’آفریدی نے کتے کا گوشت کھایا…‘ عرفان پٹھان کی پاکستانیوں کے خلاف نفرت انگیز گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
’آفریدی نے کتے کا گوشت کھایا…‘ عرفان پٹھان کی پاکستانیوں کے خلاف نفرت انگیز گفتگو WhatsAppFacebookTwitter 0 17 August, 2025 سب نیوز
بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر عرفان پٹھان ایک بار پھر پاکستان مخالف بیانات دے کر خبروں میں آگئے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں نہ صرف شاہد آفریدی کے ساتھ اپنی پرانی ”چپقلش“ کو ہوا دی بلکہ غیر شائستہ زبان استعمال کر کے کھیل کی روح کو بھی مجروح کیا۔
عرفان پٹھان کی شاہد آفریدی کے ساتھ کافی کڑوی مسابقت رہی ہے۔ محض کھیل ہی نہیں بلکہ میدان سے باہر بھی شاہد آفریدی کی حرکات و سکنات عرفان کو سخت ناگوار گزرتی تھیں۔
اسی طرح کا ایک قصہ سناتے ہوئے عرفان پٹھان نے شاہد آفریدی کے خلاف ایک بار پھر زہر اگلا۔
عرفان پٹھان نے دعویٰ کیا کہ 2006 کے دورہ پاکستان کے دوران کراچی سے لاہور کی پرواز میں شاہد آفریدی نے ان کے بال بگاڑے اور ان کے ساتھ مذاق کیا، جس پر وہ برہم ہوگئے۔
عرفان پٹھان نے ایک بھارتی پروگرام ”للّن ٹاپ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’2006 میں ہم کراچی سے لاہور جا رہے تھے۔ دونوں ٹیمیں ایک ہی پرواز میں سفر کر رہی تھیں۔ آفریدی آیا اور میرا سر تھپتھپایا اور بال بگاڑ دیے۔ اس نے مجھ سے کہا، ”کیسا ہے بچے؟“ میں نے سوچا کہ یہ کب سے میرا باپ بن گیا۔‘
عرفان نے کہا، ’میں نہ ان سے بات کر رہا تھا اور نہ ہی کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کے بعد آفریدی نے مجھے کچھ برے الفاظ کہے۔ اس کی سیٹ میرے قریب ہی تھی۔‘
عرفان پٹھان نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’اس وقت پاکستان کے آل راؤنڈر عبدالرزاق میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں کس قسم کا گوشت ملتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ مختلف جانوروں کا گوشت مل جاتا ہے۔ اس پر میں نے پوچھا کہ کیا کتے کا گوشت بھی ملتا ہے؟ یہ سن کر رزاق حیران ہوئے اور بولے، ”ارے عرفان یہ کیوں کہہ رہے ہو؟“ میں نے کہا کہ (آفریدی) نے کتے کا گوشت کھایا ہے، تبھی تو اتنی دیر سے بھونک رہا ہے‘۔
کرکٹ حلقوں کا کہنا ہے کہ عرفان پٹھان کی جانب سے برسوں پرانے واقعات کو توڑ مروڑ کر بیان کرنا دراصل پاکستان مخالف بیانیے کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔ ایک جانب وہ اپنی ہی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے کھلاڑیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
یاد رہے کہ عرفان پٹھان کا کیریئر بھارتی میڈیا جتنا اچھالتا رہا، حقیقت میں وہ مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ صرف چند میچوں کی جھلکیاں پیش کر کے پاکستان کے خلاف ”ہیرو“ بننے کی کوشش کرنے والے پٹھان جلد ہی ٹیم سے باہر ہو گئے اور بھارتی کرکٹ میں ان کی جگہ نئے کھلاڑیوں نے لے لی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کھیل کو نفرت اور تعصب کے بیانات سے جوڑنا عرفان پٹھان جیسے کھلاڑیوں کی ناکام حکمت عملی ہے جو اپنی پہچان کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستان کا سہارا لیتے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی کھلاڑیوں میں اتنا تعصب ہے کہ ورلڈ چیمپئینز لیگ میں صرف