خواتین کا دولت مند مردوں کی طرف رجحان، ہمایوں اشرف نے تلخ سچائی بیان کردی
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
پاکستانی ٹیلی وژن اور فلم کے معروف اداکار ہمایوں اشرف نے معاشرے میں خواتین کا دولت مند مردوں کی طرف رجحان پر اظہار خیال کیا ہے۔
ہمایوں اشرف اپنی ہمہ جہت اداکاری اور شاندار پرفارمنس کے باعث شوبز انڈسٹری میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ متعدد کامیاب ڈراموں میں کام کرچکے ہیں۔ ہمایوں نے ایک انٹرویو کے دوران معاشرے میں خواتین کے مالی طور پر مستحکم مردوں کو ترجیح دینے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا ’’آج کل محبت کا تعلق مادّیت سے جڑ گیا ہے، یہ حساب کتاب اور عملی سوچ پر مبنی ہوچکی ہے، اور یہ بالکل درست ہے۔ آج کی محبت مادّی بنیادوں پر قائم ہے اور کسی مستحکم شخص سے شادی کرنا ایک حقیقت پسندانہ رویہ ہے، اس میں کوئی برائی نہیں۔ اگر میرے پاس پیسے نہ ہوں تو کوئی بھی مجھے مسترد کرسکتا ہے، اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔‘‘
ہمایوں نے اپنی بہن کی حوالہ دیتے ہوئے مثال کے طو پر کہا کہ ’’اگر ماریہ مجھ سے کسی ایسے لڑکے کے بارے میں مشورہ کرے جو کما نہیں رہا، تو میں اسے عملی مشورہ دوں گا کہ شادی سے پہلے اچھی طرح سوچے۔ اسی طرح اگر کوئی لڑکی مجھے صرف پیسوں کی وجہ سے مسترد کرے تو مجھے برا نہیں لگے گا، کیونکہ یہ اس کی سوچ ہے۔ یہ بالکل منصفانہ بات ہے، کیونکہ اگر میں اپنی بہن یا کزن کےلیے رشتہ دیکھ رہا ہوتا تو میں بھی یہ دیکھتا کہ لڑکا کما رہا ہے یا نہیں۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ رشتے کے فیصلے میں مالی حیثیت کو نظرانداز کرنا عملی زندگی میں اکثر ممکن نہیں ہوتا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
افغانستان میں خواتین کے تیزی سے سکڑتے حقوق پر یو این ویمن کو تشویش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 اگست 2025ء) 2021 میں افغان خاتون ملک کی صدارت کا انتخاب لڑ سکتی تھی لیکن آج وہاں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر بولنا بھی ممنوع ہے۔ یو این ویمن نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں پر قدغن بڑھتی جا رہی ہے اور فوری اقدامات نہ کیے گئے تو وہ اپنے تمام حقوق کھو دیں گی۔
ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے طالبان حکمران ایسے معاشرے کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے قریب ہیں جہاں خواتین کو عوامی زندگی سے پوری طرح خارج کر دیا جائے گا۔
Tweet URLطالبان نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو سلب کرنے کے لیے بہت سے احکامات جاری کیے ہیں جو باہم مل کر ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس میں وہ اپنے گھر کی چاردیواری تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی کارکنوں سمیت خواتین کو کسی محرم یا مرد سرپرست کے بغیر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کو ثانوی اور اعلیٰ درجے کی تعلیم کے حصول سے بھی روک دیا ہے۔ان دونوں احکامات کے معاشرے کی ہر سطح پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب خواتین کے لیے نہ تو تعلیمی ڈگری کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی وہ روزگار حاصل کر سکتی ہیں جبکہ ان کے لیے کسی طرح کے تربیتی پروگراموں میں شرکت بھی ممکن نہیں۔
ان حالات میں 78 فیصد سے زیادہ خواتین گھر بیٹھی ہیں اور ملک کی نصف سے زیادہ افرادی قوت کا معیشت میں کوئی کردار نہیں رہا جو کہ ایسے ملک کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی معاشی حالت پابندیوں اور موسمیاتی دھچکوں کے باعث دگرگوں ہو چکی ہے۔
زچگی کی اموات بڑھنے کا خدشہطالبان کے احکامات سے معیشت کو ہی مسائل کا سامنا نہیں بلکہ کئی طرح سے یہ خواتین کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بھی بن گئے ہیں۔
یو این ویمن کے مطابق، ان کے نتائج تباہ کن ہیں۔ خواتین کی اوسط عمر کم ہو رہی ہے اور ان کی صحت کے لیے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔اگر خواتین کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی نہ ہو تو وہ ڈاکٹر نہیں بن سکتیں۔ اگر انہیں مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے روک دیا جائے تو وہ صحت مند زندگی کی امید نہیں رکھ سکتیں۔
یو این ویمن کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے طبی خدمات کے حصول پر رکاوٹوں کے نتیجے میں آئندہ سال زچگی میں اموات کی شرح 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔
موجودہ حالات میں نوعمر کی شادی بھی عام ہوتی جا رہی ہے اور خواتین پر اندرون و بیرون خانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔خواتین کا عزمادارے نے بتایا ہے کہ 62 فیصد خواتین محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اپنے گھر کے فیصلوں پر بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔ تاہم، مایوس کن حالات کے باوجود خواتین پرعزم ہیں اور بہتر مستقبل کی امید رکھتی ہیں۔
خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے نچلی سطح پر ایک تنظیم چلانے والی خاتون 2022 میں ہر طرح کی مالی مدد سے محروم ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ خاتون کی حیثیت سے مضبوط ہو کر کھڑی رہیں گی اور دیگر افغان خواتین کی مدد جاری رکھیں گی۔ وہ دور دراز علاقوں میں جاتی اور خواتین کے مسائل سن کر انہیں امید دلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انہیں مدد دینے کے لیے ہرممکن کوشش کریں گی اور اس کام سے خود انہیں بھی امید ملتی ہے۔
خطرناک مثال15 اگست 2021 کو افغانستان کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے 100 سے زیادہ ایسے احکامات جاری کیے ہیں جن کے تحت خواتین کے حقوق اور نقل و حرکت کی آزادی پر رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔
گزشتہ چار سال میں ایسا ایک بھی حکم واپس نہیں لیا گیا۔افغانستان میں یو این ویمن کی نمائندہ سوزن فرگوسن نے کہا ہے کہ یہ محض افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ عالمی برادری کی حیثیت سے ہم کہاں کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ اگر افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ تعاون نہ کیا گیا اور ان کی آوازیں خاموش ہو گئیں تو دنیا بھر میں یہ پیغام جائے گا کہ ہر جگہ خواتین اور لڑکیوں کو دبایا جا سکتا ہے اور یہ نہایت خطرناک مثال ہو گی۔