معاشی ترقی خواتین کی مالی خواندگی
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
دنیا کی معیشت تیزی سے بدل رہی ہے اور اس بدلتی ہوئی دنیا میں وہ معاشرے ہی کام یاب ہو رہے ہیں، جو اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
کسی بھی ملک کے لیے معاشی ترقی کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک آبادی کے نصف حصے یعنی خواتین کو نظر انداز کیا جاتا رہے۔ خواتین کی معاشی شمولیت اور مالی خواندگی نہ صرف ان کی ذاتی ترقی کا ذریعہ ہے، بلکہ پورے معاشرے اور ریاست کی خوش حالی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو اکثر معاشی سرگرمیوں سے یا تو دور رکھا جاتا ہے یا پھر ان کے لیے مواقع محدود کر دیے گئے ہیں۔ نتیجتاً قومی پیداوار میں وہ کردار ادا نہیں ہو پاتا جو ممکن ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب خواتین کو مالی خواندگی اور کاروباری مواقعے تک رسائی دی جاتی ہے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہیں بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے بھی ترقی اور خوش حالی کے دروازے کھول دیتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ تاہم مختلف معاشرتی، ثقافتی اور معاشی رکاوٹوں کے باعث خواتین کی بڑی تعداد غیر فعال یا غیر رسمی شعبوں تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی کے خواب کی تکمیل ممکن نہیں ہو پاتی۔
پاکستان میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد تعلیم، مالی مواقع اور روزگار کے وسائل تک رسائی سے محروم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت میں خواتین کی شرکت وہ نہیں، جو ہونی چاہیے۔ اگر خواتین کو مالی خواندگی، کاروباری تربیت اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں، تو پاکستان کی معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے۔
مالی خواندگی کا مطلب صرف پیسے کی گنتی یا جمع خرچ کا حساب نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ فرد اپنی آمدنی، بچت، سرمایہ کاری اور اخراجات کو بہتر انداز میں منظم کر سکے۔ ایک مالی طور پر خواندہ فرد یہ جانتا ہے کہ کس طرح محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
خواتین کے لیے مالی خواندگی کی اہمیت دُگنی ہے۔ کیوں کہ ایک طرف وہ اپنے گھر کے اخراجات کو بہتر انداز میں سنبھال سکتی ہیں اور دوسری طرف چھوٹے پیمانے پر کاروبار (Entrepreneurship) کے ذریعے آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کر سکتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ذات، اپنے خاندان اور آخرکار معاشرے کے لیے مثبت تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔
پاکستان اس وقت پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ان اہداف میں غربت کا خاتمہ، معیار تعلیم، صنفی مساوات، اور معاشی ترقی جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ان تمام اہداف کی تکمیل خواتین کی معاشی شمولیت اور مالی خواندگی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ برسوں میں مالی شمولیت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ جس میں مختلف اسکیموں، مائیکرو فنانس پروگرام اور ڈیجیٹل بینکنگ کے ذریعے خواتین کو سہولت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن عملی طور پر خواتین کی بڑی تعداد ان سہولتوں سے لاعلم ہے یا پھر انھیں استعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یہی وہ خلا ہے، جسے مالی خواندگی کے پروگرام سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
خواتین کو مالی خواندگی اور معاشی شمولیت کے راستے میں کئی چیلنج درپیش ہیں۔ جس میں تعلیم کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اس سے مالی خواندگی کے حصول میں رکاوٹ آتی ہے۔