شاہد آفریدی کی شرکت پر میچز کھلینے سے انکار کردیا تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمون سون بارشوں نیا سپیل متوقع، اسلام آباد کی مارگلہ ہلز کی ٹریلز بند سینٹرل کنٹریکٹس 2025-26: پرفارمنس پر فیصلہ، کئی کرکٹرز فارغ، نئے ناموں کی انٹری متوقع آئی ایل ٹی20 ڈویلپمنٹ ٹورنامنٹ کا آغاز 24 اگست سے دبئی میں ہوگا شاہد آفریدی سمیت دیگر کھلاڑیوں کو اعلیٰ قومی اعزازات دینے کا فیصلہ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے کوچنگ سینٹر کیلئے پہلی خاتون ڈائریکٹر کا تقرر کردیا تیسرا ون ڈے، ویسٹ انڈیز نے بولرز کا بھرکس نکال دیا، پاکستان کو جیت کیلئے 295رنز کا ہدف مل گیا اسلام آباد: ایف نائن پارک کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر کیلئے منتخبCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کتے کا گوشت کے خلاف
پڑھیں:
عرفان صدیقی کی زندگی کا سب بڑا راز
عرفان صدیقی مسکراتے ہوئے روسٹرم پر آئے اور کہا:
' جو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، جان لیں کہ فاروق عادل مجھ سے سینئر ہے۔'
پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کا آڈیٹوریم اس وقت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اسٹیج پر وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کے علاوہ مخدومی عطا الحق قاسمی،مرشدی سید سعود ساحر، ڈاکٹر خلیل طوقار، ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور ڈاکٹر فاطمہ حسن سمیت صف اول کے ادیب اور شاعر موجود تھے۔ عرفان صدیقی صاحب نے جب یہ کہا تو محفل میں حیرت کا سناٹا چھا گیا۔ عرفان صاحب شاید چاہتے بھی یہی تھے۔ سامعین ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ عطا الحق قاسمی تو باقاعدہ گردن موڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عین اسی لمحے عرفان صاحب نے قاسمی کو مخاطب کیا اور کہا:
' قاسمی صاحب!آپ بھی گواہ رہئے گا، فاروق عادل ' تکبیر' میرا سینیئر رہا ہے۔'
قاسمی صاحب مسکرانے لگے اور محفل زعفران زار بن گئی۔ یہ واقعہ 2017 ء کا ہے جب مخدومی انعام الحق جاوید نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ ان کی قیادت میں فاؤنڈیشن کا کتاب میلہ اس شان سے ہوا کرتا تھا کہ باید و شاید۔ شخصی خاکوں پر مشتمل میری پہلی کتاب ' جو صورت نظر آئی' ان ہی دنوں شائع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ازراہ محبت کتاب میلے میں دیگر کتابوں کے ساتھ اس کی تقریب اجرا بھی رکھ دی جس میں ہمارے ادب کی کہکشاں جمع تھی۔
یہ درست ہے کہ'تکبیر' میں عرفان صاحب کی آمد میرے بعد ہوئی لیکن ان کی مقفع و مسجع تحریر کا شہرہ اسی زمانے میں ہوا۔ وہ ہر ہفتے ایک انٹرویو کیا کرتے۔ انٹرویو ' تکبیر' کی پالیسی کے عین مطابق ہوتا۔ انٹرویو سے قبل وہ اس کا پیش لفظ یعنی انٹرو لکھا کرتے۔ یہی تحریر ان کی کالم نگاری کی ابتدائی صورت ہے۔
وہ انٹرویو کا ابتدائیہ ایسی پر تکلف نثر میں لکھتے کہ کلاسیکل نثر کا لطف تازہ ہو جاتا۔ سر سید علیہ رحمہ ہماری فکری اور تہذیبی روایت کے ہی مجدد نہیں بلکہ وہ ہماری موجودہ اردو نثر کے بھی بانی اور جد امجد ہیں جنھوں نے پر تکلف زبان کو سادہ اور سلیس زبان میں بدل دیا۔ ہماری صحافتی اور ادبی زبان سرسید کے راستے پر چلتے ہوئے جیسے جیسے ترقی کرتی گئی، لوگ کلاسیکی روایت کی نثر کو بھولتے چلے گئے۔ یہ عرفان صدیقی تھے جنھوں نے پہلے انٹرویو کا ابتدائیہ اس مہکتی ہوئی زبان میں لکھا پھر صحافتی کالم کو اس کی رعنائی سے روشناس کرایا۔
یہی عرفان صدیقی جن کی نثر کا شہرہ چار دانگ عالم میں بج رہا تھا، اس وقت ایک مبتدی کے بارے میں ایسے کلمات کہہ رہے تھے۔ انھوں نے ایک صحافتی ادارے میں اس کی سنیارٹی کا اعتراف ہی نہیں کیا، کچھ اور بھی کہا۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ میری تحریر کی تعریف کرتے ہیں لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ فاروق بہتر لکھتا ہے جب وہ کسی شخصیت کے بارے میں قلم اٹھاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ کسی واقعے کا بیان کرتا ہے تو آنکھوں کے سامنے اس کی فلم چلنے لگتی ہے۔
یہ تھے عرفان صدیقی جو اپنے جونئیر بلکہ اولاد کی عمر کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کھلے دل سے کرتے اور ان کی تعریف میں مبالغے کو جا چھوتے۔ اچھے اساتذہ کا یہی وصف ہوتا ہے۔ وہ شاگرد کی تربیت کے لیے جہاں سختی سے کام لیتے ہیں، وہیں کھلے دل سے تعریف کر کے اس کا حوصلہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مجھے براہ راست ان کی شاگردی کا اعزاز تو حاصل نہیں رہا لیکن ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا۔ یوں اگر میں انھیں استاد تسلیم کرلوں تو اسی میں میری عزت افزائی ہے۔عرفان صدیقی صاحب نے صحافت میں قدم رکھا تو بے مثال ترقی کی یہاں تک کہ دائیں بازو کے سرخیل صحافیوں میں شمار کیے گئے۔
سیاست میں آئے تو اس شعبے میں بھی ان کی ترقی کی رفتار بے مثال تھی۔ اس وجہ سے ان کے حاسدوں کی تعداد میں بھی ان کی کام یابیوں اور فتوحات کی رفتار سے اضافہ ہوا۔ حسد اور رشک کی کیفیات میں بہت سی ضروری باتیں پردہ کر جاتی ہیں اور کچھ مصنوعی تصورات پختہ ہو جاتے ہیں۔ عرفان صدیقی کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ صحافت میں میرے رشتے اور دوستیاں ان کے مخالفین سے زیادہ تھیں۔ اس وجہ سے دفتری سیاست میں بھی میرا شمار ان کے مخالف دھڑے میں کیا گیا لیکن اس کے باوجود میں نے یہ ضرور سوچا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مخالفت کے باوجود یہ شخص آگے ہی بڑھتا جاتا ہے؟
عرفان صدیقی اچھا لکھتے تھے اور بہت محنت کرتے تھے۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں لیکن میں ایک ایسی بات جانتا ہوں جس کا تعلق ہماری تہذیب کی اس روایت سے ہے جس سے تصوف کے پاکیزہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ شاید 1998 کی بات ہے، پروفیسر احسن اقبال ان دنوں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے جب انھوں نے وژن 2010 پر کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ملک بھر کے صحافیوں اور اہل فکر کو ایک اجتماع میں مدعو کیا۔
ممکن ہے، مخدومی مجیب الرحمن شامی کو یاد ہو کہ اس موقع پر ایک سینئر صحافی نے موقع و محل کا لحاظ رکھے بغیر عرفان صاحب کے لتے لینے شروع کیے۔ صورت حال کافی بگڑ گئی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو نوبت یقینا ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ۔ عین اس وقت جب وہ صاحب صدیقی صاحب کی شان میں ' رطب اللساں ' تھے، میری آنکھیں عرفان صدیقی صاحب سے چار ہوئیں۔ شاید میں اس وقت میں ان کے چہرے پر پریشانی، شرمندگی،غصے اور انتقام کی کیفیات دیکھنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس دم انھیں مسکراتے ہوئے پایا۔ اس واقعے کو چوتھائی صدی گزری ہے لیکن ان کا مسکراتا ہوا چہرہ آج بھی میرے سامنے ہے۔
عرفان صاحب اس وقت راؤنڈ ٹیبل کی آخری نشست پر بیٹھے تھے، ان کے ' کرم فرما' میز کے دائیں جانب بہتر جگہ پر تھے لیکن آنے والے چند برسوں میں منظر بدل گیا۔ کرم فرما تو اپنے منصب پر ہی فروکش رہے لیکن ان کا تختہ مشق آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے دیکھنے کے لیے سر اٹھا کر دیکھنا پڑا۔ عرفان صدیقی کو یہ عروج کیسے حاصل ہوا۔ اس سوال پر بہ قدر ظرف خیال آرائی کے لیے لوگ آزاد ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ برداشت کی وہ صلاحیت رہی ہو گی جو صرف مقربین کو ودیعت ہوتی ہے۔
ان کی بے مثال ترقی کا ایک راز اور بھی ہو سکتا ہے۔ میرے عزیز بھائی ارشد ملک محمد علی درانی صاحب سے ایک بات روایت کرتے ہیں۔ محمد علی درانی کہتے ہیں عرفان صدیقی صاحب کی سب سے بڑی خوبی جدت خیال تھی۔ ان کی یہی خوبی ہے جس نے انھیں کبھی Irrelevant نہیں ہونے دیا، وہ وقت کے دھارے سے ہمیشہ ایک قدم آگے اورحالات کی نبض پر ہمیشہ ان کا ہاتھ رہا یوں کسی مشکل صورت حال میں ان کے ہم عصر ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے لیکن عرفان صدیقی کی گدڑی میں اسی مشکل کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا۔ عرفان صاحب کی یہی خوبی تھی، میاں محمد نواز شریف جس کے گرویدہ ہوئے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ مشکل سے مشکل صورت حال میں ان کے اوسان کبھی خطا نہ ہوتے اور وہ ہمیشہ منفرد اور درست مشورہ دیتے۔
عرفان صاحب کی سیاسی بصیرت کی شناخت جنرل مشرف کے زمانے میں ہوئی۔ اس زمانے میں وہ ' نوائے وقت ' میں لکھا کرتے تھے۔ نہیں معلوم وہ تحریریں محفوظ ہیں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کی جمہوری جدوجہد نے ان کی تحریروں سے حوصلہ پایا۔ یہ ان کی صحافت اور فکری توانائی کا ایک منفرد عہد ہے۔ اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ ان کی مرنجان مرنج طبیعت اور وضع داری ان کی تحریر پر غالب آ جاتی ہے لیکن اس زمانے میں وہ ننگی تلوار تھے۔ اس عہد کی لفظیات میں بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کے کالموں نے اس زمانے میں آمریت کے خلاف جدوجہد کی بیانیہ سازی کی۔ اس زمانے کے بعد انھوں نے یہ کام بہت انداز دگر کیا۔ ' ووٹ کو عزت دو, اور , پاکستان کو نواز دو, جیسے شاندار نعرے یا بیانیے ان ہی کے ذہن رسا کی پیداوار تھے۔
اسی طرح بعض سیاسی جوڑ توڑ خاص طور پر 2013 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا تجربہ اور صحافت کے زمانے کے تعلقات نے اہم کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف عرفان صاحب ایسی ہی خوبیوں پر فریفتہ تھے۔
آخری عمرمیں عرفان صاحب اور ارشد ملک کا ساتھ بہت گہرا رہا ہے۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ کہولت کو پہنچ جانے کے باوجود ان میں جستجو کا جذبہ ہمیشہ توانا رہا۔ یہ بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے شاگردوں نے بہت ترقی کی اور وہ اپنے اپنے شعبے کی معراج پر پہنچے لیکن اس کے باوجود عرفان صدیقی ان سب سے ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہی خوبی تھی جس نے انھیں وقت سے ہمیشہ آگے رکھا یوں وہ اپنے ہم عصروں سے کہیں آگے نکل گئے۔ اتنا آگے کہ آج انھیں یاد کرتے ہوئے ہماری آنکھیں نم ہوئی جاتی ہیں۔