ایران و عراق کے مقدس مقامات کی زیارات، پرانا قافلہ سالار نظام عنقریب ختم کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
ایران اور عراق کے مقدس مقامات کی زیارات کے لیے پرانے قافلہ سالار نظام کو عنقریب ختم کیا جائے گا۔ اب زیارات صرف وزارت مذہبی امور کے مجاز زیارت گروپ آرگنائزرز (ZGO) کے تحت ممکن ہوں گی۔
ترجمان وزارت مذہبی امور کے مطابق، ایران و عراق کی زیارات کروانے کی خواہشمند کمپنیوں سے درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں اور وزارت مذہبی امور نے زیارات گروپ آرگنائزرز کی سکرُوٹنی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ایران اور عراق میں زیارات کے لیے نیا مربوط نظام لا رہے ہیں، وزیر مذہبی امور سردار یوسف
اس حوالے سے ترجمان نے بتایا کہ اب تک 585 کمپنیوں کی سیکیورٹی کلیئرنس مکمل کر لی گئی ہے جبکہ حالیہ توسیع کے دوران 95 نئی کمپنیوں نے کاغذات جمع کروا دیے ہیں۔
پرانے زیارات آرگنائزرز سے کاغذات کی وصولی کا عمل 31 اگست تک جاری رہے گا جبکہ نئی کمپنیاں 10 ستمبر تک درخواست دینے کی اہل ہیں۔
مزید پڑھیں: 40 ہزار پاکستانی زائرین لاپتا: عراق، ایران اور شام میں کہاں گئے؟ وزیر مذہبی امور کا انکشاف
وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ مطلوبہ کوائف مکمل کرنے والی کمپنیوں کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کا اجرا جلد متوقع ہے، جس کے بعد ہی زیارات کی منصوبہ بندی اور انتظامات قانونی اور مجاز طریقے سے ممکن ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران ، عراق زیارات قافلہ سالار نظام مقدس مقامات وزارت مذہبی امور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران عراق زیارات قافلہ سالار نظام مقدس مقامات
پڑھیں:
اہل یمن کی مثالی جدوجہد
اسلام ٹائمز: اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی یمن کی صلاحیت نے مغربی بحریہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل خرچ کریں۔ یمنیوں نے حقیقت میں روایتی دفاعی ماڈل کو بدل دیا ہے۔ یمن نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید فضائی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے دفاعی نظام (جیسے S-400) کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل یمن کی قربانیوں کی ایک داستان ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
یمن بحیرہ احمر کی سلامتی کی مساوات میں خود کو ایک موثر کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے خلاف برسر پیکار افواج کے کیے آپریشن کی لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ”انصار اللہ“ کی کلیدی صلاحیتیں، آپریشنل حکمت عملیاں اور ان کے تزویراتی اثرات حیران کن ہیں۔ یمن تین میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اپنے دفاعی ڈھانچے کو دوبارہ موثر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ یمن نے عملی طور پر دکھایا ہے کہ کس طرح کم سے کم وسائل کے ساتھ جدید ترین عسکری نظام کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔ اول یمن نے پرانے میزائلوں کو دوبارہ تیار کرکے اور موبائل سسٹم بنا کر ایک متحرک دفاعی نظام تشکیل دیا ہے۔ اس کی ایک اہم مثال فضاء سے ہوا میں مار کرنے والے روسی میزائلوں جیسے R-27 کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے نظام میں تبدیل کرنا ہے۔
