ایک اہم کتاب ’’فرحت نصیب‘‘ ایک عہد کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT
ماہ اگست آزادی کی یاد دلاتا ہے، خون میں نہائے اور بے شمار زخم خوردہ لاشوں اور بہتے خون کی ندیاں اس بات کا احساس اجاگر کرتی ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے لیے مہاجرین کو کس قدر قتل وغارت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان کے خاندان قتل کردیے گئے، ہتھیاروں کے ذریعے انھیں، ان کے ہی خون میں نہلا دیا گیا۔
مسلمانوں کی قربانی و ایثارکی داستانیں کتابوں میں بکھری نظر آتی ہیں، میرے زیر نظر جو کتاب ہے، اس کا نام ہے ’’ فرحت نصیب‘‘۔ اس کی مصنفہ ڈاکٹر فرحت عظیم ہیں۔ ڈاکٹر فرحت نے اپنے والدین کی زخمی اور لہو رنگ کہانی کو جرأت اظہارکے ساتھ بیان کیا ہے، ورنہ عموماً ہوتا یہ ہے کہ خونی رشتوں کے قتل و غارت گری پر لکھنا محال ہو جاتا ہے، دل پر پتھر رکھ کر اور تحریر کو خون کی سیاہی فراہم کرنا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن مصنفہ کا حوصلہ اور صبر قابل تحسین ہے۔
432 صفحات پر مشتمل کتاب غموں، دکھوں اور خون آشام دن و رات کا احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر فرحت عظیم کی کتاب علم و آگہی کے وہ چراغ روشن کرتی ہے جس میں ان کی اپنی زندگی کے کئی رنگ اور جہد مسلسل نمایاں ہے۔ ’’ اطراف ‘‘ مطبوعات کا ایک خاص تحفہ قارئین و ناقدین کے لیے پیش کیا گیا ہے، ضخامت کے اعتبار سے اس کی قیمت صرف600 روپے ہے جوکہ اس مہنگائی کے زمانے میں بہت کم ہے، اس کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ماہنامہ ’’ اطراف ‘‘ میں قسط وار شایع ہو چکی ہے اور اب کتابی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
اس کتاب سے قبل بھی وہ چھ کتابیں مختلف موضوعات پر لکھ چکی ہیں، ان کی کاوش پر داد و تحسین اور ایوارڈ سے نوازا گیا، گولڈ میڈل کی بھی حق دار ٹھہریں۔ اس کا تذکرہ اختتامی سطور میں کرنے کی کوشش کروں گی۔ پہلے باب کی ابتدا انھوں نے اپنے والد گرامی سے اس طرح کی ہے کہ وہ ہجرت کی کرب انگیز کہانی اور مصائب کی داستان سناتے ہیں، اس داستان الم کو ان کی صاحبزادی فرحت عظیم بیان کرتی ہیں۔
انداز بیاں کچھ اس طرح ہے:’’میرے والد بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل ہم دہلی میں رہا کرتے تھے، میری ایک بہن اور دو بھائی مجھ سے بڑے تھے، میں سب سے چھوٹا تھا۔‘‘ ماضی کی پرچھائیاں داستان گو کے سامنے رقصاں ہو جاتی ہیں، داستان گو فرحت عظیم کے والد صاحب ہیں، پاکستان بن چکا تھا۔بہت سے خاندان پاکستان پہنچ گئے تھے اور بہت سے گھرانے ہندوستان (دہلی) چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
فرحت عظیم صاحبہ کی تحریر اپنے قاری کو اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ ان کے والد کا نکاح حالات کے تقاضوں کے تحت محض 10 سال کی عمر میں پھوپھی زاد بہن سے کردیا گیا تھا۔
اس کا نام زبیدہ تھا جس کی عمر 8 سال تھی۔ انھی دنوں مسلمان آبادیوں پر حملوں کی خبر سرگرم تھی۔ ماہ رمضان شروع ہو چکا تھا، خوف و دہشت ہر کسی کے ذہن پر سیاہ ناگ کی طرح پھن پھیلائے ڈسنے کے لیے تیار تھی، پھر وہی ہوا کہ ایک رات بلوائیوں نے حملہ کردیا، داستان گو کے والد، والدہ، بہن اور دونوں بھائی شور سن کر صحن میں آگئے، حملہ آوروں نے انھیں تلواروں سے شہید کر دیا، صرف ایک لڑکا جوکہ فرحت عظیم کے والد ماجد کے روپ میں سامنے آیا، وہ بچ گیا، اس کی وجہ ان کی والدہ نے اسے پلنگ کے پیچھے چھپا دیا تھا، اس کی زندگی تھی لہٰذا وہ نگاہوں سے اوجھل رہا۔
