بھارت: ہمالیائی قصبے میں سیلاب کی تباہی، 70 افراد ہلاک ہونے کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
بھارت کے شمالی صوبے اترکھنڈ کے ہمالیائی قصبے دھارالی میں شدید سیلابی تباہی کے ایک ہفتے بعد حکام کا کہنا ہے کہ کم از کم 68 افراد لاپتا ہیں اور ان کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اتراکھنڈ کلاؤڈ برسٹ:ہلاکتوں کی تعداد 5 ہوگئی، بھارتی فوجیوں سمیت 100 لاپتہ
اس حادثے میں پہلے ہی 4 افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جس کے بعد مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 70 سے زائد ہو سکتی ہے۔
دھارالی کے سیلاب میں ایک برفانی دیوار اور مٹی کا سیلابی پانی وادی میں موجود کئی عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو بہا لے گیا۔ سیلابی پانی کے باعث امدادی ٹیموں کے لیے لاشیں تلاش کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کے گمبھیر سنگھ چوہان نے بتایا کہ تلاش کے دوران کئی جگہوں پر کتے لاشوں کی موجودگی کی نشاندہی کر چکے ہیں تاہم کھدائی کے دوران نیچے سے پانی نکلنے کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔ ریسکیو ٹیمیں زمین کی گہرائی کو جانچنے والی ریڈار ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہی ہیں تاکہ لاشوں کو جلد از جلد تلاش کیا جا سکے۔
مزید پڑھیے: بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں کلاؤڈ برسٹ سے قصبہ تباہ، 4 افراد ہلاک، درجنوں لاپتا
ابتدائی طور پر 100 سے زائد افراد لاپتا رپورٹ ہوئے تھے لیکن سڑکیں بہہ جانے اور موبائل نیٹ ورک کی خرابی کے باعث حتمی فہرست تیار کرنے میں کئی دن لگے۔ اب حکام کی فہرست میں 68 افراد شامل ہیں جن میں 44 بھارتی اور 22 نیپالی شہری ہیں۔ اس فہرست میں 9 فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق جون تا ستمبر مون سون کے موسم میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈز عام ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں اور غیر منصوبہ بند ترقی نے ان آفات کی شدت اور تعدد میں اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین اس کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھی قرار دے رہے ہیں۔
ابھی تک سیلاب کی باضابطہ وجہ نہیں بتائی گئی ہے لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں کی وجہ سے ایک تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئر سے مٹی اور پتھروں کا بہاؤ زمین پر آ کر تباہی مچا گیا۔
مزید پڑھیں: کلاؤڈ برسٹ سے بچاؤ اور ترقی یافتہ ممالک کی حکمتِ عملیاں
ہمالیائی گلیشیئر جو تقریباً 2 ارب لوگوں کو پانی فراہم کرتے ہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقے غیر یقینی اور مہنگی آفات کا شکار ہو رہے ہیں۔ پرمافراسٹ (مستقل برفانی زمین) کے نرم ہونے سے لینڈ سلائیڈز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اترکھنڈ بھارت ہمالیائی قصبہ دھارالی.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
روزانہ استعمال ہونے والی پانی کی بوتلیں جراثیم کا گھر، ماہرین نے خبردار کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے مگر اگر یہی پانی آلودہ بوتل سے پیا جائے تو فائدے کے بجائے نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حالیہ طبی تحقیقات اور ماہرین نے اس بات پر سخت تنبیہ کی ہے کہ گھروں، اسکولوں، اور دفاتر میں استعمال ہونے والی پانی کی بوتلیں اگر باقاعدگی سے صاف نہ کی جائیں تو وہ جراثیموں کی افزائش کا مرکز بن جاتی ہیں۔
امریکا کی پٹسبرگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی طبی ماہر مچل کنیپر کے مطابق پانی کی بوتلوں میں جراثیم ہمارے منہ اور ہاتھوں کے ذریعے پہنچتے ہیں، خاص طور پر بوتل کے نچلے حصے اور ڈھکن کے قریب جراثیم تیزی سے بڑھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بوتلوں کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو اس کے نتیجے میں پیٹ درد، گلے میں خراش، بخار، الرجی، یا حتیٰ کہ دمہ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
کلیو لینڈ کلینک کی ماہر ماریان سومیگو نے بتایا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی بوتلیں محفوظ ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بار بار استعمال کے بعد ان میں بیکٹیریا کی بڑی تعداد جمع ہو جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف پانی سے کھنگالنا کافی نہیں، بلکہ بوتل کو صابن اور گرم پانی سے اچھی طرح رگڑ کر دھونا چاہیے تاکہ تمام جراثیم ختم ہو جائیں۔
ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی بوتلوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا کی مقدار اکثر کچن کے سنک یا بیت الخلا کے فرش سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
مارچ 2023 میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں تو یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا تھا کہ عام پانی کی بوتلوں میں ٹوائلٹ کے مقابلے میں 40 ہزار گنا زیادہ جراثیم پائے گئے۔ محققین نے ان بوتلوں کو پیٹری ڈش سے تشبیہ دی جو لیبارٹریوں میں جراثیم اگانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق ایک عام بوتل میں اوسطاً دو کروڑ سے زائد جراثیم پائے جاتے ہیں، جب کہ ایک ٹوائلٹ میں ان کی تعداد صرف چند سو ہوتی ہے۔ نئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اگر کسی کو فوڈ پوائزننگ یا فلو جیسی علامات محسوس ہوں اور وجہ سمجھ نہ آ رہی ہو تو ممکن ہے کہ آلودہ پانی کی بوتل اس کا باعث ہو۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پلاسٹک کی بوتلوں کے بجائے اسٹیل یا شیشے کی بوتلیں استعمال کی جائیں، کیونکہ ان کی سطح پر جراثیم زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔ پلاسٹک کی بوتلیں نہ صرف بیکٹیریا کو جگہ دیتی ہیں بلکہ ان میں پلاسٹک کے لاکھوں ننھے ذرات بھی پائے جا سکتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