Express News:
2025-11-03@05:08:24 GMT

معاشی ترقی خواتین کی مالی خواندگی

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

دنیا کی معیشت تیزی سے بدل رہی ہے اور اس بدلتی ہوئی دنیا میں وہ معاشرے ہی کام یاب ہو رہے ہیں، جو اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں۔

کسی بھی ملک کے لیے معاشی ترقی کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک آبادی کے نصف حصے یعنی خواتین کو نظر انداز کیا جاتا رہے۔ خواتین کی معاشی شمولیت اور مالی خواندگی نہ صرف ان کی ذاتی ترقی کا ذریعہ ہے، بلکہ پورے معاشرے اور ریاست کی خوش حالی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو اکثر معاشی سرگرمیوں سے یا تو دور رکھا جاتا ہے یا پھر ان کے لیے مواقع محدود کر دیے گئے ہیں۔ نتیجتاً قومی پیداوار میں وہ کردار ادا نہیں ہو پاتا جو ممکن ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب خواتین کو مالی خواندگی اور کاروباری مواقعے تک رسائی دی جاتی ہے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہیں بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے بھی ترقی اور خوش حالی کے دروازے کھول دیتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ تاہم مختلف معاشرتی، ثقافتی اور معاشی رکاوٹوں کے باعث خواتین کی بڑی تعداد غیر فعال یا غیر رسمی شعبوں تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی کے خواب کی تکمیل ممکن نہیں ہو پاتی۔

پاکستان میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد تعلیم، مالی مواقع اور روزگار کے وسائل تک رسائی سے محروم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت میں خواتین کی شرکت وہ نہیں، جو ہونی چاہیے۔ اگر خواتین کو مالی خواندگی، کاروباری تربیت اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں، تو پاکستان کی معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے۔

مالی خواندگی کا مطلب صرف پیسے کی گنتی یا جمع خرچ کا حساب نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ فرد اپنی آمدنی، بچت، سرمایہ کاری اور اخراجات کو بہتر انداز میں منظم کر سکے۔ ایک مالی طور پر خواندہ فرد یہ جانتا ہے کہ کس طرح محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

خواتین کے لیے مالی خواندگی کی اہمیت دُگنی ہے۔ کیوں کہ ایک طرف وہ اپنے گھر کے اخراجات کو بہتر انداز میں سنبھال سکتی ہیں اور دوسری طرف چھوٹے پیمانے پر کاروبار (Entrepreneurship) کے ذریعے آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کر سکتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ذات، اپنے خاندان اور آخرکار معاشرے کے لیے مثبت تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔

پاکستان اس وقت پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ان اہداف میں غربت کا خاتمہ، معیار تعلیم، صنفی مساوات، اور معاشی ترقی جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ان تمام اہداف کی تکمیل خواتین کی معاشی شمولیت اور مالی خواندگی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ برسوں میں مالی شمولیت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ جس میں مختلف اسکیموں، مائیکرو فنانس پروگرام اور ڈیجیٹل بینکنگ کے ذریعے خواتین کو سہولت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن عملی طور پر خواتین کی بڑی تعداد ان سہولتوں سے لاعلم ہے یا پھر انھیں استعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یہی وہ خلا ہے، جسے مالی خواندگی کے پروگرام سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

خواتین کو مالی خواندگی اور معاشی شمولیت کے راستے میں کئی چیلنج درپیش ہیں۔ جس میں تعلیم کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اس سے مالی خواندگی کے حصول میں رکاوٹ آتی ہے۔

اس کے علاوہ سماجی و ثقافتی اقدار بھی خواتین کے لیے مالی خواندگی اور معاشی شمولیت  میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے کہ بہت سے خاندان خواتین کو کاروبار یا مالی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونے دیتے۔ اس ہی طرح بہت سی خواتین کو سرمایہ کاری تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس ہی محدود رسائی کے باعث خواتین کو بینکوں یا مالی اداروں سے قرض لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ خواتین کی مالی اداروں میں عدم نمائندگی بھی معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ زیادہ تر مالی ادارے خواتین کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے لیے موزوں سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس ہی طرح ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک رسائی نہ ہونا اور ٹیکنالوجی سے دور بھی ایک اہم رکاوٹ ہے۔ جدید مالی سہولتیں اکثر ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن خواتین میں ڈیجیٹل خواندگی کی کمی ہے۔

جب خواتین مالی طور پر باشعور اور بااختیار ہو جاتی ہیں، تو اس کے کئی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کو مالی طور پر باشعور اور باختیار کر کے معاشرے میں غربت کے خاتمے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ خواتین جب کاروبار یا روزگار سے جڑتی ہیں تو آمدنی بڑھتی ہے اور غربت کم ہوتی ہے۔ مالی خومختاری اور شعور کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر مستحکم خواتین اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ باختیار خواتین اپنی آمدنی کو صحت پر خرچ کرتی ہیں، جس سے خاندان کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ خواتین کو مالی طور پر بااختیار کرنے سے صنفی مساوات کو نہ صرف فروغ حاصل ہوگا بلکہ یہ مالی شمولیت خواتین کو معاشرے میں عزت و وقار دیتی ہے۔ جب خواتین معیشت کا حصہ بنتی ہیں تو قومی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک نے خواتین کی مالی خواندگی اور کاروباری صلاحیتوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔ بنگلا دیش میں مائیکرو فنانس پروگرام نے لاکھوں خواتین کو غربت سے نکالا۔ اسی طرح کئی یورپی اور افریقی ممالک نے خواتین کو مالی اعتبار سے مضبوط بنا کر اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔ پاکستان بھی اگر خواتین کے لیے اس طرح کے اقدامات کرے تو نہ صرف خواتین بااختیار ہوں گی بلکہ ملک کی معاشی صورت حال بھی بہتر ہوگی۔

