات اور بحرین نے سعودی عرب کی رضا مندی اور دبائو سے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ سعودی عرب میں چین اور دیگر مغربی طاقتوں کی عسکری یا سیکورٹی شراکت داری کم سے کم یا محدود ہوگی۔ سب کچھ امریکا کے علم میں ہوگا اور اس کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔ تیسری شرط پرامن جوہری ٹیکنالوجی کی سعودی عرب کو فراہمی تھی۔ امریکا نے اس مطالبے کو تسلیم کیا مگر شرط یہ رکھی کہ سعودی جوہری پروگرام مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں ہوگا اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے ان شرائط کو غلامی کی دستاویز سے تعبیر کیا جس سے سعودی عرب طاقتور نہیں بلکہ اپنی رہی سہی قدرو قیمت بھی کھو دے گا۔

غزہ میں امریکا اور اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کی تو ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنے امریکا اسرائیل جھکائو، معاہدہ ابراہیم کی طرف پیش رفت اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا جو ان کی سب سے بڑی اخلاقی اور علامتی قوت خادم حرمین شریفین کی حیثیت اور مسلم دنیا کی قیادت کی تردید تھی۔ جس سے عوامی سطح پر شدید ردعمل اور داخلی بے چینی جنم لے سکتی تھی۔ 2020 کے معاہدہ ابراہیم میں امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے اسرائیل سے تعلقات کے بعد اگر سعودی عرب اگلا ملک ہوتا تو یہ فلسطینی کاز کے لیے ایک فیصلہ کن دھچکا اور ترکی، ایران، قطر اور پاکستان جیسے ممالک کو اسلامی قیادت کا متبادل بننے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوتا۔ اس دوران ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو یہ باور کرانے میں مصروف رہی کہ سعودی عرب کے پاس امریکا کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں ہے اور اسے امریکی شرائط پر جاپان امریکا جیسے معاہدے کی طرف آنا ہی ہوگا۔ دوسری صورت میں اسے امریکی لے پالک اسرائیل کے شر اور طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے جو کچھ بھی کرسکتا ہے۔

یوں 2019 بلکہ اس سے بھی پہلے سعودی عرب امریکا کے متبادل کی تلاش میں تھا جس میں چین بھی شامل تھا اور پاکستان سے بھی اس کی بات چیت چل رہی تھی۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایسے کسی اتحاد پر یقین نہیں رکھتا۔ مئی 2025 میں جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی افواج نے چار دن کی مختصر جنگ میں بھارت کو جس طرح خاک چٹائی، اس کے بعد ایم بی ایس کو احساس ہوا کہ پاکستان محض بھکاری یا ایسی قوت نہیں ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے بلکہ ایک ایسی عظیم فوجی طاقت ہے جو غالب آنا جانتی بھی ہے اور غالب آکر دکھا بھی سکتی ہے جس کے بعد پاک سعودی عرب۔۔ اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو۔۔۔ کے مراحل شروع ہوگئے۔ قطر پر 9 ستمبرکے اسرائیلی حملے اور اس حملے میں امریکی آشیر باد نے ایم بی ایس کو امریکی دوستی اور بھروسے کے کھو کھلے پن، مکر اور عہد وپیمان کے دور تک پھیلتے شب ہجراں کے دھویں کا پختہ یقین دلادیا اور پھر وہ لمحہ آگیا جب ولی عہد محمد بن سلمان اھلاًو سھلاً کہتے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ شاعر نے اس منظر کو کسی اور ہی نظر سے دیکھا:

اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا

ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا

17 ستمبر 2025 کو ال یمامہ محل میں وزیراعظم شہباز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ’’اسٹر ٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ‘‘ یقینا ایک تحسین آفرین پیش رفت ہے لیکن اسے دو مقدس مقامات کی حفاظت سونپے جانے کا رنگ دینا دونوں نیشن اسٹیٹس کے عوام کے مذہبی جذبات کی روح کو آسودگی دینے کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں اسلامی ممالک تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے اتنے پر جوش کیوں نہیں ہیں؟ مسجد الحرام اور مسجد نبوی الحمدللہ یہودیوں کے قبضے میں نہیں ہیں۔ مسجد اقصیٰ 1967 سے یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہر روز اس کی بے حرمتی کرتے ہیں۔

موجودہ مسلم حکمرانوں کے درمیان معاہدے ’’امت مسلمہ کی تڑپ‘‘ سے بے چین ہوکر نہیں بلکہ ان کی حکومتوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ مسلم ناٹو جیسے مفروضے اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب ہم اہل غزہ کی بھوک پیاس تباہی وبربادی، دربدری اور نسل کشی پر ان مسلم حکمرانوں کی بے حسی دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکمرانوں کو امت مسلمہ نامی کسی وجود کی خبر ہے اور نہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے کسی عزم کی۔ ان کا اتحاد اور باہمی دفاعی معاہدے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی شراکت داری امریکا اور ناپاک صہیونی ریاست کے اتحاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدے کے بعد کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ دونوں ممالک فلسطین اور غزہ کو آزاد کرانے کے لیے باہم جدوجہد کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے کردار سے امریکا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں ممالک کو اس معاہدے کی اجازت دی ہے۔ امریکا کو لاعلم رکھ کر یہ معاہدہ کیا گیا، کون یقین کرسکتا ہے؟ دونوں ممالک کے حکمران محض مسلمانوں کے مفادات کے لیے ایسا قدم اٹھا سکیں، امریکی مرضی کے بغیر؟ غالب یاد آجاتے ہیں

تیرے وعدے پہ جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

متعلقہ مضامین

  • شہریوں پر مہنگائی کا وار! گھی اور آئل خریدنا مزید مشکل ہوگیا
  • شرجیل میمن کو جتنی وفاق و پنجاب کی فکر ہے کاش اتنی سندھ کی ہوتی، عظمیٰ بخاری
  •  آبادکاری کیلئے آخری وقت تک سیلاب زدگان کیساتھ ہیں،یوسف گیلانی
  • کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
  • تفتیش اور پراسیکویشن کا نظام کمزور ہے، خامیوں کی وجہ سے ملزمان کو سزا نہیں ہوتی، حسان صابر ایڈووکیٹ
  • سیلاب نے ملک میں بہت تباہی مچائی، یوسف رضا گیلانی 
  • انقلاب اور جمہوریت سے دور ہوتا ہوا نیپال
  • جاگیردارنہ نظام کو ایم کیو ایم ہضم نہیں ہوتی، خالد مقبول صدیقی
  • کپل شرما مشکل میں پڑگئے، 25 کروڑ کا لیگل نوٹس مل گیا
  • روایتی کھاجا