WE News:
2025-11-09@05:49:22 GMT

’فلسطینی پیلے‘ امید زندہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

غزہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک بچہ کبھی گیند کے پیچھے دوڑتا تھا جس کے خواب سمندر جتنے وسیع تھے۔ 24 مارچ 1984 کو غزہ شہر میں پیدا ہونے والے سلیمان احمد زاید العبید کو کون جانتا تھا کہ ایک دن وہ فلسطینی فٹبال کی تاریخ میں امر ہو جائیں گے اور دنیا انہیں محبت سے ’پیلے فلسطین‘ کہے گی۔

غربت، محاصرہ اور جنگی دھماکوں کے بیچ کھیلنا آسان نہیں تھا، مگر سلیمان کے پاؤں میں وہ جادو تھا جو ہر رکاوٹ کو شکست دیتا تھا۔ اپنے کلب کیریئر کا آغاز ’خدمات الشاطی‘ سے کیا، پھر ’مرکز شباب الامعری‘ اور ’غزہ اسپورٹ‘ کے لیے کھیلے۔ کھیل کا انداز ایسا تھا کہ لوگ انہیں ہرن، بلیک پرل، فلسطین کا ہنری اور سب سے بڑھ کر ’پیلے فلسطین‘ کہنے لگے۔

Former footballer Suleiman Al-Obeid, who played for the Palestinian national team was shot dead by Israeli occupation froces whilst he was waiting for humanitarian aid in Gaza.

The 41 year-old footballer was nicknamed the “Palestinian Pelé,” scored over 100 goals in his career. pic.twitter.com/l7cdW1wGUB

— • (@Alhamdhulillaah) August 9, 2025

2007 میں فلسطینی قومی ٹیم میں جگہ پانے والے سلیمان کے لیے یہ صرف کھیل نہیں، وطن کی عزت کا سوال تھا۔ 24 بین الاقوامی میچز میں 2 گول کیے، لیکن سب سے یادگار لمحہ 2010 ویسٹ ایشین چیمپیئن شپ میں یمن کے خلاف ان کا شاندار ’سکیسر کک‘ رہا۔ کلب کی سطح پر 100 سے زائد گولز کے ساتھ وہ 16-2015 اور 17-2016 کےGaza Strip Premier League کے ٹاپ اسکورر بھی بنے۔

6 اگست 2025 کا دن غزہ کے لیے ایک اور زخم بن گیا۔ جنوبی غزہ میں امداد کے منتظر لوگوں کی قطار میں سلیمان بھی کھڑے تھے، اپنے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا سامان لینے۔ بے رحم اور سفاک دشمن نے ایک لمحے میں ان کی زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ 41 سالہ سلیمان اپنی اہلیہ اور 5 ننھے بچوں کو چھوڑ گئے۔

یوئیفا (Union of European Football Associations) نے انہیں تاریک دنوں میں بھی امید کا چراغ کہا مگر ان کی موت کے پس منظر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیور پول اسٹار محمد صلاح نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیسے، کہاں اور کیوں شہید ہوئے؟

Can you tell us how he died, where, and why? https://t.co/W7HCyVVtBE

— Mohamed Salah (@MoSalah) August 9, 2025

فلسطین فٹبال ایوسی ایشن کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کھیلوں سے وابستہ کم از کم 662 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں 421 فٹبال سے جڑے لوگ شامل ہیں، یہ صرف ایک کھیل کا نقصان نہیں، بلکہ ایک ثقافتی اور انسانی المیہ ہے۔

سلیمان العبید صرف ایک فٹبالر نہیں تھے؛ وہ ایک علامت تھے، اس فلسطینی روح کی علامت جو بربادی کے سائے میں بھی دوڑتی ہے، گول کرتی ہے اور خواب دیکھتی ہے۔ ان کے پاؤں کی جنبش، گیند پر گرفت، اور گول کے بعد آسمان کی طرف اٹھتے ہاتھ آج بھی غزہ کے بچوں کے دلوں میں امید جگاتے ہیں۔

