اوور ٹائم نہیں کروں گی، چاہے نوکری چلی جائے ، بھارتی لڑکی کا موقف وائرل
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
بھارت میں ایک نوجوان خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل رہی ہے، جس میں وہ دفتر میں اوور ٹائم کرنے سے دوٹوک انکار کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی پر سمجھوتہ نہیں کریں گی، چاہے اس کے نتیجے میں نوکری ہی کیوں نہ ختم ہو جائے۔
شتاکشی پانڈے نامی یہ خاتون انسٹاگرام پر شیئر کی گئی ویڈیو میں بتاتی ہیں کہ ایک دن جب انہوں نے اپنا مقررہ کام مکمل کر کے دفتر سے نکلنے کی تیاری کی، تو منیجر نے انہیں کچھ اضافی کام کرنے کے لیے روکنے کی کوشش کی۔ شتاکشی کے مطابق، انہوں نے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا کہ ان کے ڈیوٹی کے اوقات ختم ہو چکے ہیں اور انہیں گھر جانا ہے۔
ویڈیو میں وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ منیجر نے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ رات بھر سفر کرنے کے بعد صبح ساڑھے سات بجے سیدھا دفتر پہنچے اور اب تک کام کر رہے ہیں۔ اس پر شتاکشی نے کہا کہ یہ بات قابلِ فخر نہیں کہ کوئی اپنی صحت اور زندگی اوور ٹائم کی بھینٹ چڑھا دے۔ ان کا دوٹوک موقف تھا کہ اگر اس سوچ کی وجہ سے انہیں برطرف بھی کر دیا گیا تو بھی وہ زہریلے ورک کلچر کو قبول نہیں کریں گی۔
View this post on InstagramA post shared by Shatakshi Pandey (@kad_shatakshi)
ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل ملا جلا رہا۔ کچھ لوگوں نے ان کی جرات کو سراہا، کچھ نے کہا کہ وقت پر کام مکمل کیا جائے تو اوور ٹائم کی نوبت ہی نہیں آتی، جبکہ کچھ نے مؤقف اختیار کیا کہ سینئر ملازمین پر اضافی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، اس لیے انہیں اکثر رکنا پڑتا ہے۔ ایک صارف نے یہ بھی لکھا کہ اگر اوور ٹائم کا معاوضہ نہ دیا جائے تو کمپنی کی پالیسی ہی ناقص ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اوور ٹائم
پڑھیں:
’ انسداد دہشتگردی قانون میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں،‘فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف مقدمے میں گواہ طلب
انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت نے ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف سرکاری ملازم پر تشدد کرنے کے مقدمے میں آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کرلیا۔
کراچی سینٹرل جیل انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں منتظم عدالت کے روبرو ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف سرکاری ملازم پر تشدد کرنے کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
فرحان غنی سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے، تفتیشی افسر اور طرفین کے وکلا بھی پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے گواہان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے؟ اور کب کئے گئے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ 2 گواہان کے 161 کے بیانات 24 اگست کو ریکارڈ کئے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ گواہان کے بیانات کے مطابق سرکاری کام بند کروایا گیا، وکیل صفائی نے درمیان میں بولنے کی کوشش کی، عدالت نے وکیل صفائی کو ہدایت کی صبر کا دامن تھام کر رکھیں، آپ کو موقع دیا جائے گا۔
عدالت نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ 497-II بی انسداد دہشتگردی کی دفعات پر لاگو ہوتی ہے؟ ملزمان کو جس سیکشن کے تحت ضمانت پر رہا کیا گیا اور درخواست عدالت میں جمع کروائی گئی، وہ سیکشن کہاں ہے، دکھائیں؟ مدعی کے وکیل وہ قانون عدالت میں پیش کریں۔
وکیل صفائی نے مؤقف دیا کہ احاطہ عدالت میں کوئی غیر قانونی کام ہوگا تو پریزائڈنگ افسر اسے روکے گا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو چاہیے تھا کہ اگر کام چل رہا تھا تو پہلے اسے نوٹس دیتے، وکیل صفائی نے موقف دیا کہ اگر کوئی روڈ، گلیاں اور فٹ پاتھ کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس کو روکیں گے۔ ملزم گرفتار تھا تو نوٹس کیسے جاری کرتا۔ اگر عدالت چاہے تو 497-II بی کی درخواست منظور کرے یا پھر کارروائی کرے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ جذباتی ہورہے ہیں۔ وکیل صفائی نے موقف دیا کہ آپ نے کس سیکشن کے تحت ریمانڈ دیا، میں بھی کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے قانون کے مطابق ٹو ای کے تحت ریمانڈ دیا، یہ رہا قانون۔
وکیل صفائی نے موقف دیا کہ زیر دفعہ 497 کے تحت اگر درخواست منظور نہیں ہوتی تو دہشتگردی کی دفعات ختم کردیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ مدعی سمیت گواہوں کے زیر دفعہ 164 کے بیانات کروائیں اور لے آئیں۔
وکیل صفائی نے موقف دیا کہ سر کیا یہ کوئی بہت اہم کیس ہے جو اتنی باریکیاں دیکھی جارہی ہیں۔
پراسیکیوٹر نے موقف دیا کہ مقدمے کی شفاف تحقیقات کی گئی ہیں، سرکاری کام چل رہا تھا لیکن کوئی دہشتگردی نہیں ہوئی ہے، اس کیس میں انسداد دہشتگردی کا خصوصی قانون لاگو نہیں ہوگا، یہ اے ٹی سی کا کیس نہیں بنتا، ہم درخواست دے دیتے ہیں۔
عدالت نے ایک مرتبہ پھر تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اب تک کتنے بیانات ریکارڈ کئے گئے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ 2 گواہان کے بیان لئے گئے پھر کمپرومائز ہوگیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ انسداد دہشتگردی قانون میں کمپرومائز کی گنجائش ہی نہیں ہے، مدعی کا بیان کس قانون کے تحت ریکارڈ کیا گیا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے قانون پڑھا ہے یا نہیں؟ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ مدعی مقدمہ کا بیان نہیں دیکھتا، میں شواہد کی بات کررہا ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم آئندہ سماعت پر مدعی مقدمہ کو طلب کرلیتے ہیں، مدعی کے وکیل مزمل قریشی نے موقف دیتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ مدعی مقدمہ کا تعلق حساس ادارے سے ہے، مدعی کے بجائے گواہان کو عدالت میں پیش کردیتے ہیں۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کرتے ہوئے سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کردی۔