اس کے علاوہ سماجی و ثقافتی اقدار بھی خواتین کے لیے مالی خواندگی اور معاشی شمولیت میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے کہ بہت سے خاندان خواتین کو کاروبار یا مالی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونے دیتے۔ اس ہی طرح بہت سی خواتین کو سرمایہ کاری تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس ہی محدود رسائی کے باعث خواتین کو بینکوں یا مالی اداروں سے قرض لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ خواتین کی مالی اداروں میں عدم نمائندگی بھی معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ زیادہ تر مالی ادارے خواتین کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے لیے موزوں سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس ہی طرح ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک رسائی نہ ہونا اور ٹیکنالوجی سے دور بھی ایک اہم رکاوٹ ہے۔ جدید مالی سہولتیں اکثر ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن خواتین میں ڈیجیٹل خواندگی کی کمی ہے۔
جب خواتین مالی طور پر باشعور اور بااختیار ہو جاتی ہیں، تو اس کے کئی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کو مالی طور پر باشعور اور باختیار کر کے معاشرے میں غربت کے خاتمے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ خواتین جب کاروبار یا روزگار سے جڑتی ہیں تو آمدنی بڑھتی ہے اور غربت کم ہوتی ہے۔ مالی خومختاری اور شعور کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر مستحکم خواتین اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ باختیار خواتین اپنی آمدنی کو صحت پر خرچ کرتی ہیں، جس سے خاندان کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ خواتین کو مالی طور پر بااختیار کرنے سے صنفی مساوات کو نہ صرف فروغ حاصل ہوگا بلکہ یہ مالی شمولیت خواتین کو معاشرے میں عزت و وقار دیتی ہے۔ جب خواتین معیشت کا حصہ بنتی ہیں تو قومی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے خواتین کی مالی خواندگی اور کاروباری صلاحیتوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔ بنگلا دیش میں مائیکرو فنانس پروگرام نے لاکھوں خواتین کو غربت سے نکالا۔ اسی طرح کئی یورپی اور افریقی ممالک نے خواتین کو مالی اعتبار سے مضبوط بنا کر اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔ پاکستان بھی اگر خواتین کے لیے اس طرح کے اقدامات کرے تو نہ صرف خواتین بااختیار ہوں گی بلکہ ملک کی معاشی صورت حال بھی بہتر ہوگی۔
پاکستان میں خواتین کی مالی خواندگی بڑھانے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں، ان میں خواتین کے لیے مالی خواندگی کے کورس سرِفہرست ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں مالی خواندگی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اس ہی طرح خواتین کے لیے خصوصی بینکنگ کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ خواتین کے لیے الگ بینکنگ ڈیسک اور آسان قرض اسکیمیں متعارف کروائی جائیں۔ ساتھ ہی خواتین کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام کا آغاز کیا جائے، جس کے ذریعے خواتین کو ’آن لائن بینکنگ‘ اور ’ڈیجیٹل فنانس‘ کی تربیت دی جائے۔ حکومت، بینک اور نجی اداروں کو چاہیے کہ یہ مل کر خواتین کے لیے مالی تربیت کے منصوبے شروع کریں اور ذرائع اِبلاغ کے ذریعے خواتین کو مالی خواندگی اور اس کے فوائد سے روشناس کرایا جائے۔
خواتین کی مالی خواندگی پاکستان کی معاشی ترقی کا لازمی جزو ہے۔ جب خواتین مالی اعتبار سے باشعور اور بااختیار ہوں گی تو وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ترقی اور خوش حالی کا ذریعہ بنیں گی۔ ڈاکٹر سبیکہ رضوی کی تحقیق اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ’پائیدار ترقی کے اہداف مالی خواندگی اور شمولیت پر منحصر ہیں اور آبادی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے، لہٰذا انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
پاکستان کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ خواتین کی مالی خواندگی کو اپنی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ بنائے، تاکہ معاشی ترقی کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مالی خواندگی اور مالی خواندگی کے معاشی شمولیت مالی طور پر میں خواتین جب خواتین اور معاشی کی معاشی کے ذریعے تک رسائی ترقی کا نہیں ہو کیا جا
پڑھیں:
سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ ہے؟
