چین کا میگا ڈیم بھارت کا کتنا پانی کاٹ دے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
بھارت کو خدشہ ہے کہ تبت میں چین کے مجوزہ میگا ڈیم کی تعمیر خشک موسم کے دوران ایک اہم دریا کے پانی کے بہاؤ کو 85 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی، چین نے دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر شروع کردی
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس کو دستیاب بھارتی حکومتی تجزیے اور 4 متعلقہ ذرائع کے مطابق اس صورتحال نے بھارت کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنا ڈیم بنانے کے منصوبے کو تیز کرے۔
بھارت کی حکومت 2000 کی دہائی کے اوائل سے ایسے منصوبوں پر غور کر رہی ہے تاکہ تبت کے آنگسی گلیشیئر سے نکلنے والے پانی کے بہاؤ پر قابو پایا جا سکے جس پر چین، بھارت اور بنگلہ دیش میں 100 ملین سے زائد افراد انحصار کرتے ہیں۔ تاہم اروناچل پردیش کی سرحدی ریاست میں مقامی باشندوں کی سخت اور بعض اوقات پرتشدد مزاحمت کے باعث یہ منصوبے رکے رہے جو سمجھتے ہیں کہ ڈیم سے ان کے گاؤں ڈوب جائیں گے اور ان کا طرز زندگی تباہ ہو جائے گا۔
پھر دسمبر میں چین نے اعلان کیا کہ وہ یارلنگ زانگبو دریا کے بھارتی حدود میں داخل ہونے سے قبل، سرحدی کاؤنٹی میں دنیا کا سب سے بڑا پن بجلی ڈیم تعمیر کرے گا۔ اس اعلان نے بھارت میں خدشات کو جنم دیا کہ چین جو اروناچل پردیش کے کچھ حصوں پر دعویٰ بھی رکھتا ہے دریا کے پانی کو ایک اسٹریٹیجک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ یہی دریا بھارت میں سیانگ اور برہمپترا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بھارت کا جواب: اپر سیانگ ڈیممئی میں بھارت کی سب سے بڑی پن بجلی کمپنی نے پولیس کی سیکیورٹی میں اپر سیانگ ملٹی پرپز اسٹوریج ڈیم کی ممکنہ جگہ پر سروے کے لیے سامان منتقل کیا۔ اگر مکمل ہو گیا تو یہ ملک کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا۔ رائٹرز ذرائع کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کے دفتر کی جانب سے جولائی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس منصوبے کی رفتار تیز کرنے پر بات چیت کی گئی۔
مزید پڑھیے: چین نے دریائے برہما پتر پر میگا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی، بھارت پریشانی کا شکار
بھارتی حکومت کے ایک تجزیے کے مطابق چین کے ڈیم کی تعمیر سے سالانہ 40 ارب کیوبک میٹر پانی چین اپنی طرف موڑ سکے گا جو سرحدی پوائنٹ پر موصول ہونے والے کل پانی کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ خشک موسم میں یہ اثر شدید ہوگا جب درجہ حرارت بڑھتا ہے اور زمین بنجر ہو جاتی ہے۔
بھارت کا اپر سیانگ منصوبہ 14 بی سی ایم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے خشک موسم میں پانی چھوڑا جا سکے گا۔ اگر یہ ڈیم نہ بنا تو بھارتی شہر گوہاٹی کو پانی کی فراہمی میں 25 فیصد کمی کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ ڈیم کی موجودگی میں یہ کمی 11 فیصد تک محدود رہے گی۔
چینی ڈیم سے بھارت کو ممکنہ خطرات
بھارتی ڈیم چین کی جانب سے اچانک بڑی مقدار میں پانی چھوڑنے کی صورت میں حفاظتی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر بھارتی ڈیم 50 فیصد سے کم پانی کے ذخیرے پر ہو تو وہ چینی ڈھانچے سے پانی کے کسی بھی اچانک اخراج کو جذب کر سکے گا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ ان کے پن بجلی منصوبے محفوظ اور ماحولیاتی تحقیق کے بعد بنائے جا رہے ہیں اور یہ نیچے کے ممالک کے ماحولیاتی یا آبی نظام پر منفی اثر نہیں ڈالیں گے۔
مقامی مخالفت اور انسانی قیمتمئی میں جب این ایچ پی سی کے کارکنان نے پارونگ گاؤں کے قریب سروے کا آغاز کیا تو مشتعل مقامی باشندوں نے مشینری کو نقصان پہنچایا، پل کو توڑ دیا اور پولیس کے کیمپ لوٹ لیے۔ یہ علاقے کی مقامی برادری کے لوگ تھے جن کی روزی روٹی دھان، مالٹے اور مصالحہ جات کی کاشت سے جڑی ہے۔
ڈیم کے آبی ذخیرے سے کم از کم 16 گاؤں متاثر ہوں گے جن میں براہ راست 10 ہزار افراد متاثر ہوں گے۔ مقامی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: روسی تیل خریدا تو بھارت، چین، برازیل کی معیشت تباہ کر دیں گے، امریکا کی وارننگ