یہ سسٹم عام طور پر ہلکی گاڑیوں پر نصب ہوتا ہے اور فائرنگ کے بعد اسے تیزی سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مظاہرہ 2024 میں سعودی F-15SA لڑاکا طیارے کے ساتھ ساتھ ایک امریکی MQ-9 ریپر ڈرون کو گرا کر کیا گیا۔ ان نظاموں کی وجہ سے دشمن کی طرف سے "آپریشنل سرپرائز" اور "ابتدائی حملے کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یمن نے ثابت کیا ہے کہ تکنیکی برتری کا مطلب یہ نہیں کہ زمین پر برتری ہو۔ ”جی پی ایس جیمرز“ اور ”سیٹلائٹ کمیونیکیشن انٹرسیپشن سسٹم“ سمیت مقامی یا تبدیل شدہ الیکٹرانک جنگی نظام کا استعمال کرتے ہوئے، یمن نے ”ترک کرائیل“ جیسے جدید ڈرون کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر اس سسٹم کے تحت نشانے پر لیا گیا دشمن کا ڈرون اپنے زمینی کنٹرول سٹیشن سے رابطہ کھونے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا۔
اس دفاعی نظام کے تحت یمن کو بہت کم قیمت پر دشمن کے ملٹی ملین ڈالر کے ہتھیاروں کو بے اثر کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی ہے۔ یمن ڈرون کو جارحانہ اور دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کے خودکش ڈرونز کا استعمال زمینی اور سمندری اہداف پر حملہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جب کہ صاعقہ جیسے انٹرسیپٹر ڈرون کو دشمن کے ڈرونز اور ہوائی جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس صلاحیت نے یمن کو خود پر مسلط کیے گئے خطرے کو دشمن کے علاقے تک بڑھانے اور ایک اسٹریٹجک ڈیٹرنٹ بنانے کی طاقت دی ہے۔ یہ تین دفاعی ستون: موبائل ڈیفنس سسٹم، الیکٹرانک وارفیئر، اور ڈرونز کا استعمال ایک مہلک دفاعی مثلث بناتے ہیں جو مخالفین کی فضائی برتری کے خلاف ایک کم لاگت کا حامل لیکن انتہائی موثر ردعمل ہے۔
یہ نیا دفاعی ڈھانچہ ایک ایسا نمونہ ہے جسے دیگر غیر ریاستی عناصر یا کم وسائل رکھنے والی ریاستیں اپنا سکتی ہیں۔ یمن کی دفاعی طاقت کے کئی مظاہر ہیں مثلاً وہ فاطر یا ثقیب جیسے مقامی فضائی دفاعی نظام کا استعمال کرتے ہوئے، جس کی پیداوار یا تنصیب پر تقریباً 100,000 ڈالر لاگت آتی ہے، سعودی F-15SA لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے، ان طیاروں میں سے ہر ایک کی مالیت تقریباً 100 ملین ڈالر ہے، یمن نے امریکی MQ-9 ریپر جیسے جاسوسی کرنے والے ڈرون، جس کی لاگت تقریباً 32 ملین ڈالر ہے، کو سستے طیارہ شکن میزائلوں یا یمنی الیکٹرانک وارفیئر سسٹم کے ذریعے مار گرایا ہے، اس کی آپریشنل لاگت تقریباً 50,000 ڈالر ہے۔
یہ کامیابی کم قیمت پر دشمن کے مہنگے جارحانہ انٹیلی جنس اثاثوں کو ختم کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یمن کی کارکردگی کی سب سے ڈرامائی مثال ڈرونز یا اینٹی شپ کروز میزائلوں کے ذریعے 1.8 بلین ڈالر کی لاگت کے”ارلی برک کلاس ڈسٹرائرز“ کو نشانہ بنانا ہے، اس قسم ڈرونز اور میزائیلوں کی تیاری میں 50,000 ڈالر سے بھی کم لاگت آسکتی ہے۔ لاگت کے اس عدم توازن نے یمن کے دشمنوں کے لیے ایک سٹریٹجک بحران پیدا کر دیا ہے۔ یہ اس "غیر متناسب جنگ“ میں ایسا ”ڈیٹرنس‘‘ ہے جسے یمن نے کامیابی سے نافذ کیا ہے۔ اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی یمن کی صلاحیت نے مغربی بحریہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل خرچ کریں۔
یمنیوں نے حقیقت میں روایتی دفاعی ماڈل کو بدل دیا ہے۔ یمن نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید فضائی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے دفاعی نظام (جیسے S-400) کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل یمن کی قربانیوں کی ایک داستان ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 66000 ہزار ہے جب کہ آل سعود کی سربراہی میں یمنی حریت پسندوں پر مسلط کردہ جنگ میں جان کی بازی ہارنے والے یمنی مسلمانوں کی تعداد تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہے۔ یہ تعداد اہل یمن کی مظلومیت کے گراف کو فلسطینیوں کی مظلومیت کے پیمانے سے کم ظاہر نہیں کرتی۔