فلسطینی پیلے کی ناگہانی موت دنیا کے سامنے مجسم سوال ہے کہ جنگ کب تک کھیل، محبت اور امن کی سرحدوں کو روندتی رہے گی؟ سلیمان العبید ہمارے درمیان نہیں، مگر ان کا نام، ان کی یاد، اور ان کا کھیل ہمیشہ زندہ رہے گا۔

غزہ کی گلیوں میں آج بھی کوئی لڑکا فٹبال کو ٹھوکر مارتے ہوئے اپنے آپ سے کہتا ہے ’میں بھی سلیمان العبید بنوں گا ۔ ۔ ۔ اور شاید، میں وہ گول کروں جو آزادی کا ہو۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

Suleiman al-Obeid سلیمان احمد زاید العبید غزہ فٹبال فٹبالر فلسطین فلسطینی پیلے

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سلیمان احمد زاید العبید فٹبال فٹبالر فلسطین فلسطینی پیلے کے لیے

پڑھیں:

سندھ کے فنکار نے موہنجودڑو کا 5ہزار سالہ قدیم بھورینڈو نامی مٹی کا ساز دوبارہ زندہ کر دیا

موہنجودڑو کی 5ہزارسالہ قدیم تاریخ میں پیوستہ بھورینڈو نامی مٹی کے ساز کو سندھ کے فنکار فقیر ذوالفقار نے دوبارہ زندہ کردیا، بانسری جیسی آوازیں بکھیرنے والا آلہ موسیقی لمبائی کے بجائے ایک چھوٹے گلک سے مشابہہ ہے، گولائی کے حامل اس ساز میں بیک وقت 8 سوراخوں پر فنکار کی انگلیاں متحرک رہتی ہیں، جن سے نکلنے والی مسحورکن آوازوں سے سننے والے سر دھننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بھورینڈو ساز کو دوام بخشنے کےلیے اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ہیں، بھورینڈو کو مٹی سے بنانے والے کمہار کی بینائی بھی زائل ہوچکی ہے۔

تیاری کے بعد بھورینڈو کو جاذب نظر بنانے کے بعد مختلف رنگوں کے ذریعے ان پر نقش نگاری بھی کی جاتی ہے، ماضی کے بھورینڈو میں تین سر ہوا کرتے تھے، اب یہ سات سروں کا حامل سازہے، جس سےنئی نسل کو روشناس کروایا جارہا ہے۔

سندھ کے آثارقدیمہ موہنجودڑو کے5  ہزار سال پرانی تہذیب یقینا دیکھنے والوں پر سحرطاری کردیتی ہے، جس کی کھدائی کے دوران کھنڈرات سےملنے والی انسانی استعمال کی اشیا آج بھی عقل انسانی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔اسی قدیم تہذیب کے بطن سے ملنے والا ایک ساز جیسے بھورینڈو (مقامی زبان میں معنی مٹی سے بنا خالی اور چند سوراخوں کا حامل برتن) کی مدھر آوازیں آج بھی دیہی سندھ کےگاوں، دیہات اور کھیت کھلیانوں میں کہیں نہ کہیں گونج رہی ہیں۔

مگر دیہی سندھ کے فنکار فقیرذوالفقار اور ان کےآباواجداد کا ذکر یقینا ضروری ہے جنھوں نے اس ہزاروں سال قدیم ساز کو مسلسل زندہ رکھا ہوا ہے، جس کی جڑیں موہنجودڑو کی قدیم تہذیب میں پیوستہ ہیں،گمان ہےکہ کبھی اس بھولے بسرےساز کو موہنجودڑو کی تہذیب میں خوشی کے مواقعوں پر بجایا جاتا ہوگا۔