ایک مقامی دکاندار اور ماں اودونی پالو پابن نے کہا کہ ہم یہاں کی زمین سے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہم مرنے تک اس ڈیم کی مخالفت کریں گے۔
مشاہدات بتاتے ہیں کہ بھارت میں بڑے ڈیم منصوبوں کو ماحولیاتی تحریکوں کی وجہ سے برسوں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر اپر سیانگ ڈیم کی منظوری مل بھی گئی تو اس کی تعمیر میں ایک دہائی لگ سکتی ہے جبکہ چین کا منصوبہ 2030 کی دہائی کے اوائل تک مکمل ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت کا پانی بھارت کو تشویش تبت پر چین کا ڈیم چینی ڈیم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت کا پانی بھارت کو تشویش تبت پر چین کا ڈیم چینی ڈیم ڈیم کی تعمیر اپر سیانگ کے مطابق بھارت کا بھارت کو پانی کے سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پارک ویو سٹی کے حفاظتی بند کی تعمیر کا افتتاح کر دیا
لاہور:پارک ویو سٹی نے اپنے حفاظتی بند کی تعمیر کا باضابطہ آغاز ایک شاندار سنگِ بنیاد تقریب کے ذریعے کر دیا، جو مستقبل میں ممکنہ سیلابی خطرات کے مقابلے کے لیے رہائشیوں کی طویل مدتی حفاظت اور بحالی کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے۔
اس موقع پر چیئرمین وژن گروپ عبدالعلیم خان، سی ای او پارک ویو سٹی جنید امین اور ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ نعیم وڑائچ نے خصوصی شرکت کرتے ہوئے منصوبے کا افتتاح کیا۔ ریئلٹرز، رہائشیوں اور کمیونٹی نمائندگان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، جس سے اس انقلابی منصوبے پر بھرپور اعتماد اور حمایت کا اظہار ہوا۔
تقریب کے دوران چیئرمین عبدالعلیم خان نے دریائے راوی کے حالیہ سیلاب سے متاثرہ رہائشیوں کے لیے ایک ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہر متاثرہ رہائشی کو معاوضہ براہِ راست ان کے دروازے پر پہنچایا جائے گا۔ اس کے علاوہ متاثرہ پانچ بلاکس میں ترقیاتی چارجز کی دو ماہ کی معافی بھی دی گئی تاکہ فوری مالی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
یہ حفاظتی بند 30 فٹ بلند ہوگا جو سوسائٹی کے تمام بلاکس کو کور کرے گا۔ اپنے بنیادی حفاظتی کردار کے ساتھ ساتھ اسے خوبصورت بنا کر واک اور جاگنگ ٹریک میں بھی ڈھالا جائے گا، جو صرف پارک ویو سٹی کے ممبران کے لیے ہوگا، یوں یہ منصوبہ حفاظت اور معیاری طرزِ زندگی دونوں کو یکجا کرے گا۔
چیئرمین عبدالعلیم خان نے پارک ویو سٹی کی انتظامیہ کی انتھک کاوشوں کو سراہا جنہوں نے مشکل وقت میں رہائشیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں سہارا دیا اور سوسائٹی کو بحالی و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔
یہ منصوبہ حالیہ سیلابی چیلنجز کے تناظر میں شروع کیا گیا ہے، جو پارک ویو سٹی کے اس عزم کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اپنے رہائشیوں کو محفوظ، جدید اور پائیدار رہائشی سہولیات فراہم کرے گا۔ منصوبہ 100 دن کے اندر مکمل کیا جائے گا تاکہ بروقت ریلیف اور طویل مدتی تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین عبدالعلیم خان نے کہا کہ یہ حفاظتی بند محض ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ پارک ویو سٹی کے وژن کی عکاسی کرتا ہے، جو جدت اور ذمہ داری کو یکجا کرتا ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ اپنے رہائشیوں کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک ترقی یافتہ اور خوشحال کمیونٹی تشکیل دیں گے۔
سنگِ بنیاد کی یہ تقریب دراصل ایک نئے دور کا آغاز ہے، جسے پارک ویو سٹی نے “تحفظ، جدت اور ترقی کے نئے باب” سے تعبیر کیا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف جدید سہولیات کی فراہمی بلکہ مضبوط اور مستحکم انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے لاہور کی دیگر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے تاکہ وہ ماحولیاتی تحفظ، رہائشی بہبود اور فعال شہری منصوبہ بندی کو ترجیح دیں۔