مودی ٹرمپ تعلقات میں تلخی کب آئی؟ بلومبرگ نے امریکی صدر کی پاکستان میں دلچسپی کی وجہ بھی بتادی
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اگست 2025ء ) معروف امریکی جریدے بلومبرگ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے میں مودی اور ٹرمپ کے تعلقات میں آنے والی تلخی اور امریکی صدر کے بظاہر پاکستان کی جانب سے جھکاؤ کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ امریکی جریدے کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے کارڈ بہت اچھے طریقے سے کھیلے ہیں اور یہ ان چند ممالک میں سے ہے جس نے اپنے سخت حریف بھارت کے برعکس سوئٹزرلینڈ اور برازیل کے بعد زیادہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے موجودہ دور میں اسلام آباد اور وائٹ ہاؤس کے درمیان پہلی بات چیت اس وقت ہوئی جب بھارت اور پاکستان اس سال کے شروع میں جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے اور دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا پاکستان نے کھلے عام خیر مقدم کیا، جب کہ بھارت نے امریکی صدر کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے جنگ بندی کی ثالثی کی تھی۔(جاری ہے)
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ یہ وہ موقع تھا جہاں سے وائٹ ہاؤس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات نیچے کی طرف چلے گئے، دریں اثنا پاکستان کے پاس کچھ اثاثے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی دلچسپی کو جنم دیا کیوں کہ پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے اور تانبے کے وسائل میں سے ایک ہیں، جس کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ ہونے والے معدنیات کا ایسا ہی معاہدہ چاہتا ہے، یہ امریکی سرمایہ کاری کو محفوظ بناتا ہے، ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ "تیل کے بڑے ذخائر" دریافت کرنے کیلئے کام کرنے کے بارے میں بھی کہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت یافتہ ورلڈ لبرٹی فنانشل کے نمائندے پاکستان بھارت جھڑپوں کے وقت اسلام آباد پہنچے اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا، یہ سب پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کے لیے وائٹ ہاؤس میں لنچ کی ایک سرپرائز میٹنگ پر اختتام پذیر ہوا جس کے فوراً بعد پاکستانی حکومت نے کہا کہ وہ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرے گی۔ امریکی جریدے نے بتایا کہ امریکی صدر اور نریندر مودی کے درمیان 17 جون کو 35 منٹ طویل گفتگو ہوئی، یہ اس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ انڈین وزیراعظم سے ملاقات کیے بغیر جی 7 سمٹ سے واپس گئے تھے، جس کے بعد ٹیلیفونک گفتگو میں صدر ٹرمپ نے مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی جو انہوں نے مسترد کردی کیوں کہ مودی کو خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ ان کی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کروائیں گے۔ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی آئی، مودی اور ٹرمپ کی اس کال کے بعد کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی جب کہ امریکی صدر کی جانب سے بھارت پر ٹیرف کا اعلان دو طرفہ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، بھارت نے ابھی تک امریکی ٹیرف پر جوابی رد عمل نہیں دیا اور مودی امریکہ کی طرف جھکاؤ کی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے رہے ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی صدر پاکستان کے وائٹ ہاؤس کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
بھارت شام کی نئی حکومت سے قربت کیوں بڑھا رہا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) بھارت نے شام کی ترجیحات اور منصوبوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے جولائی کے آخر میں پہلی مرتبہ ایک سرکاری وفد کو دمشق بھیج کر عبوری حکومت سے رابطہ قائم کیا۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری سریش کمار نے شامی وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں، جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ بھارت شام کے اندرونی سیاسی حالات سے قطع نظر مضبوط تعلقات کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
اعلیٰ سطحی سفارت کاریان ملاقاتوں میں صحت کے شعبے میں تعاون، تکنیکی و تعلیمی اشتراک، اور انسانی امداد و مستقبل کی تعمیر نو کی بنیاد رکھنے جیسے موضوعات پر بات چیت کی گئی۔
شام کے طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے آمر بشار الاسد کو دسمبر میں ایک باغی اتحاد نے اقتدار سے ہٹا دیا، جس کی قیادت بنیادی طور پر ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس ) کر رہا تھا، اور جسے شامی نیشنل آرمی اور ترکی کی حمایت یافتہ دیگر تنظیموں کا تعاون حاصل تھا۔
(جاری ہے)
اب شام کی عبوری قیادت ایچ ٹی ایس کے سابق رہنما احمد الشرع کے ہاتھ میں ہے، جسے سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، قطر اور امریکہ جیسے علاقائی و عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔
خطرات اور مواقع کے درمیان توازنماہرین اور سفارت کاروں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شام کی عبوری حکومت کے ساتھ بھارت کا رابطہ جنگ زدہ ملک کی تعمیرِ نو میں خود کو پسِ پشت ڈالے جانے سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مدثر قمر نے کہا کہ بھارت کی یہ حکمت عملی اس کی غیر جانبدار طاقت کے طور پر اس شبیہ کو تقویت دیتی ہے جو مختلف حکومتوں کے ساتھ روابط قائم کر کے استحکام کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
قمر نے کہا، ’’قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بھارت کے علاقائی دوست، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، شام کو اس اہم عبوری مرحلے میں بھرپور مدد فراہم کر رہے ہیں، اور یہ بھارت کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اس پیش رفت سے بھارت کی خارجہ پالیسی میں نئی جرات مندی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔‘‘قمر نے مزید کہا، ’’شام ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں بھی ایک اہم مہرہ کے طور پر ابھر رہا ہے، جو بھارت کے علاقائی مفادات کے لحاظ سے اسے اسٹریٹجک طور پر اہم بناتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،’’بھارت کا شام کے مستقبل میں توانائی، اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات موجود ہیں، اس لیے نئی حکومت کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات قائم کرنا بہت اہم ہے۔
‘‘ بھارت کے ’اسٹریٹجک مفادات‘مدثر قمر نے نشاندہی کی کہ ایک مستحکم شام تجارتی راستوں اور توانائی کی راہداریوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، جو بھارت کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ خاص طور پر جب وہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر رہا ہے اور ایران سے متعلق تناؤ کا سامنا کر رہا ہے۔
دسمبر میں نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شام میں کئی بار فرقہ وارانہ تشدد کی لہریں دیکھنے میں آئی ہیں۔
ایک خودمختار تحقیقی فورم، منترایا، کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شانتی ماریٹ ڈی سوزا نے کہا کہ بھارت کے شام میں کئی اسٹریٹجک مفادات ہیں، جن میں وہاں موجود بھارتی شہریوں کے مفادات کا تحفظ بھی شامل ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ نئی حکومت سے تعلقات برقرار رکھے۔
ڈی سوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، نئی حکومت اب بھی شدید غیر استحکام کا شکار ہے، اور تعمیر نو و انسانی امداد کی شکل میں کوئی بھی مدد اس کے لیے قابلِ قبول ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا، ’’بھارت کا نئی حکومت سے رابطہ علاقائی استحکام کو مضبوط بنانے کی ایک کوشش بھی ہے، تاکہ نئی حکومت کو شدت پسند گروہوں سے شام کو محفوظ رکھنے کے قابل بنایا جا سکے۔‘‘
ڈی سوزا نے کہا کہ بشار الاسد کے بعد کی شام سے تعلقات جلد قائم کر کے بھارت نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ اس اسٹریٹیجک خلا کو بھی پُر کر رہا ہے جسے دیگر قوتیں استعمال کر سکتی تھیں۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کئی ممالک نے شام کی نئی حقیقتوں کو اپنی پالیسی میں شامل کیا ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے اسد حکومت سے تعلقات قائم رکھے، اور وہ بھی جو اس کے زوال کے خواہاں تھے۔ ان سب کے فیصلے استحکام، اثر و رسوخ اور علاقائی سلامتی جیسے بنیادی مفادات پر مبنی تھے۔
ڈی سوزا نے کہا کہ اس کے برعکس، بھارت نے ابتدا میں مبہم رویّے کا مظاہرہ کیا۔
بھارتی سفارت کار کا دمشق کا دورہ اس بات کا اعتراف ہے کہ شام میں اسد کا دور ختم ہو چکا ہے، اور بھارت کو نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کی پالیسی از سر نو ترتیب دینی ہوگی، کیونکہ یہی اب طاقت کا نیا مرکز ہے۔
انہوں نے اشارہ دیا کہ شام کی عبوری قیادت کے ساتھ بھارت کا حالیہ رابطہ افغانستان میں نئی دہلی کی عملی حکمتِ عملی جیسا ہے، جہاں وہ بیس سال تک جمہوری حکومت کی حمایت کے بعد اب طالبان حکمرانوں کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔
کیا یہ بھارت کے لیے دروازہ کھولے گا؟بھارت کی وزارتِ خارجہ کے حکام نے اشارہ دیا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران، جب عملہ کم کر دیا گیا تھا، تب بھی دمشق میں اپنا سفارت خانہ برقرار رکھنا بھارت کی طویل المدتی اسٹریٹجک سوچ کا مظہر تھا۔
سابق بھارتی سفارت کار انیل تریگونایَت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’بھارت نے ہمیشہ شام اور اس کے عوام کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی تناظر میں بھی اچھے تعلقات قائم رکھے ہیں۔
تریگونایَت، جو نئی دہلی کے تھنک ٹینک ’ویویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘ میں مغربی ایشیا کے ماہرین کے گروپ کی سربراہی کرتے ہیں، نے کہا کہ بھارت کے شام کے ساتھ تعلقات دو طرفہ تعلقات کا حصہ ہیں جیسے کہ وہ دیگر ممالک سے رکھتا ہے۔
انہوں نے شام کے عبوری رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،’’ایران شام میں کمزور پوزیشن پر ہے، لیکن ترکی کا الشرع پر مضبوط اثر و رسوخ ہے، اور وہ سمجھداری سے بھارت سمیت مغربی اور عرب ممالک کے ساتھ بھی روابط بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
’’اسی طرح بھارت کو بھی مغربی ایشیا کے تمام شراکت داروں، بشمول شام کے ساتھ، رابطے میں رہنا چاہیے، خواہ وہاں خلاء ہو یا نہ ہو۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین