این بی پی نے پاکستان کا 78 واں یوم آزادی خصوصی صلاحیت کے حامل بچوں کے ساتھ منایا
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) نے پاکستان کا 78 واں یوم آزادی جوش و جذبے اور فخر کے ساتھ منایا۔ این بی پی کی قیادت، ملازمین اور اُن کے اہل خانہ نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر یوم آزادی کی مناسبت سے تقریبات میں شرکت کیں۔ این بی پی ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایونٹس میں قومی پرچم لہرانے، قومی ترانہ گانے اور کیک کاٹنے کی تقریبات شامل تھیں۔رواں سال قومی ترانے کو ایک خاص اور دل کو چھو لینے والا رنگ اُس وقت ملا جب ڈیف ریچ اسکول کے بچوں نے اشاروں کی زبان میں اس میں حصہ لیا۔ ان کی شمولیت یاددہانی تھی کہ حب الوطنی الفاظ سے بڑھ کر ہے۔ یہ اتحاد، شمولیت اور ہر صورت میں وطن سے محبت کا نام ہے۔
اس موقع پر این بی پی کے صدر رحمت علی حسنی نے کہا، ”یومِ آزادی عوام کی استقامت، جرات اور عزم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ ہمیں اپنے وطن کی کامیابیوں پر فخر ہے اور ہم اس کی معاشی اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ دن اُن لازوال قربانیوں کو یاد کرنے کا موقع ہے جو پاکستان کی آزادی کے لیے دی گئیں، اور اُن اقدار و اصولوں کے تحفظ کے عہد کی تجدید کا وقت بھی ہے جن پر یہ ملک قائم ہوا۔“انہوں نے مزید کہا، ”مالیاتی خدمات تک رسائی کو آسان بنا کر، کاروباری مواقع فراہم کرکے اور پائیدار ترقی میں تعاون کے ذریعے بینک کا مقصد آنے والی نسلوں کے لیے ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان کی تعمیر میں بامعنی کردار ادا کرنا ہے۔“
پاکستان کی آزادی کے 78 سال مکمل ہونے پر نیشنل بینک آف پاکستان نے ایک بار پھر ملک کی ترقی، خوشحالی اور اتحاد میں اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کو دوہرایا۔ یہ جشن اس بات کی یاد دہانی بھی تھا کہ ہمارے بزرگوں کی دی گئی قربانیوں کے بعد اب ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کریں۔
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں صحافی مسلسل پر خطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں، آر ایس ایف
اگست 2019ء کے بعد سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے، مئی 2025ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ”صحافیوں کے حقوق اور صحافتی آزادی کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز“ (آر ایس ایف ) نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صحافی مسلسل دباﺅ، دھمکی اور پرخطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق ”آر ایس ایف“ نے اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطوں میں سے ایک ہے، اگست 2019ء کے بعد سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے، مئی 2025ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس دوران میر گل نامی صحافی کو سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی کارروائیوں جیسے حساس موضوعات کو کور کرنے والے صحافیوں کو نگرانی، گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
2019ء کے بعد سے کم از کم 20 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں ”کشمیر والا“ کے ایڈیٹر فہد شاہ بھی شامل ہیں، فہد شاہ کو تقریبا دو برس قید رکھا گیا۔ ایک اور صحافی عرفان معراج کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت 2023ء میں گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف کے سائوتھ ایشیا ڈیسک کی سربراہ Célia Mercier نے کہا جموں و کشمیر میں میڈیا کے پیشہ ور افراد مستقل دھمکیوں کے ماحول میں کام کر رہے ہیں، انہیں شدید پابندیوں اور مسلسل نفسیاتی دبائو کا سامنا ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ تنظیم نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 2022ء میں کشمیر پریس کلب کی بندش نے مقامی رپورٹرز کو پیشہ ورانہ جگہ سے محروم کر دیا اور انہیں مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔
کشمیر میں انٹرنیٹ کی پابندیاں ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، خدمات کو 2G تک محدود کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیوں کے دوران انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے۔ آر ایس ایف نے پاسپورٹ کی منسوخی، پریس کارڈ کی فراہمی سے انکار اور بھارتی حکام کے دیگر ناروا اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو سفری دستاویزات کے باوجود 2022ء میں بیرون ملک جانے نہیں دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت سے انکار نہ صرف صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں لاکھوں لوگوں کو آزادانہ اور قابل اعتماد معلومات کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