باجوڑ:گرینڈ جرگہ، قبائلی عمائدین کا پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے عزم کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
باجوڑ: قبائلی ضلع باجوڑ کے علاقے ماموند میں فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا نارتھ کے زیر اہتمام ایک شاندار گرینڈ جرگے کا انعقاد کیا گیا جس میں قبائلی عمائدین، مشران، عوام کی بڑی تعداد، سول انتظامیہ اور آئی جی ایف سی نارتھ نے شرکت کی، اس موقع پر وطن کی سلامتی اور امن کے قیام کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کے عزم کو ایک بار پھر دہرایا گیا۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق جرگے کے شرکاء کو بتایا گیا کہ علاقے میں خوارج اور دہشت گرد عناصر کی موجودگی کی اطلاعات پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں تاکہ قبائلی عوام کے جان و مال کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
اس موقع پر قبائلی مشران اور عمائدین نے واضح کیا کہ وہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہیں گے اور ملک دشمن قوتوں کے عزائم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
گرینڈ جرگے میں قبائلی عمائدین نے پاک فوج کی قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے امن قائم کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں، جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
عوام کی جانب سے بھی پاکستان اور پاک فوج کے حق میں زوردار نعرے لگائے گئے، جن سے ماحول جوش و خروش سے بھر گیا۔
مزید برآں قبائلی عوام اور مشران نے جرگے کے کامیاب انعقاد پر پاک فوج اور ایف سی کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے ٹی ڈی پیز کی بروقت واپسی اور علاقے میں امن کی بحالی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے ہمیشہ قبائل کے مسائل حل کرنے اور ان کی مشکلات کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تقریب کے اختتام پر شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قبائل اور پاک فوج مل کر دہشت گردی کے ناسور کا مکمل خاتمہ کریں گے اور وطن عزیز کے امن و استحکام کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاک فوج کے
پڑھیں:
ای چالان: انصاف کہاں ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-03-7
جمیل احمد خان
کراچی، وہ شہر جو کبھی روشنیوں، محبتوں اور زندگی کی رمق سے بھرپور تھا، آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر سمت بے بسی، ناانصافی اور عدمِ احساس کا سایہ منڈلا رہا ہے کبھی یہی شہر پاکستان کی پہچان تھا، جس کی سڑکوں پر زندگی دوڑتی تھی، جس کی فضا میں اْمید کی خوشبو تھی، مگر آج انھی سڑکوں پر عام شہری خوف اور مایوسی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے حکومت نے ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے نام پر جو نیا ای چالان نظام متعارف کرایا ہے، وہ شہریوں کے لیے ایک نئے عذاب سے کم نہیں اب شہر کا ہر ڈرائیور، ہر موٹرسائیکل سوار، ہر مزدور اپنے روزگار کی فکر سے پہلے اس بات سے خوف زدہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی نیا چالان اْس کے محدود بجٹ کو نہ نگل جائے یہ احساسِ محرومی اور بے بسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام کے دلوں میں قانون کے احترام کے بجائے نفرت اور بداعتمادی کے بیج بو دیے گئے ہیں۔
کراچی میں ٹریفک کے ای چالان کا جو نیا نظام متعارف کرایا گیا ہے وہ عوام کے لیے سہولت کے بجائے اذیت کا باعث بن گیا ہے اس نظام کے آغاز کے ساتھ ہی جرمانوں کی شرح اس قدر زیادہ مقرر کر دی گئی ہے کہ عام شہری کے لیے اسے برداشت کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جرمانے ایسے شہر میں عائد کیے جا رہے ہیں جہاں سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں، ٹریفک سگنل اکثر خراب رہتے ہیں، لین مارکنگ ناپید ہے، نکاسی آب کا نظام تباہ حال ہے اور انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر بوسیدہ ہو چکا ہے اس سب کے باوجود شہریوں پر ایسے بھاری جرمانے لاگو کیے جا رہے ہیں جیسے وہ دبئی یا کسی ترقی یافتہ ملک میں گاڑیاں چلا رہے ہوں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کا شہری روزانہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ان گڑھوں، کچرے، پانی اور دھول سے بھری سڑکوں پر سفر کرتا ہے مگر اس کی معمولی سی کوتاہی پر ہزاروں روپے کا چالان اس کے منہ پر دے مارا جاتا ہے بعض رپورٹس کے مطابق ہیلمٹ نہ پہننے پر پانچ ہزار، سگنل توڑنے پر دس ہزار اور بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر تیس ہزار روپے تک کے چالان جاری کیے جا رہے ہیں پہلے ہی دن دو ہزار سے زائد چالان کیے گئے جن کی مجموعی رقم ایک کروڑ سے زائد بنتی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ رقم ٹریفک کی بہتری پر خرچ ہوگی یا یہ عوام کی جیب سے نکلا ہوا پیسہ کسی اور مد میں جذب ہو جائے گا؟