پاکستان بھر میں سروائیکل کینسر کے خلاف پہلی قومی ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) ویکسین مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ مہم 15 سے 27 ستمبر تک پنجاب، سندھ، اسلام آباد اور آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) میں چلائی جائے گی، جس کا مقصد 9 سے 14 سال کی لڑکیوں کو اس موذی مرض سے بچانا ہے۔ اس مہم کے تحت قریباً 13 ملین لڑکیوں کو مفت ویکسین دی جائے گی، جو سروائیکل کینسر کے 90 فیصد کیسز کو روکنے میں مؤثر ہے۔
واضح رہے کہ سروائیکل کینسر پاکستانی خواتین کو ہونے والا تیسرا بڑا کینسر ہے جبکہ 15 سے 44 برس کی خواتین میں تیزی سے ہونے والا یہ سرطان دوسرے نمبر پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم 15 ستمبر سے شروع ہوگی
پاکستان میں جہاں ایک جانب ویکسین جیسے مثبت قدم کی شروعات کی گئ ہے، تو دوسری جانب سوشل میڈیا اور کچھ لوگوں کے درمیان یہ افواہ گردش کررہی ہے کہ ایچ پی وی ویکسین کا مقصد لڑکیوں کو مستقبل میں ماں بننے سے روکنا ہے۔
سروائیکل کینسر کیا ہے؟ اور یہ کن وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے؟
شفا انٹرنیشنل اسپتال کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹر نادیہ خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سروائیکل کینسر ایک ایسی بیماری ہے جو عورت کے رحم کے نچلے حصے، جسے سروکس کہتے ہیں، میں ہوتی ہے۔
’سروکس رحم کو اندام نہانی سے جوڑتا ہے۔ یہ کینسر پاکستان جیسے ممالک میں خواتین کی موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہر سال پاکستان میں لگ بھگ 5,008 خواتین کو یہ کینسر ہوتا ہے، اور ان میں سے 3 ہزار 197 سے زیادہ اس کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کینسر کی بنیادی وجہ ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) ہے، جو جنسی رابطے سے پھیلتا ہے۔ دیگر وجوہات میں سیگریٹ نوشی، کمزور مدافعتی نظام، کم عمری میں جنسی تعلقات یا مانع حمل گولیوں کا طویل استعمال شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین میں اووریز کا کینسر کیوں بڑھ رہا ہے؟
واضح رہے کہ کچھ مطالعات کے مطابق غیر معیاری یا پلاسٹک سے بنے سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی سروائیکل کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ ان میں موجود کیمیکلز یا ناقص مواد طویل عرصے تک جلد کے رابطے میں رہنے سے سروکس کے خلیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نادیہ کے مطابق ایچ پی وی ویکسین اور باقاعدہ اسکریننگ سے اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ ویکسین سروائیکل کینسر سے تحفظ دینے کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا زچگی یا تولیدی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ یہ ویکسین دنیا بھر میں لاکھوں لڑکیوں کو دی جا چکی ہے اور اسے مکمل طور پر محفوظ ثابت کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس مہم کے لیے 49 ہزار سے زیادہ ہیلتھ ورکرز کو تربیت دی گئی ہے، جو لڑکیوں کو ایک ڈوز ویکسین دیں گے۔ یہ ویکسین پاکستان کو دنیا کے 150ویں ملک کی حیثیت دے گی جو ایچ پی وی ویکسین متعارف کرا رہا ہے۔
مہم پبلک اسکولوں، ہیلتھ سینٹرز، کمیونٹی مراکز اور موبائل ٹیموں کے ذریعے چلائی جائے گی۔ والدین کو آگاہی دینے کے لیے وائس میسیجز اور کمیونٹی سیشنز کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ افواہوں اور غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سروائیکل کینسر سے بچاؤ ممکن: ماہرین کا HPV ویکسین کو قومی پروگرام میں شامل کرنے کا مطالبہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ سروائیکل کینسر پاکستان میں خواتین میں کینسر سے ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے، جو بریسٹ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ مہم عالمی ادارہ صحت کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا ہدف 2030 تک 90 فیصد لڑکیوں کی ویکسینیشن، 70 فیصد خواتین کی اسکریننگ اور 90 فیصد مریضوں کا علاج یقینی بنانا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افواہیں تولیدی صحت خواتین سروائیکل کینسر مفت ویکسین والدین وی نیوز ویکسین