غزہ جنگ کا “فیصلہ کن انجام” دو سے تین ہفتوں میں ممکن ہے، ٹرمپ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر غزہ جنگ پر عالمی توجہ مبذول کرواتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جاری سفارتی کوششیں بالآخر ایک فیصلہ کن موڑ تک پہنچنے والی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ دو سے تین ہفتوں میں اس طویل اور خونی جنگ کا “اختتام” ممکن ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے جاری کوششیں مثبت سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں، اور وہ پُرامید ہیں کہ جلد ایک ایسا حل نکل آئے گا جو دونوں فریقین کے لیے “قابلِ قبول” ہو۔
تاہم ٹرمپ نے اس ممکنہ جنگ بندی کے فریم ورک، شرائط یا ثالثی کردار پر زیادہ تفصیل نہیں دی۔ ان کے انداز سے اندازہ ہوتا ہے کہ سفارتی سطح پر پس پردہ کچھ پیشرفت ضرور ہو رہی ہے۔دوسری جانب زمینی حقائق مختلف تصویر پیش کرتے ہیں
اسرائیل نے حال ہی میں حماس کی طرف سے پیش کردہ 60 روزہ جزوی جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ اس تجویز میں 10 یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شق شامل تھی۔ لیکن تل ابیب کا مؤقف ہے کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حماس کا غزہ سے مکمل خاتمہ نہ کر دیا جائے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی واضح کیا ہے کہ ان کی کابینہ کا ہدف غزہ سٹی پر مکمل فوجی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل حماس کو شکست دینے اور اپنے تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے لیے ہر ممکن فوجی طاقت استعمال کرے گا۔
اسرائیلی فوج اس وقت غزہ سٹی کے گرد اپنے طویل آپریشن کو تیز کر چکی ہے، اور یہ کارروائیاں کئی ماہ تک جاری رہنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے
اسرائیل کی مسلسل بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کے حالات بدترین انسانی بحران میں بدل چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی قحط کی تصدیق کر دی ہے۔ 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہیں، اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
بچوں کی بڑی تعداد بھوک، ادویات اور پینے کے صاف پانی کی کمی کا شکار ہے۔ صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ خوراک اور امداد سے بھرے ٹرک سرحد پر کھڑے ہیں، لیکن اسرائیلی اجازت نہ ملنے کے باعث یہ متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہے۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ کا احتجاج
اسرائیل میں بھی حالات مکمل طور پر یکطرفہ نہیں۔ یرغمالیوں کے اہلِ خانہ حکومت کی جنگی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حماس کی طرف سے پیش کردہ عارضی جنگ بندی کو قبول کیا جائے تاکہ ان کے پیارے بحفاظت واپس آ سکیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔
رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔یہ بات انہوں نے استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران کہی؛
اپنے خطاب میں ان انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔
اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔
مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