آئی وی ایف کے شعبے میں ایک بڑی پیش رفت سے معلوم ہوا ہے کہ جینیاتی ٹیسٹ کی مدد سے 35 سال سے زائد عمر کی خواتین کو جلد حاملہ ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طریقے سے بار بار ناکام کوششوں اور اس کے جذباتی دباؤ میں بھی کمی ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی سائنسدانوں کا بڑا اقدام: بار بار اسقاطِ حمل کی وجوہات جانچنے والا نیا ٹیسٹ تیار

اسکائی نیوز کے مطابق تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جینیاتی اسکریننگ کے ذریعے ایمبریو کو رحم میں منتقل کرنے سے قبل اس کی کروموسومز کی درست تعداد چیک کی جا سکتی ہے جس سے ناکام امپلانٹیشن (ایمبریو کا رحم میں نہ جمنا) اور اسقاط حمل کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔

پری امپلانٹیشن جینیاتی ٹیسٹنگ فار اینیوپلوئڈی

یہ طریقہ پری امپلانٹیشن جینیاتی ٹیسٹنگ فار اینیوپلوئڈی (پی جی ٹی اے) کہلاتا ہے جو اس بات کی جانچ کرتا ہے کہ ایمبریو میں 46 کروموسومز کی درست تعداد موجود ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیے: طبی دنیا میں انقلاب، جاپان نے مصنوعی ’جامنی خون‘ تیار کر لیا جو ہر فرد کو لگایا جا سکتا ہے

اینیوپلوئڈی ایک ایسی جینیاتی کیفیت ہے جس میں خلیات میں کروموسومز یا تو کم ہوتے ہیں یا اضافی، جو اسقاط حمل، پیدائشی نقائص اور ڈاؤن سنڈروم جیسی حالتوں کا باعث بن سکتی ہے۔

تحقیق کے نتائج کیا کہتے ہیں؟

تحقیق میں 35 سے 42 سال کی 100 خواتین کو شامل کیا گیا جو لندن کے کنگز فرٹیلٹی سینٹر میں علاج کرا رہی تھیں۔ ان میں سے نصف خواتین کو پی گی ٹی اے ٹیسٹ دیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کو جینیاتی ٹیسٹنگ دی گئی وہ کم کوششوں میں ہی حاملہ ہو گئیں۔

3 ایمبریو ٹرانسفرز کے بعد  پی جی ٹی اے  گروپ میں زندہ بچوں کی پیدائش کی شرح 72 فیصد رہی جب کہ جنہیں ٹیسٹ نہیں دیا گیا ان میں یہ شرح صرف 52 فیصد تھی۔

ماہرین کی رائے

کنگز کالج لندن اور کنگز فرٹیلٹی سے وابستہ ڈاکٹر یوسف بیبیجان کا کہنا ہے کہ آج کل زیادہ خواتین 35 سال کے بعد فیملی پلاننگ شروع کر رہی ہیں لیکن اس عمر میں ان کے اووا (انڈو) کے معیار میں کمی آتی ہے جس سے جینیاتی نقص کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور نتیجتاً اسقاط حمل یا امپلانٹیشن کی ناکامی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

امید کی نئی راہیں

یہ تحقیق ان خواتین کے لیے امید کی نئی کرن ہے جو بڑھتی عمر کے ساتھ زرخیزی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ جینیاتی اسکریننگ سے نہ صرف کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ان کے جسمانی، ذہنی اور مالی دباؤ میں بھی واضح کمی ممکن ہے۔

آئی وی ایف کیا ہے؟

اِن وِٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) یعنی (خارج رحمی بارآوری) بانجھ پن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والا ایک جدید طبی طریقہ ہے۔ اس میں عورت کے اووا اور مرد کے نطفے (اسپرم)  کو جسم سے باہر لیبارٹری میں ایک خاص ماحول میں ملا کر فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔ جب ایمبریو (جَنِین) بن جاتا ہے تو اسے عورت کے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ حمل ٹھہر سکے۔

یہ طریقہ کب استعمال اس صورت میں استعمال کیا جاتا ہے جب عورت قدرتی طور پر حاملہ نہ ہو سکے۔

35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں اووا (انڈوں) کے معیار کی کمی کی صورت میں، مردانہ بانجھ پن کی صورت میں، بلاوجہ بانجھ پن یا بار بار اسقاط حمل یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔

آئی وی ایف کے اہم مراحل

دوائیں دے کر عورت کے جسم میں زیادہ بیضے پیدا کروائے جاتے ہیں، بیضے نکال کر لیبارٹری میں رکھے جاتے ہیں، مرد سے نطفے لے کر بیضوں کے ساتھ ملائے

جاتے ہیں۔ انڈے اور نطفے کو ملا کر ایمبریو بنایا جاتا ہے اور بہترین ایمبریو کو عورت کے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: قبل از وقت بچے کی پیدائش: وجائنا بیمار ہے!

