توہین مذہب کے مقدمے میں پونے دو سال سے قید ملزم عاصم اللّٰہ کی ضمانت منظور
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین مذہب کے مقدمے میں پونے دو سال سے قید ملزم عاصم اللّٰہ کی ضمانت منظور کرلی۔
جسٹس بابر ستار نے ملزم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی کے احکامات جاری کردیے، ملزم عاصم اللّٰہ کی جانب سے وکیل آصف علی تمبولی عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ 30 اکتوبر 2023 سے ہمارا بندہ گرفتار ہے، ابھی تک انویسٹیگیشن مکمل نہیں ہو رہی۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ دو سال سے بندہ قید ہے ابھی تک انویسٹیگیشن مکمل کیوں نہیں ہوئی؟ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ عاصم اللّٰہ ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈ تھا جہاں سے ایسا مواد آتا ہے، ہم نے سِم کو ٹریس کر کہ 2023 میں عاصم اللّٰہ کو گرفتار کیا۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ استعمال کردہ سِم کس کے نام پر ہے؟ ایف آئی اے نے کہا کہ سم کس کے نام پر ہے ہم پتہ نہیں چلا سکے۔
عدالت نے ضمانت منظور کر کہ ملزم عاصم اللّٰہ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملزم عاصم الل
پڑھیں:
ایمان مزاری ایڈووکیٹ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے درخواست پر فیصلہ محفوظ
ٹرائل کورٹس کے ججز سے منسوب بیان پر ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پہلے دیکھیں گے درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں، ججز کو بتانا چاہیے کہ ان کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے، کوئی اور آکر بتائے گا کہ ججز کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے تو تاثر کچھ اور جائے گا۔
درخواست گزار شہری حافظ احتشام ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ فریق نے ججز کے حوالے سے ایک تاثر دیا ہے کہ ججز میں تقسیم ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کونسے ججز کی بات کر رہے ہیں؟ درخواست گزار نے جواب دیا کہ سر ان 5 ججز میں آپ بھی شامل ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست گزار احتشام احمد پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ یہیں پر رک جائیں، آگے ایک لفظ بھی نہ بولیے گا، کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، اس عدالت میں کوئی تقسیم نہیں ہے، صرف اپنے کیس کی حد تک رہیں ہم اس عدالت میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔
درخواست گزار نے ایمان مزاری کی پریس کلب کے باہر کی گئی تقریر پڑھی، جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں اس میں توہین عدالت کیسے لگتی ہے؟ آپ اخبار پڑھتے ہیں،وی لاگ سنتے ہیں سب کو آزادی اظہارِ رائے ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے ججز کیخلاف تائثر دیا گیا ہے کہ ان پر پریشر ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کہیں پر کوئی شکایت کی؟ درخواست گزار نے جواب دیا کہ راولپنڈی کے ٹرائل کورٹ کے بارے میں ایمان مزاری نے بات کی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ وہ کمزور ججز کی نشان دہی کر رہی ہیں اس میں کیا برا ہے، اچھے جج بھی ہوتے ہیں اور نالائق جج بھی ہوتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ یہ توہین عدالت کا کیس کیسے ہے، درخواست گزار نے جواب دیا کہ ضلعی عدلیہ کے ججز سے متعلق توہین آمیز گفتگو کی گئی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپکے کیس میں تو کوئی جج شکایت نہیں کر رہا، کسی جج نے کوئی شکایت کی ہے؟ ججز بار کونسلز میں جاکر تقریر کرتے ہیں، پہلے دیکھیں گے درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔
عدالت نے درخواست گزار کے دلائل سننے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