فرحت عظیم نے بہت درد مندی کے ساتھ ہجرت کے دن رات اور کیمپوں کی زندگیوں کو قلم بند کیا ہے، ان کے والد نے اپنی منکوحہ زبیدہ کو تلاش کیا اور نئے سرے سے زندگی کی ابتدا کی۔ محنت، مزدوری، گھر گرہستی، گھر مکان کی ذمے داریاں کم عمری میں اٹھائیں۔دوسرے باب میں مصنفہ نے اپنی والدہ کی ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا ہے، زندگی کے ادوار، زمانے، اتار چڑھاؤ اور گھریلو ماحول، رمضان، عید، حنائی ہاتھ، شیرخرمہ، مردوں کا بادشاہی مسجد میں نماز کے لیے جانا اور پھر ابا کی بیماری، ان کا ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہونا اور پھر ان کا انتقال، اور ان کے انتقال کے بعد مسائل اور یہ سب معاملات اور پھر وہی حملہ آوروں کی قریب آتی ہوئی آوازیں، پورا گھرانہ قتل ہو چکا تھا، سوائے ایک لڑکی کے جو مصنفہ کی والدہ تھیں۔
وہ لاشوں کے انبار میں دبی تھیں، زندگی تھی تو ایک ہندو عورت نے ان کے جسم کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انھیں لاشوں کے ڈھیر سے کھینچ لیا۔ اس عورت کی دیکھ بھال نے ایک نئی زندگی دی، نام بھی بدل دیا گیا۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
وہ حفاظت کے ساتھ فوجیوں کے ساتھ کیمپ میں پہنچا دی گئیں، یہ ایمان کی طاقت تھی جس نے ہندو دھرم اور منہ بولی ماں کو ایک جست میں ہی پیچھے دھکیل دیا۔تیسرے باب میں 1960 کے زمانے کی سیاست اور اس کے داؤ پیچ اور غداری وطن کا نوحہ مصنفہ خود بیان کر رہی ہیں۔
اپنی تعلیمی سرگرمیوں اور بااعتماد لہجے اور مقرر کی حیثیت سے اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے اسی باب میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان نے الیکشن لڑنے کے لیے ڈھٹائی کے ساتھ ببانگ دہل اعلان کیا یہ سن 1965 تھا۔ پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے قانون شکنی کی روایت قائم کی جس پر آج تک عمل کیا جا رہاہے۔ ملک کو توڑا، پارلیمنٹ کو تحلیل کیا۔
مزید یہ کہ اسکندر مرزا اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان کو ہٹا کر ایوب خان کو وزیر اعظم اور اپنی پسند کی کابینہ بنانے کے خواہش مند تھے اس مقصد کے لیے اسکندر مرزا کو جبری رخصت پر بھیجا گیا اور عہدہ صدارت انھوں نے خود سنبھال لیا۔الیکشن میں جیت ایوب خان کو ہوئی اور فاطمہ جناح کی کامیابی کو سازشوں کے تحت ہار میں بدل دیا گیا، 6 ستمبر 1965 کی جنگ بھی مصنفہ کو یاد ہے اور قومی نغموں کا ذکر، بلیک آؤٹ اور نیوز ریڈر شکیل احمد کی خبروں کا جداگانہ انداز جس میں وطن سے محبت اور جوش و جذبہ شامل ہوتا تھا، بین الکلیاتی مباحثہ کی تفصیل اور کالج کے شب و روز بھی مصنفہ کی یادوں میں چراغوں کی طرح روشن ہیں۔
پروگرام کی صدارت ابن انشا کر رہے تھے ان کے اخلاق و کردار اور پابندی وقت کو بھی تحریر کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ چوتھے باب سے دسویں باب تک ڈاکٹر صاحبہ نے تعلیمی میدان میں ہونے والی سرگرمیوں اور کامیابیوں کا ذکر مزے لے لے کر کیا ہے۔
مختار زمن صاحب کی بیگم سلمیٰ زمن اور پرنسپل آمنہ کمال کی شفقت اور تعاون ساتھ میں بحث و مباحثے میں اول آنے کی خوشی اور حیدرآباد کا سفر اور کالج میں مباحثے میں ملنے والی کامیابی گھر اور ملک کے حالات کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولی ہیں۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ، ذوالفقار علی بھٹو کا عوام سے گھل مل جانا اور سر راہ جھولے کھا کر لوگوں کو حیران کر دینا بھی ان قارئین کے لیے حیرت اور خوشی کے در وا کر دیتا ہے جو سیاسی حقائق سے ناواقف ہیں۔
نویں باب کی آخری سطور میں ان کی شادی کا تذکرہ اور والدین اور گھر سے محبت کی خوشبو بھی رچی بسی محسوس ہوتی ہے۔ تعلیم اور ملازمت کے دوران بچوں کی پیدائش اور ان کا تعلیمی سلسلہ جاری و ساری رہا۔ ایک شادی شدہ خاتون کو وہ بھی اپنی فکری و ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو، اور برق رفتاری اور ہوش مندی کے ساتھ اپنے معاملات نمٹانے ہوتے ہیں، سو فرحت عظیم نے تمام امور کو نہایت خوش اسلوبی اور ذمے داری کے ساتھ انجام دیا وہ کسی بھی موقع پر مایوس اور پریشان دکھائی نہیں دیتی ہیں، بلکہ ایک نئی امنگ اور عزم کے ساتھ کامیابیوں کا سفر طے کرتی ہیں۔