حمل کی تصدیق کے لیے کچھ دن بعد پریگنینسی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

جدید پیشرفت

اب آئی وی ایف کے عمل میں جینیاتی اسکریننگ (پی جی ٹی اے) شامل کی جا رہی ہے جو ایمبریو کے کروموسومز چیک کرتی ہے تاکہ خصوصاً 35 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے صحت مند ایمبریو منتخب کیا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی وی ایف آئی وی ایف کے مراحل بڑی عمر کی خواتین کا حمل پری امپلانٹیشن جینیاتی ٹیسٹنگ فار اینیوپلوئڈی پی جی ٹی اے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی وی ایف ا ئی وی ایف کے مراحل بڑی عمر کی خواتین کا حمل پی جی ٹی اے جینیاتی اسکریننگ جینیاتی ٹیسٹنگ عمر کی خواتین جینیاتی ٹیسٹ ئی وی ایف کے کیا جاتا ہے پی جی ٹی اے ا ئی وی ایف خواتین کو جاتے ہیں عورت کے کیا جا کے لیے

پڑھیں:

بی جے پی حکومت میں خواتین کا تحفظ مذاق بن چکا ہے، کانگریس

کانگریس نے اسطرح کے حالات پر اپنا افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اڈیسہ میں خواتین کے خلاف جرائم تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، کچھ دنوں قبل پوری میں ہی 3 لوگوں نے ایک نابالغ بچی کا اغوا کر اسے زندہ جلا دیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اڈیسہ کے پوری ضلع میں گزشتہ دنوں ایک سیاحتی مقام پر ایک شادی شدہ جوڑے کے ساتھ بدمعاشی اور خاتون کی اجتماعی عصمت دری کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس تعلق سے کانگریس نے بی جے پی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ کانگریس نے آج اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا ہے کہ اڈیسہ کا جنگل راج، بی جے پی حکومت میں خواتین کی تحفظ مذاق بن چکا ہے، ضلع پوری میں ہوئی حیوانیت اس بات کا ثبوت ہے۔ واقعہ کی مختصر تفصیل پیش کرتے ہوئے کانگریس نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ ضلع پوری ضلع میں شوہر-بیوی سیاحتی مقام پر گھومنے گئے۔ یہاں بدمعاشوں نے پہلے بغیر اجازت خاتون کی تصویر کھینچی، پھر خاتون کے ساتھ چھیڑخانی کرنے لگے، جب خاتون کے شوہر نے اس کی مخالفت کی تو بدمعاشوں نے شوہر کو یرغمال بنا کر خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی۔

کانگریس نے اس طرح کے حالات پر اپنا افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اڈیسہ میں خواتین کے خلاف جرائم تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، کچھ دنوں قبل پوری میں ہی 3 لوگوں نے ایک نابالغ بچی کا اغوا کر اسے زندہ جلا دیا تھا۔ وہیں بالاسور میں ایک 20 سال کی طالبہ نے شعبۂ صدر کے ذریعہ جنسی استحصال سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔ اڈیشہ سے متعلق جرائم کے کچھ اعداد و شمار بھی کانگریس نے اپنی پوسٹ میں شیئر کئے ہیں۔ کانگریس نے بتایا ہے کہ اڈیسہ میں ہر دن 15 عصمت دریاں ہوتی ہیں۔ ریاست میں 40 ہزار سے زیادہ خواتین لاپتہ ہیں۔ عصمت دری کے خلاف آواز اٹھانے پر خواتین کی سماعت نہیں ہوتی۔ پوسٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت میں خواتین کا تحفظ محض انتخابی تقریروں کا حصہ ہے، حقیقت میں یہاں جرائم پیشے بے خوف ہیں اور خواتین خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے کو مجبور ہیں جو کہ انتہائی شرمناک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان امت مسلمہ کی واحد امید ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
  • بی جے پی حکومت میں خواتین کا تحفظ مذاق بن چکا ہے، کانگریس
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • ایشیا کپ میں ہاتھ نہ ملانے کا تنازعہ، اس حوالے سے کرکٹ قوانین کیا ہیں؟
  • سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ ہے؟