مون سون 2025ء: تربیلا ڈیم 98 فیصد اور منگلا ڈیم 68 فیصد بھر چکا: پی ڈی ایم اے
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
---فائل فوٹو
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب نے دریاؤں کی صورتحال سے متعلق الرٹ جاری کیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق مون سون بارشوں اور گلیشئیرز پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا ہے، دریائے سندھ میں کالا باغ اور چشمہ بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب جبکہ تربیلا اور تونسہ بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
اسی طرح دریائے جہلم کے اہم مقامات اور ملحقہ نالوں میں اور دریائے چناب پر بہاؤ معمول پر ہے، نالہ پلکھو کینٹ میں نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے راوی پر بھی بہاؤ معمول پر ہے، نالہ بسنتر میں نچلے درجے کا سیلاب جبکہ تربیلا ڈیم 98 فیصد اور منگلا ڈیم 68 فیصد بھر چکا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تربیلا ڈیم کا لیول 1547.
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نچلے درجے کا سیلاب
پڑھیں:
ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین
لاہور:عائشہ کی عمر صرف 14 برس ہے مگر اس کی آنکھوں نے اتنا سیلاب اور آلودگی دیکھی ہے کہ زندگی کے رنگ ماند پڑ چکے ہیں، وہ لاہور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑی آسمان دیکھتی ہے تو اسے سورج نہیں، صرف زرد دھند دکھائی دیتی ہے،سانس لینا مشکل ہے۔
عائشہ اُن لاکھوں پاکستانی بچوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اولین اور سب سے کمزور متاثرین ہیں، عائشہ کے گھر کی طرح اسکول بھی حالیہ سیلاب میں تباہ ہو چکا۔
اسے ڈر ہے کہ اسموگ کے موسم میں کلاسیں پھر بند نہ ہو جائیں،کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہرکہتی ہیں، ماحولیاتی تباہیوں کے باعث بے گھر ہونے والے بچوں کی نفسیات شدید متاثر ہوئی۔
سیلاب اور اسموگ سے متاثرہ علاقوں میں بے چینی، ڈپریشن اور صدمے کے بعد کے ذہنی دبائو، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا، تقریباً نصف متاثرہ بچے نیند، توجہ اور اعتماد کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا موسم اب ایک بحران بن چکا ہے،درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ، سیلاب کی غیر معمولی شدت اور اسموگ کے طویل موسم نے بچوں کی فطری معصومیت کو متاثر کیا۔
قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی بیشتر موسمیاتی پالیسیاں اب بھی توانائی، زراعت اور انفراسٹرکچر تک محدود ہیں،ان میں بچوں کا کوئی ذکر نہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ چائلڈپروٹیکشن بیورو اینڈویلفیئر بیورو کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے کوئی کردار نظر نہیں آتاہے۔
سرچ فار جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر بچوں پر مرکوز موسمیاتی ایکشن پلان بنانے چاہییں، ہمیں بیانات نہیں، نتائج درکار ہیں۔
سماجی کارکن راشدہ قریشی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نہ صرف جسمانی بلکہ سماجی خطرات بھی بڑھا رہی ہے۔