وہ سرسید کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہیں، اور ریٹائرمنٹ کے بعد ’’کالج آف اکاؤنٹنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز کامرس‘‘ کے شعبے میں پرنسپل کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
فرحت عظیم نے علم و فن کے اعتبار سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر انھوں نے ملک کی اہم شخصیات سے انعامات و اعزازات وصول کیے۔
پروفیسر سلیم الزماں نے انھیں اپنے مبارک ہاتھوں سے گولڈ میڈل کو ان کے گلے کی زینت بنایا، اس کے علاوہ وزیر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی سے ایوارڈ وصول کیا، صدر مملکت جناب ممنون حسین نے انھیں ان کی کتاب پر ایوارڈ سے نوازا، تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما آزاد بن حیدر سے کتاب لیتے ہوئے وزیر تعلیم نثار کھوڑو سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے، اسی حوالے سے بہت سی رنگ و نور (کلر فل) سے مزین تصاویر کتاب کی زینت ہیں۔ قیمتی اور دل آویز لمحات کو صفحہ قرطاس پر سجا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فرحت عظیم کی کتاب ’’فرحت نصیب‘‘ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ناول پڑھ رہے ہیں۔ ان کا انداز بیاں اچھوتا اور دل نشیں ہے۔ میں مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر فرحت دیا گیا کے والد کے ساتھ کیا ہے
پڑھیں:
ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
بیجنگ : بیجنگ انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں بارہویں بیجنگ شیانگ شان فورم کا آغاز ہوا۔ چینی وزیر دفاع ڈونگ جون نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور خطاب کیا۔جمعرات کے روزڈونگ جون نے کہا کہ تاریخ کو یاد رکھنے اور مستقبل کو مشترکہ طور پر تخلیق کرنے کے اس اہم لمحے میں، ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، تاریخ کے انصاف کی مضبوط حفاظت کرنی چاہیے اور وسیع تر مفاہمت کو یکجا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چینی فوج تمام فریقوں کے ساتھ مل کر خودمختاری کی برابری اور جنگ کے بعد کے عالمی نظم ونسق کی حفاظت کرنے، کثیرالجہتی کی حمایت کرنے، مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنے اور عالمی حکمرانی کے نظام کی اصلاح کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانے کے لئے تیار ہے۔
چینی وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں امن کی حفاظت کے درست راستے پر عمل کرنا چاہیے، امن کے نظریات کی وکالت کرنی چاہیے، امن کی بنیاد کو برقرار رکھنا چاہیے، امن اور دوستی کو ترقی دینی چاہیے، اور دنیا میں دیرپا امن کے لئے مثبت توانائی فراہم کرنی چاہیے۔موجودہ فورم کا موضوع “مشترکہ طور پر بین الاقوامی نظام کا تحفظ اور پرامن ترقی کو فروغ دینا” ہے۔ فورم میں 100 سے زائد ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں ،اسکالرز اور مبصرین سمیت 1800 سے زائد مہمان شرکت کر رہے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا اسرائیل نے غزہ سٹی میں زمینی کارروائیاں شروع کردیں ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد صیہونی جنگی جنون ختم نہ ہو سکا، یمن کے ساحلی شہر پر پھر بمباری اس سال چین-میانمار کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ ہے،چینی نائب صدرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم