ڈمپر حادثات کسی لسانی تنازع کا نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے، علی خورشیدی
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
سندھ اسمبلی اجلاس سے خطاب میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ شرجیل میمن ڈمپر مالکان کو گاڑیاں جلنے پر معاوضہ دینے کی بات کرتے ہیں، مگر پہلے یہ بتایا جائے کہ ان حادثات میں جان سے جانے والے معصوم شہریوں کے ورثا کا کیا قصور ہے کہ وہ آج بھی انصاف اور معاوضے سے محروم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد حزبِ اختلاف علی خورشیدی نے سندھ اسمبلی اجلاس میں ڈمپر سے کچلے جانے والے شہریوں کے المناک واقعات پر بھرپور اور دو ٹوک مقف اختیار کرتے ہوئے حکومت کو ایوان کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کسی لسانی یا انتظامی تنازع کا نہیں بلکہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے، اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی ناقابلِ معافی ہے۔
علی خورشیدی نے کہا کہ انتظامیہ کے افسران کو اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت تعینات کرتی ہے، اس لیے تمام تر ذمہ داری براہِ راست صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے، ایم کیو ایم پاکستان نے اس مسئلے پر کبھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی اور نہ ہی شر انگیزی کو سپورٹ کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ 200 سے زائد حادثات میں شہید ہونے والوں کے گھر سندھ حکومت پرسہ دینے تک نہیں گئی، جو ایک شرمناک طرزِ عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ شرجیل میمن ڈمپر مالکان کو گاڑیاں جلنے پر معاوضہ دینے کی بات کرتے ہیں، مگر پہلے یہ بتایا جائے کہ ان حادثات میں جان سے جانے والے معصوم شہریوں کے ورثا کا کیا قصور ہے کہ وہ آج بھی انصاف اور معاوضے سے محروم ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف نے ایوان میں واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزرا اور پوری حکومت سندھ اسمبلی کو جوابدہ ہے، ڈمپر مالکان کو معاوضہ دینے سے پہلے ان شہدا کے ورثا کو حق دیا جائے جنہیں سڑکوں پر بے رحمی سے کچلا گیا، ہم عوام کے نمائندے ہیں اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سندھ اسمبلی نے کہا کہ
پڑھیں:
بھاری جرمانوں پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت سندھ کا ای چالان کی رقم میں کمی پر غور
ذرائع کے مطابق حکومت اور پولیس کے اندر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ صرف جرمانے لگانے سے ٹریفک کے کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، اس کے لیے شہری اداروں اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کو شامل کر کے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حال ہی میں متعارف کرائے گئے ای ٹکٹنگ نظام خصوصاً بھاری جرمانوں اور ناکافی سڑکوں کے انفرااسٹرکچر پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت سندھ نے مختلف خلاف ورزیوں پر چالان کی رقم کم کرنے پر غوروخوض کرنا شروع کردیا ہے۔ شہریوں اور سیاسی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت، سندھ حکومت اور پولیس پر شدید تنقید کی ہے کہ بھاری جرمانے محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ کم از کم 3 درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جا چکی ہیں، ان پر عدالت نے حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ اس کے باوجود بعض حلقوں نے اعتراف کیا ہے کہ ای ٹکٹنگ کے بعد گاڑیاں ٹریفک سگنل پر مقررہ جگہ پر رکنے لگی ہیں اور موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے لگے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ حکمران جماعت کے کراچی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور بعض اعلیٰ پولیس افسران نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ ایک اچھے اقدام کو بعض سیاسی حلقوں نے اپنے مفاد کے لیے متنازع بنا دیا ہے کیونکہ کچھ خلاف ورزیوں پر جرمانے بہت زیادہ ہیں۔ ان کی تجویز تھی کہ صوبائی حکومت تنقید کم کرنے کے لیے جرمانوں میں کمی کر سکتی ہے یا انہیں ایک مقررہ مدت کے لیے معقول سطح پر لا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اور پولیس کے اندر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ صرف جرمانے لگانے سے ٹریفک کے کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، اس کے لیے شہری اداروں اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کو شامل کر کے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔
جب آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے پوچھا گیا کہ کیا اس نظام کی کامیابی مختلف اداروں کے باہمی تعاون پر منحصر ہے تو انہوں نے کہا کہ بالکل، ٹریکس کی طویل مدتی کامیابی ٹریفک پولیس، مقامی انتظامیہ، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ، ٹی ایم سی، کے ایم سی اور دیگر شہری اداروں کے قریبی اشتراک پر منحصر ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جرمانوں کا اسٹرکچر شہریوں کی آمدنی کے لحاظ سے نہیں بلکہ قانون شکنی سے باز رکھنے اور روڈ سیفٹی کو مدِنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ٹریفک جرمانے کوئی ناگزیر بوجھ نہیں، بلکہ انہیں ذمہ دارانہ ڈرائیونگ سے آسانی سے روکا جا سکتا ہے، مقصد آمدنی نہیں بلکہ نظم و ضبط، قانون کی پاسداری اور سڑکوں پر حفاظت کا کلچر فروغ دینا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ پہلی بار خلاف ورزی کرنے والے افراد 10 دن کے اندر ذاتی طور پر معافی نامہ جمع کرا کے جرمانہ ختم کروا سکتے ہیں، تاہم امکان ہے کہ حکومت اس ماہ کے آخر تک بعض خلاف ورزیوں پر جرمانے میں واضح کمی کا اعلان کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ نظام کو ختم یا معطل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے پورے کراچی اور بعد ازاں صوبے کے دیگر اضلاع تک وسعت دی جائے گی، فی الحال اگر کسی گاڑی کا رجسٹرڈ مالک اسے بیچ چکا ہو مگر خریدار نے اپنے نام منتقل نہ کرائی ہو تو ای ٹکٹ اسی سابقہ مالک کو ملتا ہے، اس صورت میں مالک کو ایکسائز اور پولیس دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ گاڑی اب اس کی نہیں۔