پریشر میں کھیلنے والا کھلاڑی ہی بڑا اسٹار بنتا ہے: عرفان خان نیازی
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
پاکستان شاہینز کے کپتان محمد عرفان خان نیازی نے کہا ہے کہ پریشر میں کھیلنا آنا چاہیے، پریشر میں کھیلنے والا کھلاڑی ہی بڑا اسٹار بنتا ہے اور بہترین اننگز کھیلتا ہے۔
جیو نیوز کے مارننگ شو ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان اے ٹیم کے کپتان محمد عرفان خان نے ایمرجنگ ایشیا کپ ٹورنامنٹ میں بھارت کے خلاف پریشر میں کھیلنے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے بہت محنت کی اور جیتے، ٹیم کو سمجھایا ہوا تھا کہ پریشر کے بغیر کھیلنا ہے جیسے عام میچز کھیلے جاتے ہیں، بھارتی ٹیم کی ٹینشن نہیں لینی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پُراعتماد تھے، پلان بنایا ہوا تھا کہ ہدف کس طرح سے حاصل کرنا ہے، اس لیے 14 اوورز میں ہی میچ ختم کر دیا۔
محمد عرفان خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پلیئرز کو معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا سوچ رہا ہے کون ٹیم میں کیا رول پلے کر رہا ہے۔
اِن کا کہنا تھا کہ بھارتی ٹیم بھی بہترین ٹیم ہے، بھارتی ٹیم میں بھی کچھ کھلاڑی بہترین پرفارم کرنے والے ہیں۔
پاک بھارت ٹیموں کے درمیان ہاتھ نہ ملانے کے تنازع پر کپتان نے کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں، کوئی ہاتھ نہیں ملانا چاہتا تو نہ ملائے، یہ بات اتنی اہمیت نہیں رکھتی، بھارتی ٹیم سے پہلے بہت اچھے تعلقات تھے اب تعلقات ویسے نہیں رہے۔
ڈریسنگ روم کے ماحول پر بات کرتے ہوئے محمد عرفان خان کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈریسنگ روم کا ماحول بہت بہترین ہے، سب کھلاڑیوں کی آپس میں بہت اچھی دوستی ہے۔
دوسری جانب جیو پاکستان سے گفتگو کے دوران پاکستان شاہینز کے آل راؤنڈر معاذ صداقت نے کہا کہ میں بہت زیادہ خوش ہوں، بھارت کے خلاف میچ جتنے کا بہت بہترین احساس ہوتا ہے۔
معاذ صداقت کا کہنا تھا کہ تیاری ہر میچ کے لیے کی جاتی ہے مگر بھارت کے خلاف محنت سے کھیلا، میں نے اپنی پرفارمنس کے لیے سخت تیاری کی اور اس کا پھل ملا۔
ایک سوال کے جواب میں معاذ صداقت نے بتایا کہ اُن کے پسندیدہ کھلاڑی بابر اعظم ہیں۔
معاذ صداقت کو میچ میں آل راؤنڈر پرفارمنس پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
واضح رہے کہ ایشیاء کپ رائزنگ اسٹارز ٹی20 کے گروپ میں پاکستان شاہینز نے بھارت اے کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کھیلے گئے میچ میں بھارت کی طرف سے دیا گیا 137 رنز کا ہدف پاکستان نے 14ویں اوور میں 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔
پاکستانی اوپنر معاذ صداقت نے شاندار بیٹنگ کی، 4 چھکوں اور 7 چوکوں کی مدد سے صرف 47 گیندوں پر 79 رنز بنائے۔
گروپ میچ میں بھارتی ٹیم پہلے کھیلتے ہوئے 136 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی اور پورے 20 اوورز بھی نہ کھیل سکی۔
پاکستان کی طرف سے شاہد عزیز نے 3، سعد مسعود اور معاذ صداقت نے 2، 2 وکٹیں لیں۔
معاذ صداقت کو میچ میں آل راؤنڈ پرفارمنس پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا، معاذ صداقت نے دو وکٹیں حاصل کیں اور 79 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: محمد عرفان خان کا کہنا تھا کہ بھارتی ٹیم میچ میں
پڑھیں:
قحط الرجال بڑھ رہا ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-03-3
میاں منیر احمد
روئے زمین پر اللہ نے جو سب سے قیمتی چیز بنائی ہے وہ انسان ہے‘ اور قرآن مجید فرقان حمید بھی انسان سے ہی مخاطب ہے‘ سورہ فلق اور سورہ الناس‘ دونوں میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا کہ انسانوں کو کس چیز سے پناہ مانگنی چاہیے‘ در اصل ان دونوں سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک معاشرے میں رہنے کے لیے معاشرتی آداب سکھائے ہیں کہ کیسے مل جل کر رہنا ہے لیکن ہم بطور انسان ایک دوسرے کو کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں۔ یہ بم دھماکے‘ یہ خود کش حملے‘ مار دھاڑ‘ قتل و غارت گری‘ یہ سب کیا ہے؟ یہ حالات شاید اس وجہ سے بھی ہیں کہ اہل علم نے بھی اپنا راستہ بدل لیا ہے اور وہ مصلحت کا شکار ہوگئے ہیں۔ بادشاہوں کے درباروں تک ان کی رسائی نے انہیں الجھا کر رکھ کردیا ہے۔ بادشاہوں کے درباروں میں تو سوائے خوشامد کے کچھ اور ہے نہیں‘ لہٰذا جو بھی اہل علم شخصیت ان درباروں تک پہنچی وہ بھی نمک کے ساتھ مل کر نمک ہی ہوگئی۔ محرم عرفان صدیقی بھی اہل دانش کے حلقے سے تھے‘ مگر جب اقتدار کے دربار تک پہنچے تو پھر ان پر بھی ’’سیاست‘‘ غالب آگئی اگر وہ سیاست اور اقتدار کی راہوں کا انتخاب نہ کرتے تو بہت بڑے انسان گنے جاتے۔ اب وہ اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں‘ ان کی انسانی خوبیاں ہی وہاں ان کے کام آئیں گی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان پر اپنا کرم کرے۔
ذاتی طور پر بہت ہی اعلیٰ درجے کے انسان تھے‘ اقبال سے بھی بہت لگائو تھا‘ علمی درس گاہ سے ہوتے ہوئے وہ تکبیر تک پہنچے اور پھر وہاں سے ایوان صدر‘ اپنے آفس کی دیوار پر انہوں نے اقبال کی رباعی آویزں کر رکھی تھی اور پورا آفس قرینے سے سجائی ہوئی کتب سے مزین‘ ان کی علم دوستی کا مظہر تھا‘ ایوان صدر میں ایک دو چار بار ملاقات ہوئی‘ ہر ملاقات میں سعود ساحر‘ جسارت‘ اور ماضی کے قصے ہی ملاقات کا سارا وقت کھا جاتے تھے۔ صدر رفیق تارڑ بھی ایک کمال کی شخصیت تھے‘ دونوں میں سو فی صد باہمی احترام اور بے مثال اعتماد کا رشتہ تھا‘ جب پرویز مشرف نے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث ایوان صدر کا مکین بننے کا فیصلہ کیا تھا تو رفیق تاڑر ڈٹ گئے‘ ان کی پشت پر عرفان صدیقی کی حکمت تھی۔ پرویز مشرف اس قدر زچ ہوئے کہ صدر رفیق تارڑ کے بطور صدر تمام آئینی اختیارات سیز گویا منجمد کردیے‘ یوں عرفان صدیقی اور رفیق تارڑ دونوں ایوان صدر سے باہر آگئے۔ وقت آگے بڑھتا رہا، ملک میں عام انتخابات ہوگئے، مسلم لیگ (ن) سے مسلم لیگ (ق) بن گئی‘ پیپلزپارٹی کے بطن سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نے جنم لیا‘ عرفان صدیقی کالم نگاری کرتے رہے‘ یوں مزید پانچ سال گزر گئے۔ ان پانچ سال میں ملک پر کیا بیتی‘ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
لال مسجد کا آپریشن ہوا، بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں، نواز شریف جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئے، مگر انتخابت کے لیے نااہل قرار پائے، انتخابات ہوئے تو وفاق میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی، جس نے پرویز مشرف کو چلتا کیا اور آصف علی زرداری ایوان صدر میں پہنچ گئے۔ مزید پانچ سال گزرے تو نئے انتخابات ہوئے نواز شریف اب انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اہل قرار پائے، انتخابات کے بعد وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے اس دوران انہوں نے راحیل شریف اور ان کے بعد قمر باجوہ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ قمر باجوہ کے تقرر میں عرفان صدیقی کا بھی مشورہ شامل تھا۔ عرفان صدیقی چونکہ سیاست کے جھمیلوں سے واقف نہیں تھے‘ اس لیے ان کے سیاسی فیصلوں میں جھول نظر آتا ہے لیکن مشورہ انہوں نے ہمیشہ اخلاص کے ساتھ ہی دیا۔
مسلم لیگ نے جب وفاق میں حکومت بنائی تو ملک میں بہت سخت حالات تھے‘ طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے یا نہ کی جائے‘ ملکی سیاست دو حصوں میں تقسیم تھی تاہم نواز شریف نے بات چیت کرنے کی راہ اپنائی اور کمیٹی بنائی گئی جس میں عرفان صدیقی بھی شامل تھے‘ وہ لوگ جنہیں زعم تھا کہ وہ افغان امور کے ماہر ہیں‘ مگر کمیٹی میں شامل نہیں کیے انہوں نے پالتو کالم نگاروں کے ہاتھوں عرفان صدیقی کی شخصیت داغ دار کرنے کی کوشش کی‘ تاہم کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ تمام کالم نگار کالم نگاری کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے بس حالات نے انہیں کسی ’’جگہ‘‘ پہنچا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی نیکیاں قبول فرمائے اور کمزوریوں پر پکڑ نہ کرے‘ جس رباعی پر وہ انحصار کرتے تھے وہ اللہ کے فضل سے ضرور ان کے کام آئے گی۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
ترجمہ (اے ربّ ذوالجلال! تیری ذات اقدس دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں ایک فقیرِ خستہ جاں ہوں۔ حشر کے دن میری گزارشات کو پذیرائی بخشتے ہوئے میری معافی قبول فرما لینا اور اگر میرے نامہ اعمال کو دیکھنا لازم ہی ٹھیرے تو مجھ پر اتنا کرم کرناکہ سیدنا محمد مصطفیؐ کی نگاہ سے مجھے چھپائے رکھنا)