پاکستان میں خواتین کی مالی خواندگی بڑھانے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں، ان میں خواتین کے لیے مالی خواندگی کے کورس سرِفہرست ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں مالی خواندگی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اس ہی طرح خواتین کے لیے خصوصی بینکنگ کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ خواتین کے لیے الگ بینکنگ ڈیسک اور آسان قرض اسکیمیں متعارف کروائی جائیں۔ ساتھ ہی خواتین کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام کا آغاز کیا جائے، جس کے ذریعے خواتین کو ’آن لائن بینکنگ‘ اور ’ڈیجیٹل فنانس‘ کی تربیت دی جائے۔ حکومت، بینک اور نجی اداروں کو چاہیے کہ یہ مل کر خواتین کے لیے مالی تربیت کے منصوبے شروع کریں اور ذرائع اِبلاغ کے ذریعے خواتین کو مالی خواندگی اور اس کے فوائد سے روشناس کرایا جائے۔

خواتین کی مالی خواندگی پاکستان کی معاشی ترقی کا لازمی جزو ہے۔ جب خواتین مالی اعتبار سے باشعور اور بااختیار ہوں گی تو وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ترقی اور خوش حالی کا ذریعہ بنیں گی۔ ڈاکٹر سبیکہ رضوی کی تحقیق اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ’پائیدار ترقی کے اہداف مالی خواندگی اور شمولیت پر منحصر ہیں اور آبادی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے، لہٰذا انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

پاکستان کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ خواتین کی مالی خواندگی کو اپنی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ بنائے، تاکہ معاشی ترقی کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مالی خواندگی اور مالی خواندگی کے معاشی شمولیت مالی طور پر میں خواتین جب خواتین اور معاشی کی معاشی کے ذریعے تک رسائی ترقی کا نہیں ہو کیا جا

پڑھیں:

ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان ہوم نیٹ پاکستان کے زیر اہتمام سندھ ہوم بیسڈ ورکرز کنونشن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹریننگ (NILAT) کراچی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر انٹرنیشنل ہوم بیسڈ ورکرز ڈے اور پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تحریک کے 25 سال مکمل ہونے کا جشن بھی منایا گیا۔
تقریب میں مختلف سرکاری محکموں، ورکرز تنظیموں، این جی اوز، لیبر ماہرین صحت کے ماہرین اور خواتین ہوم بیسڈ ورکرز نے شرکت کی۔ تمام شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل کے حل، منصفانہ اجرت اور محفوظ کام کی جگہوں اور حالات کو یقینی بنایا جائے۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان میں لاکھوں خواتین گھریلو سطح پر مختلف صنعتوں جیسے گارمنٹس دستکاری اور ملبوسات میں کام کر رہی ہیں، لیکن وہ آج بھی سماجی تحفظ مساوی اجرت کے تعین اور قانونی حیثیت سے محروم ہیں۔
ہوم نیٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، اُم لیلیٰ اظہر نے گلوبل سپلائی چین میں شفافیت، ذمہ داری اور ورکرز کے حقوق کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برانڈز اور مقامی اداروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام ورکرز محفوظ اور باعزت ماحول میں کام کریں۔
سرکاری نمائندوں نے حکومت کے جاری اقدامات پر روشنی ڈالی جن کا مقصد خواتین کو محفوظ اور با اختیار بنانا، لیبر پالیسیوں میں صنفی حساسیت کو فروغ دینا اور سماجی تحفظ کے نظام کو وسعت دینا شامل ہیں۔ ورکرز تنظیموں کے نمائندوں نے خواتین کی قیادت، فیصلہ سازی میں نمائندگی اور اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل کو ضروری قرار دیا۔
آغا خان اسپتال کے ڈاکٹرز نے ہوم بیسڈ ورکرز کی صحت و سلامتی کے مسائل جیسے کیمیکل کے استعمال اور طویل اوقات کار پر تشویش کا اظہار کیا اور باقاعدہ طبی معائنوں اور آگاہی مہمات کی سفارش کی۔
کنونشن کے دوران ہوم نیٹ پاکستان نے اپنی نئی مہم میرا گھر میری کارگاہ کا آغاز کیا، جو ورکرز کے حقوق کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنے کی کوشش ہے۔ اس مہم کے تحت ہوم بیسڈ ورکرز کو معیشت کے سبز شعبے کا حصہ تسلیم کرنے اور قدرتی آفات سے متاثرہ خواتین کی بحالی میں مدد فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہوم نیٹ پاکستان نے تمام شرکاء کے درمیان پودے تقسیم کیے۔
تقریب کے اختتام پر ہوم بیسڈ ورکرز کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا گیا، جس میں سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ کی توثیق، ورکرز کی رجسٹریشن منصفانہ مساوی 177-C اور 190-C کنونشنز ILO پر فوری عملدرآمد 2018 اجرت سماجی تحفظ اور محفوظ کام کے ماحول کو یقینی بنانے کے مطالبات شامل تھے۔
کنونشن کا اختتام اتحاد و یکجہتی اور خواتین ورکرز کو با اختیار ہونے کے عزم کے ساتھ کیا گیا۔

 

ویب ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس
  • چین نے پنجاب میں معاشی اور تکنیکی تعاون کے منصوبے کے لیے 20لاکھ ڈالر کی رقم جاری کردی
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ کا پاک امریکا معاشی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت آصف زرداری
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • مہنگائی میں کمی اور شرح سود میں تاریخی کمی سے معیشت میں بہتری، عالمی اعتماد بحال، شزا فاطمہ