عمران خان کی ضمانت کیس کی سماعت 12 اگست کو سپریم کورٹ میں ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
اسلام آباد — سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12 اگست کو سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی ضمانت سے متعلق اپیلوں کی سماعت طے کر دی ہے۔ یہ اپیلیں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہیں جس میں 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں عمران خان کو ضمانت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ، جس میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں، منگل کے روز اس کیس کو سنیں گے۔ اس سے پہلے سماعت اس لیے ملتوی کر دی گئی تھی کیونکہ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں دستیاب نہیں تھے۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 24 جون کو 9 مئی کے واقعات سے جڑے آٹھ مقدمات میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان مقدمات میں لبرٹی چوک پر عسکری ٹاور پر حملہ، ماڈل ٹاؤن میں ن لیگ کے دفاتر پر حملہ، شادمان تھانے پر حملہ، کور کمانڈر ہاؤس کے قریب پولیس گاڑیاں جلانا اور شیرپاؤ پل پر تشدد کے الزامات شامل ہیں۔
عمران خان نے مؤقف اپنایا ہے کہ ان پر تشدد کی منصوبہ بندی اور اس میں سہولت کاری کا الزام اس وقت لگایا گیا جب وہ نیب کی حراست میں تھے، اس لیے ان کا ملوث ہونا ممکن ہی نہیں۔ اپیل میں یاد دہانی کرائی گئی کہ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر کوئی ملزم جائے وقوعہ پر موجود نہ ہو تو اس کا کیس کمزور ہوتا ہے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی انتقام کا حصہ ہیں، جن کا مقصد عمران خان کو جیل میں رکھنا اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ استغاثہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں جو انہیں واقعات سے جوڑ سکے۔ مزید کہا گیا کہ پولیس نے تاخیر سے متنازع بیانات شامل کیے، جن کی کوئی معقول وضاحت نہیں دی گئی، اور ہر بار استغاثہ نے اپنا مؤقف اس وقت بدلا جب پچھلا بیانیہ عدالت میں کمزور پڑ گیا۔
عمران خان کی قانونی ٹیم کے مطابق یہ تضادات اور شواہد میں موجود خامیاں اس کیس کو مزید تفتیش کا مستحق بناتی ہیں اور قانون کی رو سے ضمانت دینے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو چیلنج
سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے آئینی دائرہ اختیار کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم، سپریم کمانڈر صدر ہی رہیں گے: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا خصوصی انٹرویو
درخواست بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں وفاقِ پاکستان، سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مجوزہ ترمیم کے تحت ’آئینی عدالتوں‘ کے قیام اور آئین کے آرٹیکل 184(3) اور 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اختیارات کو کم یا منتقل کرنے کا امکان ہے، جو عدلیہ کی آزادی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ قرار دے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کو کسی بھی ترمیم یا قانون کے ذریعے محدود یا ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ آئین کی بنیادی خصوصیت کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وی ایکسکلوسیو: آئین زندہ دستاویز ہے، 27ویں کے بعد مزید ترامیم بھی لائی جاسکتی ہیں، مصطفیٰ کمال
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آئینی عدالت‘ کے نام سے کوئی متوازی یا بالادست فورم قائم کرنے کی کوشش آئین کے منافی ہوگی، لہٰذا عدالت اس مجوزہ ترمیم کے نفاذ کو روکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں