اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس ڈیڑھ سال بعد طلب، 235 اساتذہ کے مستقبل کا فیصلہ متوقع
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
کراچی:
وفاقی اردو یونیورسٹی کے سب سے بااختیار ادارے سینیٹ کا ایک غیر معمولی اجلاس یونیورسٹی کے چانسلر اور صدر مملکت آصف علی زرداری کی منظوری سے ڈیڑھ سال بعد طلب کر لیا گیا ہے یہ اجلاس موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کے تقریبا ڈیڑھ سالہ دور میں پہلی بار منعقد ہو رہا ہے۔
اردو یونیورسٹی کی سینٹ کا 51واں اجلاس ڈپٹی چیئر سینٹ ڈاکٹر جمیل احمد کی سربراہی میں جمعرات 3 ستمبر کو کراچی کے گلشن اقبال سائنس کیمپس میں بلایا گیا ہے، اجلاس کئی حوالوں سے اہم ہے لیکن اجلاس کے ایجنڈے کے اہم ترین نکات میں 2013 اور 2017 کے 235 اساتذہ کے سلیکشن بورڈز کی رپورٹ اور وائس چانسلر کی تنخواہ کی منظوری کے معاملے کو شامل کیا گیا ہے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کی تقرری کے بعد ہونے والے اس پہلے اجلاس میں وائس چانسلر کی تنخواہ کے تعین کا معاملہ زیر بحث آئے گا تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ وفاقی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تنخواہ کا تعین یونیورسٹی چانسلر ( صدر مملکت) کرتے ہیں لیکن تنخواہ کے تعین کا معاملہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہونے سے سینیٹ کے اراکین کے مابین یہ بات بحث کا عنوان بنی ہوئی ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری گزشتہ 18 مہینوں سے کس مجاز اتھارٹی کی منظوری سے تنخواہ لے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں سینٹ کا یہ 51واں اجلاس یونیورسٹی کے ان 235 اساتذہ کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے جن کو سلیکشن بورڈ 2013 اور 2017 منعقدہ 2021 کی سفارشات پر سینٹ کے 48 ویں اجلاس کی دوسری نشست منعقدہ 18 جون 2022 سے منظوری کے بعد تقرر نامے جاری کیے گئے تھے۔
مذکورہ سلیکشن بورڈ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کے دور میں ہوئے تھے جبکہ تقرری کے خطوط سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اظہر عطا کے دور میں اور تنخواہیں ڈاکٹر ضیا الدین کے دور میں جاری ہوئی تھیں تاہم ایچ ای سی کی جانب سے سابق چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے اس سلیکشن بورڈ کی اسکروٹنی سمیت مکمل پروسیڈنگ پر اعتراضات لگا دیے تھے۔
جس کے بعد ایک کمیٹی جامعہ کراچی کے ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا شاہ کی سربراہی میں قائم کی گئی، کمیٹی میں دیوان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اورنگزیب اور بیرسٹر شاہدہ جمیل شامل تھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ اساتذہ کے تدریسی مستقبل کو سپورٹ نہیں کررہی ہے اور اگر یہ اساتذہ کسی ممکنہ منفی رپورٹ کی صورت میں فارغ ہوتے ہیں تو کم و بیش 100 کے قریب اساتذہ بے روزگار جبکہ اس سے زائد اپنی گزشتہ اسامیوں لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر پر چلے جائیں گے جو ان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
بیشتر اساتذہ مختلف اداروں سے اپنی ملازمت چھوڑ کر اردو یونیورسٹی آئے تھے ان اساتذہ کے تقرر کو 3 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ اپنی آزمائشی مدت بھی مکمل کر چکے ہیں۔
علاوہ ازیں سینیٹ کے اجلاس میں عدالتی حکم پر مستقل رجسٹرار، ٹریژرار اور ناظم امتحانات کے سلیکشن بورڈ کی سفارشات بھی پیش کی جائیں گی اور غیر تدریسی ملازمین کی سینیٹ کے بجائے سنڈیکیٹ سے ٹائم پے اسکیل کی بنیاد پر کی گئی ترقی کا معامله بھی زیر غور آئے گا۔
سینیٹ کے گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ اردو یونیورسٹی کے تمام ملازمین (اساتذہ و غیر تدریسی ملازمین) کی سروس ہسٹری بنا کر سینیٹ میں پیش کی جائے گی جس پر سینیٹ ٹائم پے اسکیل سے تحت ترقیوں کا فیصلہ کرے گی لیکن سینیٹ کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف غیر تدریسی ملازمین کے ٹائم پے اسکیل کی فہرست سینڈیکٹ سے منظور کرواکر غیر تدریسی ملازمین کو تعلیمی قابلیت مد نظر رکھے بغیر گریڈ 17 اور بالا میں ترقی دے دی حالانکہ 17 اور بالا میں ترقی کا استحقاق صرف سینیٹ کو حاصل ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غیر تدریسی ملازمین وائس چانسلر ڈاکٹر اردو یونیورسٹی یونیورسٹی کے سلیکشن بورڈ اساتذہ کے سینیٹ کے
پڑھیں:
پنجاب حکومت کا غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی سہولت کاری پر کڑی سزا دینے کا فیصلہ
پنجاب حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی سہولت کاری یا معاونت پر کڑی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق اجلاس ہوا، جس میں سخت اور فوری اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں کسی کاروبار، جماعت یا کسی فرد واحد کو کسی کام کے لیے بھی لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے صوبے بھر کی 65 ہزار مساجد کے آئمہ کرام کےلیے وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمروں اور ایڈونس ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی اور غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کی معاونت کرنے والے عناصر کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سہولت کاری یا معاونت پر کڑی سزا دینے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔
اجلاس کے شرکاء کو دی گئی بریفنگ میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر نفرت، جھوٹ اور اشتعال پھیلانے والوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔
بریفنگ میں مزید کہا گیا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد کی نگرانی کے لیے اسپیشل یونٹس فعال کر دیے گئے، پنجاب حکومت مذہبی ہم آہنگی میں معاون جماعتوں کی مکمل سرپرستی کرے گی۔
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ فتنہ پرستوں اور انتہا پسند سوچ والے عناصر کے سوا کسی مذہبی جماعت پر کوئی پابندی نہیں، مذہبی جماعتیں ضابطہ اخلاق کے مطابق اپنی سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رکھ سکتی ہیں۔
دوران اجلاس وزیراعلیٰ پنجاب نے 65 ہزار سے زائد آئمہ کرائم کے وظائف کےلیے اقدامات مکمل کرنے کی ہدایت کی۔