یہ کہا جائے تو بےجانہ ہوگا کہ اس ساز کو فقیر ذوالفقارکےگھرانے نے دوبارہ دوام بخشنےمیں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں ماضی اس قدیم ساز سے مدھر آوازیں پھوٹ کر کانوں میں رس گھول رہی ہیں، یہ نادرو نایاب ساز گولائی نما چھوٹے سے مٹی کے پیسے جمع کرنے والے ایک گلک سے ملتا جلتا ہے، جس میں 8 باریک سوراخوں پرجب فنکار جب اپنی انگلیوں کوایک خاص ترتیب سے حرکت دیتا ہے، تو مدھر سر سننے والوں پر سحرطاری کر دیتےہیں۔

اس قیدم ساز پر عبور رکھنے والے فنکار فقیر ذوالفقار کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہناتھا کہ ان کے خاندان کی تیسری نسل اس بھوریندو ساز کو بجا رہی ہے، جس کی ابتدا ان کے والد میر محمد لوند نےکی تھی، بھورینڈو صرف ایک ساز نہیں بلکہ سندھ دھرتی کی قدیم تہذیب کی پہچان ہے، بظاہر یہ ساز کئی صدیوں تک خاموش رہا، مگرماضی اور حال کا وہ رشتہ اس وقت بحال ہوا اور انسانی ہاتھوں میں پہنچ کر اس آلہ موسیقی کو دوبارہ زبان مل گئی۔

ان کا کہنا ہے کہ بھورینڈو کو اکثر کمہار آسانی سے بنا لیتے ہیں کیونکہ اس کی تیاری ہر وہ کمہار باآسانی کر سکتا ہے جو عموما برتن تیار کر سکتےہیں، مگر ایک کمہار ایسا ہے جو بھوریندو کو انتہائی چاہ سے تیار کرتےہیں، جس سےاس آلہ موسیقی کے سرکا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، عمر رسیدہ اللہ جڑیو کی بینائی اب کافی حد تک زائل ہوچکی ہے، مگر ان کا جذبہ ماند نہیں ہوا، وہ آج بھی ایک عام چکنی مٹی سے اس ساز کو بنانےکی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فقیر ذوالفقار کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور اور قدیم دور کے بھوریندو میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں،پہلے کے بھورینڈو میں دوسوراخ ہوا کرتےتھے،جو 2 ہی سر بجانے کا حامل تھا،مگر موجودہ بھورینڈو کےذریعے7سر بجائے جاسکتےہیں۔

محققین کے مطابق موہنجودڑو کے آثار میں اس جیسے ساز کی شکلیں مٹی کے مجسموں میں دیکھی گئی تھیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ 5 ہزارسال قبل اس ساز کے ذریعے فنکار سر بکھیرا کرتے تھے۔

 ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ عادل احمد کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے سندھ انسٹیٹوٹ آف میوزک اینڈ پرفارمنگ آرٹس میں یہ ساز بچوں کو سکھانے کے منصوبے پر کام جاری ہے، بھورینڈو کو یونیسف کے غیر محسوس ورثے کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے، اس فہرست میں تاریخی رسومات، زبانی روایا،فنون لطیفہ اور ورثہ جبکہ کئی قدیمی چیزیں شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سلامتی کونسل میں پاکستان کو امریکی قر اداد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے؟
  • سندھ کے فنکار نے موہنجودڑو کا 5ہزار سالہ قدیم بھورینڈو نامی مٹی کا ساز دوبارہ زندہ کر دیا
  • جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے  مزید  15 فلسطینی لاشیں واپس کردیں
  • استنبول مذاکرات ناکام: افغانستان سے ثالثوں کی امید بھی ختم ہوگئی، خواجہ آصف
  • زندہ رہنا سیکھئے! (حصہ اول)
  • پاک ، افغان مذاکرات ختم ہوچکے، اب ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے ہیں: خواجہ آصف
  • اس وقت پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے، خواجہ آصف
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک پر اسرائیلی افسرہ گھر میں نظر بند
  • وی ایکسکلوسیو: آئین زندہ دستاویز، 27ویں کے بعد مزید ترامیم بھی لائی جا سکتی ہیں، مصطفیٰ کمال
  • کراچی: ایل پی جی سے بھرے ٹرک اور مسافر کوچ میں تصادم، 7 افراد زندہ جل گئے