اگر ہم اس صورتحال کا موازنہ پنجاب سے کریں تو فرق زمین و آسمان کا ہے وہاں جرمانے بہت کم ہیں اور اگر اضافہ بھی کیا جا رہا ہے تو تدریجی بنیادوں پر تاکہ عوام پر ایک دم سے بوجھ نہ پڑے پنجاب میں اب تک موٹر سائیکل سوار کے لیے ہیلمٹ نہ پہننے پر دو سو روپے، موبائل فون کے استعمال پر پانچ سو روپے اور سگنل کی خلاف ورزی پر ایک ہزار روپے تک کے جرمانے عائد کیے جاتے ہیں اور وہاں حکومت پہلے سڑکیں بناتی ہے، لین مارکنگ کرتی ہے، ٹریفک کے اصولوں کی آگاہی دیتی ہے پھر قانون نافذ کرتی ہے جبکہ کراچی میں الٹا نظام رائج ہے یہاں پہلے
جرمانے بڑھا دیے گئے اور بعد میں عوام کو بتایا گیا کہ یہ نظام بہتری کے لیے ہے اگر انفرا اسٹرکچر درست نہیں، ٹریفک پولیس تربیت یافتہ نہیں، سڑکیں قابل استعمال نہیں تو ایسے میں جرمانے لگانا سراسر ظلم ہے۔ عوام کا غصہ بجا ہے کہ پہلے سڑکیں بنائی جائیں، ٹریفک سگنل درست کیے جائیں، پارکنگ کے باقاعدہ مقامات بنائے جائیں اور رشوت ستانی ختم کی جائے اس کے بعد جرمانے لگائے جائیں۔ کراچی کا شہری ویسے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی سے پریشان ہے اوپر سے اگر اسے روزانہ کسی نہ کسی چالان کا سامنا کرنا پڑے تو وہ جائے تو کہاں جائے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو مگر افسوس کہ یہاں طاقتور اور اثر رسوخ والے طبقے کو کبھی چالان نہیں ملتا عام آدمی جس کی گاڑی یا موٹرسائیکل پر تھوڑا سا بھی فرق نظر آ جائے فوراً اس پر ای چالان بھیج دیا جاتا ہے۔
حکومت کہتی ہے کہ یہ نظام شفاف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اکثر کیمرے درست زاویے پر نہیں لگے ہوتے، غلط نمبر پلیٹ پڑھ کر بے گناہ شہریوں کو چالان بھیج دیا جاتا ہے اور جب وہ اعتراض درج کرانے جاتے ہیں تو مہینوں ان کا کیس لٹکا رہتا ہے مزید ستم یہ کہ اگر گاڑی کسی مرحوم کے نام پر ہو یا مالک کا پتا نامعلوم ہو تو چالان کا تعین ہی ممکن نہیں رہتا جس سے نظام کی ناقص منصوبہ بندی عیاں ہوتی ہے کسی بھی مہذب معاشرے میں قانون اس وقت نافذ کیا جاتا ہے جب عوام کو تمام سہولتیں فراہم کر دی جائیں تاکہ ان پر کسی قسم کا ظلم یا زیادتی نہ ہو، مگر کراچی میں الٹ ہو رہا ہے یہاں پہلے سزا دی جاتی ہے اور بعد میں سہولت دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں عوام کا اعتماد ختم ہو جانا فطری امر ہے، ٹریفک کے قوانین کا مقصد عوام کو نظم و ضبط سکھانا ہوتا ہے نہ کہ انہیں مالی طور پر تباہ کرنا اگر حکومت واقعی عوام کی فلاح چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے سڑکوں کی مرمت کرے، ٹریفک نظام کو جدید خطوط پر استوار کرے، عوامی آگاہی مہم چلائے اور پھر مناسب شرح پر جرمانے عائد کرے کراچی کے شہری پہلے ہی زندگی کی سختیوں سے دوچار ہیں ان پر دبئی جیسے جرمانے لاگو کرنا انصاف نہیں بلکہ ایک اذیت ناک تجربہ ہے جو عوام کے اعتماد کو مزید مجروح کرے گا یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور ایسے فیصلے عوامی مشاورت سے کرے تاکہ کراچی کے لوگ بھی یہ محسوس کر سکیں کہ یہ شہر ان کا ہے اور حکومت ان کے ساتھ ہے نہ کہ ان کے خلاف۔
کراچی کے عوام اب ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے یہ شہر جس نے پورے ملک کو روشنی، روزگار اور ریونیو دیا، آج خود اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے لوگ اب یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ آخر کب تک کراچی والے اپنی محنت کا پھل ناانصافی کے بوجھ تلے دباتے رہیں گے؟ کب تک ان سے ترقی یافتہ ملکوں جیسے جرمانے وصول کیے جاتے رہیں گے مگر سہولتیں صدیوں پرانی ملتی رہیں گی؟ حکومت کے لیے یہ لمحہ ٔ فکر ہے کہ عوام کے صبر کو آزمائش میں نہ ڈالے اس شہر کے لوگوں کو ریلیف، احساس اور احترام دیجیے تاکہ وہ ایک بار پھر فخر سے کہہ سکیں کہ ہاں، ہم کراچی والے ہیں، اور یہ شہر واقعی ہمارا ہے۔