18 سالہ ماہ نور نے 24 اے لیول مضامین میں اعلیٰ امتیازی نمبر حاصل کر کے ایک ہی وقت میں چار نئے عالمی ریکارڈ قائم کر دیے۔ اس سے قبل وہ 34 جی سی ایس ای مضامین میں بھی شاندار کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔ماہ نور چیمہ اب مجموعی طور پر چھ عالمی ریکارڈز کی مالک ہیں، جو دنیا میں کسی بھی سیکنڈری اسکول طالب علم کے لیے سب سے زیادہ ہیں۔ شاندار کارکردگی کے بعد انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں میڈیسن کی تعلیم کے لیے داخلہ مل گیا ہے۔ماہ نور نے سب سے زیادہ انفرادی اے لیول مضامین پاس کرنے، سب سے زیادہ اے پلس اور اے گریڈز حاصل کرنے اور سب سے زیادہ کل مضامین میں امتیازی کامیابی حاصل کرنے جیسے ریکارڈز قائم کیے۔ماہ نور کا کہنا ہے: "یہ میرے بچپن کا خواب تھا، جو اب پورا ہو گیا ہے۔ آکسفورڈ میں داخلہ پانا میرے لیے خوشی کا لمحہ ہے، اور اس کا سہرا میرے والدین کی قربانیوں کو جاتا ہے۔"

پاکستانی طالبہ نے موسیقی میں بھی ڈپلومہ حاصل کر رکھا ہے.

اداکاری اور پبلک اسپیکنگ میں گولڈ میڈلز جیتے ہیں، اور وہ مینسا کی ممبر بھی ہیں۔ ان کی یہ شاندار کامیابیاں پاکستان اور برطانیہ دونوں کے لیے فخر کا باعث ہیں۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سب سے زیادہ ماہ نور

پڑھیں:

برطانوی پولیس کو مشتبہ افراد کی نسلی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی

لندن: برطانیہ میں پولیس کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت ہائی پروفائل اور حساس مقدمات میں مشتبہ افراد کی قومیت اور نسلی پس منظر کی تفصیلات عوام کے سامنے لانے کی اجازت دی جا رہی ہے، تاکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

یہ فیصلہ پچھلے سال پیش آنے والے ایک بڑے واقعے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی و سماجی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔

جولائی 2024 میں برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں پیش آئے ایک ہولناک واقعے کے بعد یہ مسئلہ شدت سے سامنے آیا، جب تین کم سن لڑکیوں کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ 

اس واقعے کے بعد آن لائن افواہیں گردش کرنے لگیں کہ حملہ آور ایک کم عمر تارکِ وطن ہے۔ ان جھوٹی خبروں نے عوامی اشتعال کو بھڑکا دیا، نتیجتاً ملک کے مختلف حصوں میں شدید ہنگامے اور فسادات پھوٹ پڑے۔

اس واقعے نے حکومت اور پولیس کو تنقید کے نشانے پر لا کھڑا کیا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ پولیس حساس کیسز میں جان بوجھ کر ملزمان کی قومیت یا امیگریشن اسٹیٹس کو چھپاتی ہے تاکہ عوامی ردعمل سے بچا جا سکے۔ 

گزشتہ ہفتے ریفارم یوکے پارٹی نے ایک اور کیس میں پولیس پر یہی الزام عائد کیا — وسطی انگلینڈ میں ایک 12 سالہ لڑکی کے مبینہ ریپ میں ملوث ملزمان کے بارے میں کہا گیا کہ پولیس نے ان کی امیگریشن حیثیت چھپائی۔ بعد ازاں، مقامی کونسل کے ایک رہنما نے عوامی طور پر دعویٰ کیا کہ ملزمان پناہ گزین ہیں، جس کے بعد ایک بار پھر امیگریشن مخالف احتجاج شروع ہو گیا۔

اس وقت برطانیہ میں پولیس کے لیے یہ اصول موجود ہے کہ وہ صرف اتنی معلومات شیئر کرے جو کسی ملزم کو منصفانہ ٹرائل فراہم کرنے کے لیے ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قومیت اور امیگریشن حیثیت جیسی تفصیلات عام طور پر ظاہر نہیں کی جاتیں۔

تاہم، نیشنل پولیس چیفس کونسل (NPCC) اور کالج آف پولیسنگ کی جانب سے جاری کی گئی نئی ہدایات کے مطابق اب پولیس فورسز کو "ترغیب" دی جائے گی کہ جہاں کسی واقعے سے متعلق جھوٹی یا متضاد معلومات تیزی سے پھیل رہی ہوں، وہاں عوامی مفاد کے تحت نسلی یا قومیتی پس منظر جیسی تفصیلات شیئر کی جائیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قدم ایک طرف شفافیت اور عوامی اعتماد بڑھا سکتا ہے، مگر دوسری جانب خطرہ ہے کہ اس سے نسلی تعصب اور امیگریشن مخالف جذبات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کچھ کارکنان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا غلط استعمال مخصوص برادریوں کو نشانہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جھوٹی خبروں اور افواہوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔


 

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ نے 6عالمی تعلیمی ریکارڈز اپنے نام کر لئے
  • برطانوی ہائی کمشنر کا پاکستان میں سیلاب سے قیمتی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس
  • پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور چیمہ نے 6 عالمی تعلیمی ریکارڈ قائم کر دیے
  • پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ نے 6 عالمی تعلیمی ریکارڈز اپنے نام کر لئے
  • برطانوی پولیس کو مشتبہ افراد کی نسلی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی
  • پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ کا کارنامہ، 6 عالمی تعلیمی ریکارڈز اپنے نام کرلیے
  • 14 اگست اور جبری تاریخ
  • خیبر پختونخوا میں ڈبل شفت اسکول سسٹم شروع کرنے کا فیصلہ