اتحادِ امت: فتنوں کے مقابلے کا واحد راستہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ذاتی، مسلکی اور گروہی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر امت کے اجتماعی مفاد کو مقدم رکھیں۔ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر باہمی احترام اور برداشت کو فروغ دیں۔ مسجد، مدرسہ، منبر اور میڈیا کو اتحاد کا ذریعہ بنائیں۔ نوجوانوں کو فرقہ واریت سے دور رکھ کر اسلامی اخوت، علم و تحقیق اور فکری آزادی کی تعلیم دیں۔ علمائے کرام اپنے خطابات اور تحریروں میں اتحاد و اتفاق کا پیغام عام کریں۔ تحریر: اسرار احمد
تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لیے ہیں جو زمین و آسمان کا مالک، کل کائنات کا خالق اور انبیائے کرام علیہم السلام کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمانے والا ہے۔ وہی رب جو خیر و شر کی پہچان عطا کرتا، صراطِ مستقیم دکھاتا اور آزمائشوں کے اندھیروں میں نورِ ہدایت بخشتا ہے۔ آج امت مسلمہ ایک نازک اور پُرآزمائش دور سے گزر رہی ہے۔ طاغوتی، شیطانی اور دجالی فتنوں نے ہر سمت سے گھیراؤ کر رکھا ہے۔ دشمنانِ اسلام مختلف چہروں، نعروں اور نظریات کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، ان سازشوں اور فتنوں کے باوجود اہلِ حق آج بھی حق کی صدا بلند کر رہے ہیں اور امت کے اتحاد اور بیداری کے لیے کوشاں ہیں۔
موجودہ دور میں وہ علمائے کرام، اسکالرز، محققین اور مفکرین جو حالات کا ادراک رکھتے ہیں، شیطانی طاقتوں، استعماری ایجنڈوں اور مغربی سازشوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آج کے فتنوں کا مقابلہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب امتِ مسلمہ اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کو اپنا اصل سرمایہ بنائے۔ امت کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک ہی بنیادی اصول میں پنہاں ہے، اور وہ ہے "اتحاد"۔ یہی وہ طاقت ہے جو تعصب، تکفیر اور تفرقہ جیسے زہریلے رجحانات کا علاج ہے۔ اسی کے ذریعے فکری و تہذیبی فتنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ جب امت نے اتحاد کا مظاہرہ کیا تو بڑی سے بڑی طاقتیں بھی ان کے سامنے جھک گئیں۔ خلافتِ راشدہ، صلاح الدین ایوبی کی قیادت اور دیگر کئی مثالیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مختلف فقہی مسالک اور مذہبی طبقات پائے جاتے ہیں، ایک وقت تھا جب اختلافات کے باوجود باہمی احترام، محبت اور حسنِ سلوک غالب تھا۔ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث سب ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ رکھتے تھے۔ مذہبی تہواروں پر باہمی رواداری کا ماحول دکھائی دیتا تھا۔
بدقسمتی سے وقت کے ساتھ کچھ خودغرض عناصر نے اس پرامن فضا کوخراب کر دیا۔ ایک مخصوص طبقے نے فرقہ واریت، تکفیر اور الزامات کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے امت کے شیرازے کو بکھیر دیا۔ مذہبی تقریبات اور خطبات کو اشتعال انگیزی کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ عالمی استعماری قوتوں کی سوچی سمجھی سازش تھی، جو جانتی ہیں کہ اگر مسلمان متحد ہو گئے تو دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا۔ اسی لیے زبان، نسل، مسلک، جغرافیہ اور سیاست کی بنیاد پر ہمیں تقسیم کیا جا رہا ہے۔
حالیہ ایران-اسرائیل جنگ اس حقیقت کو مزید نمایاں کرتی ہے کہ جب مسلمان قیادت ایمانی بصیرت اور جرأت کے ساتھ دشمن کے سامنے ڈٹ جائے، تو بڑی سے بڑی عسکری طاقتیں بھی شکست کھا جاتی ہیں۔ ایران کی قیادت نے فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے قربانیاں دیں، شہادتیں پیش کیں اور دشمن کے عزائم ناکام بنا دیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی، کیونکہ:
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
اللہ ضرور اُس کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔ (الحج: 40)
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ذاتی، مسلکی اور گروہی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر امت کے اجتماعی مفاد کو مقدم رکھیں۔ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر باہمی احترام اور برداشت کو فروغ دیں۔ مسجد، مدرسہ، منبر اور میڈیا کو اتحاد کا ذریعہ بنائیں۔ نوجوانوں کو فرقہ واریت سے دور رکھ کر اسلامی اخوت، علم و تحقیق اور فکری آزادی کی تعلیم دیں۔ علمائے کرام اپنے خطابات اور تحریروں میں اتحاد و اتفاق کا پیغام عام کریں۔
