ممکنہ طور پر اسٹبلشمنٹ مطالبہ کر رہی ہے کہ خواجہ آصف کو وزارت سے ہٹایا جائے: سلیم بخاری کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی سلیم بخاری نے دعویٰ کیاہے کہ ممکنہ طور پر اسٹبلشمنٹ مطالبہ کر رہی ہے کہ خواجہ آصف کو وزارت دفاع سے ہٹا دیا جائے ، یہ معاملہ ابھی ڈھکا ہواہے لیکن آنے والے دنوں میں کھل کر سامنے آنے والا ہے ۔
سینئر صحافی سلیم بخاری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح عثمان بزدار کے معاملے پر اسٹبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان تلخی تھی اسی طرح کی تلخی خواجہ آصف کے معاملے میں دکھائی دیتی ہے ، جس طرح مطالبہ کیا گیا تھا کہ عثمان بزدار کو ہٹا دیں اور شائد اب یہ مطالبہ بھی ہو رہاہے کہ خواجہ آصف کو وزارت دفاع سے ہٹا دیا جائے ، یہ ایک تنازع ہے ، جو شائد ابھی تک ڈھکا ہے اور آنے والے دنوں میں سامنے آنے والا ہے ، ن لیگ اور یہ اتحادی حکومت فی الحال اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی پنگا کرنا برداشت نہیں کرسکتی ، اگر کریں گے تو نتائج کو بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہیے ، کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ضرورہے ۔
عمر ایوب کی ضمانت کی درخواستیں خارج
خواجہ آصف کو لے کر موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک تلخی ہے اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ خواجہ آصف کو ہٹایا جائے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ضرور ہے ! سلیم بخاری ۔۔۔ pic.
مزید :
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ہے کہ خواجہ سلیم بخاری خواجہ ا صف
پڑھیں:
مودی ٹرمپ تعلقات میں تلخی کب آئی؟ بلومبرگ نے امریکی صدر کی پاکستان میں دلچسپی کی وجہ بھی بتادی
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اگست 2025ء ) معروف امریکی جریدے بلومبرگ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے میں مودی اور ٹرمپ کے تعلقات میں آنے والی تلخی اور امریکی صدر کے بظاہر پاکستان کی جانب سے جھکاؤ کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ امریکی جریدے کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے کارڈ بہت اچھے طریقے سے کھیلے ہیں اور یہ ان چند ممالک میں سے ہے جس نے اپنے سخت حریف بھارت کے برعکس سوئٹزرلینڈ اور برازیل کے بعد زیادہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے موجودہ دور میں اسلام آباد اور وائٹ ہاؤس کے درمیان پہلی بات چیت اس وقت ہوئی جب بھارت اور پاکستان اس سال کے شروع میں جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے اور دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا پاکستان نے کھلے عام خیر مقدم کیا، جب کہ بھارت نے امریکی صدر کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے جنگ بندی کی ثالثی کی تھی۔(جاری ہے)
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ یہ وہ موقع تھا جہاں سے وائٹ ہاؤس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات نیچے کی طرف چلے گئے، دریں اثنا پاکستان کے پاس کچھ اثاثے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی دلچسپی کو جنم دیا کیوں کہ پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے اور تانبے کے وسائل میں سے ایک ہیں، جس کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ ہونے والے معدنیات کا ایسا ہی معاہدہ چاہتا ہے، یہ امریکی سرمایہ کاری کو محفوظ بناتا ہے، ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ "تیل کے بڑے ذخائر" دریافت کرنے کیلئے کام کرنے کے بارے میں بھی کہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت یافتہ ورلڈ لبرٹی فنانشل کے نمائندے پاکستان بھارت جھڑپوں کے وقت اسلام آباد پہنچے اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا، یہ سب پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کے لیے وائٹ ہاؤس میں لنچ کی ایک سرپرائز میٹنگ پر اختتام پذیر ہوا جس کے فوراً بعد پاکستانی حکومت نے کہا کہ وہ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرے گی۔ امریکی جریدے نے بتایا کہ امریکی صدر اور نریندر مودی کے درمیان 17 جون کو 35 منٹ طویل گفتگو ہوئی، یہ اس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ انڈین وزیراعظم سے ملاقات کیے بغیر جی 7 سمٹ سے واپس گئے تھے، جس کے بعد ٹیلیفونک گفتگو میں صدر ٹرمپ نے مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی جو انہوں نے مسترد کردی کیوں کہ مودی کو خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ ان کی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کروائیں گے۔ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی آئی، مودی اور ٹرمپ کی اس کال کے بعد کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی جب کہ امریکی صدر کی جانب سے بھارت پر ٹیرف کا اعلان دو طرفہ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، بھارت نے ابھی تک امریکی ٹیرف پر جوابی رد عمل نہیں دیا اور مودی امریکہ کی طرف جھکاؤ کی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے رہے ہیں۔