نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے سدباب کیلیے نظام انصاف میں جدت لانے اور منصوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر زور دیا ہے،یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے بینچ کا ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
18جولائی کی عدالتی کارروائی کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جو 28دن بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پبلک ہوا ہے غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی سے متعلق اپیل کا ہے۔عدم پیروی پر اپیل کو مسترد کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کے خاتمے کے مترادف ہوتی ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر عوام کے عدلیہ کے عوام پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے،قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے،کمزور اور پسماندہ طبقات کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل عدالتی کارروائی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو غیر حقیقی بناتی ہے اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے،اس وقت پاکستان بھرکی عدالتوں میں 22لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے تقریباً 55ہزار 9سو 41مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالت کو بطور ادارہ جاتی پالیسی اور آئینی ذمہ داری فوری طور پر ایک جدید، جواب دہ اور سمارٹ کیس مینجمنٹ نظام کی طرف منتقل ہونا ہوگا ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ فیصلے میں
پڑھیں:
سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ججز کی مستقل منتقلی کو آئین کے آرٹیکل 200 کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ٹرانسفر صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔
صدر پاکستان نے ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے جاری کیا، جو غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا عمل تھا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق صدر کا یہ نوٹیفکیشن بے اثر ہے اور قانوناً اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے تھے۔
خط میں دباؤ، بلیک میلنگ، غیر قانونی نگرانی اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔
نوٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی ججز نے اپنے خط میں اٹھایا تھا اور چیف جسٹس سے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق ججز کے اسی خط کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کی مستقل منتقلی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی کو متاثر کرنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اختلافی نوٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