یاد رکھیے! امتِ مسلمہ کا اتحاد ہی اس کے عروج کی ضمانت ہے۔ اگر ہم نے آج بھی ہوش نہ کیا تو دشمن ہمارے عقائد، تہذیب اور خودمختاری کو مٹا دے گا۔ آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں فروعی اختلافات کو نظر انداز کرکے ایک ایسے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا جہاں امت کی بھلائی، اسلام کی سربلندی اور انسانیت کی فلاح مقصد ہو۔ یہی وقت ہے کہ ہم اتحاد کو اپنا ہتھیار بنائیں، اللہ کے حکم پر عمل کریں، اور یاد رکھیں:
مسلمانوں کا اتحاد، عالمِ کفر کی موت ہے
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل
پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت میں طے شدہ پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل کا مطالبہ کیا ہے اور ڈیڑھ سال میں دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں مگر لگتا ہے کہ ن لیگ پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کو شامل کرنے پر راضی نہیں ہو رہی جب کہ وہ وفاقی حکومت میں تو پیپلز پارٹی کو نمایندگی دینے پر تیار ہے اور دونوں پارٹیاں بلوچستان حکومت میں شامل ہیں اور دونوں نے بلوچستان میں جے یو آئی کو نظرانداز کرکے مخلوط حکومت بنائی تھی جب کہ جے یو آئی کے پاس بلوچستان میں کے پی سے زیادہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی ہیں۔
سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی اسمبلی تو کیا ایک رکن سندھ اسمبلی بھی نہیں ہے اور سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت اسی طرح حاصل ہے، جیسی اکثریت (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں حاصل ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کو پنجاب کے گورنر کا عہدہ ملا ہوا ہے اور چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے پاس ہے اور ملتان ڈویژن میں گیلانی خاندان نے متعدد نشستیں بھی حاصل کر رکھی ہیں اور جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نمایندگی حاصل ہے اور وہ پنجاب میں (ن) لیگ کی حلیف بھی ہے اس لیے پنجاب حکومت میں شمولیت چاہتی ہے جس کے لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان متعدد اجلاس ہو چکے ہیں مگر ن لیگ کو نہ جانے کون سے تحفظات ہیں کہ وہ راضی نہیں ہو رہی۔
پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنے وزیروں کی ضرورت ہے تاکہ وہ محکمے لے کر پی پی کارکنوں کو نواز سکے۔ گورنر پنجاب کا عہدہ آئینی ہے جب کہ وزیروں کو محکمے تو ملتے ہیں مگر وہ وہاں من مانیاں نہیں کر سکتے کیونکہ پنجاب حکومت اور اس کی انتظامی ٹیم کی ہر محکمے پر نظر ہے اورن لیگ ایک واضح پالیسی کے تحت صوبہ چلا رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے ارکان اگر حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو انھیں پنجاب حکومت کی پالیسی کسی صورت قبول نہیں ہوگی جس سے دونوں پارٹیوں میں اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔دونوں پارٹیوں میں اختلافات ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ارکان کو مجبوراً مفاہمت کی پالیسی اپنانا ہو گی۔
پی پی کے ارکان اگر وزیر بنتے ہیں تو انھیں اپنی پارٹی کو پروموٹ کرنا ہوگا تاکہ پنجاب میں پی پی کی مقبولیت بڑھے جو ن لیگ کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنے طریقے سے حکومت چلانے کے اصول متعین کر رکھے ہیں جن پر عمل کرنا پی پی وزیروں کے لیے بہت ہی مشکل ہوگا۔پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کو زیادہ اہمیت کیوں دے گی ،ایسا کرنے سے اس کی سیاسی حیثیت اور ساکھ متاثر ہو گی۔
پی پی کو کابینہ میں شمولیت دونوں پارٹیوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھا سکتی ہے اس لیے پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہیں ہو پا رہا اور پی پی اپنے مطالبے پر جلد عمل چاہتی ہے۔ (ن) لیگ کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرح پیپلز پارٹی سے بھی خطرہ ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ ایک خاندان کی حکومت نظر آتی ہے اور ارکان اسمبلی کو بھی (ن) لیگی حکومت سے شکایات ہو سکتی ہیں مگر وہ پنجاب حکومت کی بھی مخالفت نہیں کر سکتی۔ دونوں پارٹیوں کا اتحاد جب بھی ختم ہوگا دونوں میں اختلافات بڑھیں گے جس کا ثبوت پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو پی ڈی ایم حکومت کے ختم ہوتے ہی (ن) لیگ کی مخالفت کرتے ہوئے دے چکے ہیں۔