ایک اہم کتاب ’’فرحت نصیب‘‘ ایک عہد کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT
ماہ اگست آزادی کی یاد دلاتا ہے، خون میں نہائے اور بے شمار زخم خوردہ لاشوں اور بہتے خون کی ندیاں اس بات کا احساس اجاگر کرتی ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے لیے مہاجرین کو کس قدر قتل وغارت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان کے خاندان قتل کردیے گئے، ہتھیاروں کے ذریعے انھیں، ان کے ہی خون میں نہلا دیا گیا۔
مسلمانوں کی قربانی و ایثارکی داستانیں کتابوں میں بکھری نظر آتی ہیں، میرے زیر نظر جو کتاب ہے، اس کا نام ہے ’’ فرحت نصیب‘‘۔ اس کی مصنفہ ڈاکٹر فرحت عظیم ہیں۔ ڈاکٹر فرحت نے اپنے والدین کی زخمی اور لہو رنگ کہانی کو جرأت اظہارکے ساتھ بیان کیا ہے، ورنہ عموماً ہوتا یہ ہے کہ خونی رشتوں کے قتل و غارت گری پر لکھنا محال ہو جاتا ہے، دل پر پتھر رکھ کر اور تحریر کو خون کی سیاہی فراہم کرنا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن مصنفہ کا حوصلہ اور صبر قابل تحسین ہے۔
432 صفحات پر مشتمل کتاب غموں، دکھوں اور خون آشام دن و رات کا احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر فرحت عظیم کی کتاب علم و آگہی کے وہ چراغ روشن کرتی ہے جس میں ان کی اپنی زندگی کے کئی رنگ اور جہد مسلسل نمایاں ہے۔ ’’ اطراف ‘‘ مطبوعات کا ایک خاص تحفہ قارئین و ناقدین کے لیے پیش کیا گیا ہے، ضخامت کے اعتبار سے اس کی قیمت صرف600 روپے ہے جوکہ اس مہنگائی کے زمانے میں بہت کم ہے، اس کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ماہنامہ ’’ اطراف ‘‘ میں قسط وار شایع ہو چکی ہے اور اب کتابی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
اس کتاب سے قبل بھی وہ چھ کتابیں مختلف موضوعات پر لکھ چکی ہیں، ان کی کاوش پر داد و تحسین اور ایوارڈ سے نوازا گیا، گولڈ میڈل کی بھی حق دار ٹھہریں۔ اس کا تذکرہ اختتامی سطور میں کرنے کی کوشش کروں گی۔ پہلے باب کی ابتدا انھوں نے اپنے والد گرامی سے اس طرح کی ہے کہ وہ ہجرت کی کرب انگیز کہانی اور مصائب کی داستان سناتے ہیں، اس داستان الم کو ان کی صاحبزادی فرحت عظیم بیان کرتی ہیں۔
انداز بیاں کچھ اس طرح ہے:’’میرے والد بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل ہم دہلی میں رہا کرتے تھے، میری ایک بہن اور دو بھائی مجھ سے بڑے تھے، میں سب سے چھوٹا تھا۔‘‘ ماضی کی پرچھائیاں داستان گو کے سامنے رقصاں ہو جاتی ہیں، داستان گو فرحت عظیم کے والد صاحب ہیں، پاکستان بن چکا تھا۔بہت سے خاندان پاکستان پہنچ گئے تھے اور بہت سے گھرانے ہندوستان (دہلی) چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
فرحت عظیم صاحبہ کی تحریر اپنے قاری کو اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ ان کے والد کا نکاح حالات کے تقاضوں کے تحت محض 10 سال کی عمر میں پھوپھی زاد بہن سے کردیا گیا تھا۔
اس کا نام زبیدہ تھا جس کی عمر 8 سال تھی۔ انھی دنوں مسلمان آبادیوں پر حملوں کی خبر سرگرم تھی۔ ماہ رمضان شروع ہو چکا تھا، خوف و دہشت ہر کسی کے ذہن پر سیاہ ناگ کی طرح پھن پھیلائے ڈسنے کے لیے تیار تھی، پھر وہی ہوا کہ ایک رات بلوائیوں نے حملہ کردیا، داستان گو کے والد، والدہ، بہن اور دونوں بھائی شور سن کر صحن میں آگئے، حملہ آوروں نے انھیں تلواروں سے شہید کر دیا، صرف ایک لڑکا جوکہ فرحت عظیم کے والد ماجد کے روپ میں سامنے آیا، وہ بچ گیا، اس کی وجہ ان کی والدہ نے اسے پلنگ کے پیچھے چھپا دیا تھا، اس کی زندگی تھی لہٰذا وہ نگاہوں سے اوجھل رہا۔
فرحت عظیم نے بہت درد مندی کے ساتھ ہجرت کے دن رات اور کیمپوں کی زندگیوں کو قلم بند کیا ہے، ان کے والد نے اپنی منکوحہ زبیدہ کو تلاش کیا اور نئے سرے سے زندگی کی ابتدا کی۔ محنت، مزدوری، گھر گرہستی، گھر مکان کی ذمے داریاں کم عمری میں اٹھائیں۔دوسرے باب میں مصنفہ نے اپنی والدہ کی ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا ہے، زندگی کے ادوار، زمانے، اتار چڑھاؤ اور گھریلو ماحول، رمضان، عید، حنائی ہاتھ، شیرخرمہ، مردوں کا بادشاہی مسجد میں نماز کے لیے جانا اور پھر ابا کی بیماری، ان کا ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہونا اور پھر ان کا انتقال، اور ان کے انتقال کے بعد مسائل اور یہ سب معاملات اور پھر وہی حملہ آوروں کی قریب آتی ہوئی آوازیں، پورا گھرانہ قتل ہو چکا تھا، سوائے ایک لڑکی کے جو مصنفہ کی والدہ تھیں۔
وہ لاشوں کے انبار میں دبی تھیں، زندگی تھی تو ایک ہندو عورت نے ان کے جسم کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انھیں لاشوں کے ڈھیر سے کھینچ لیا۔ اس عورت کی دیکھ بھال نے ایک نئی زندگی دی، نام بھی بدل دیا گیا۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
وہ حفاظت کے ساتھ فوجیوں کے ساتھ کیمپ میں پہنچا دی گئیں، یہ ایمان کی طاقت تھی جس نے ہندو دھرم اور منہ بولی ماں کو ایک جست میں ہی پیچھے دھکیل دیا۔تیسرے باب میں 1960 کے زمانے کی سیاست اور اس کے داؤ پیچ اور غداری وطن کا نوحہ مصنفہ خود بیان کر رہی ہیں۔
اپنی تعلیمی سرگرمیوں اور بااعتماد لہجے اور مقرر کی حیثیت سے اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے اسی باب میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان نے الیکشن لڑنے کے لیے ڈھٹائی کے ساتھ ببانگ دہل اعلان کیا یہ سن 1965 تھا۔ پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے قانون شکنی کی روایت قائم کی جس پر آج تک عمل کیا جا رہاہے۔ ملک کو توڑا، پارلیمنٹ کو تحلیل کیا۔
مزید یہ کہ اسکندر مرزا اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان کو ہٹا کر ایوب خان کو وزیر اعظم اور اپنی پسند کی کابینہ بنانے کے خواہش مند تھے اس مقصد کے لیے اسکندر مرزا کو جبری رخصت پر بھیجا گیا اور عہدہ صدارت انھوں نے خود سنبھال لیا۔الیکشن میں جیت ایوب خان کو ہوئی اور فاطمہ جناح کی کامیابی کو سازشوں کے تحت ہار میں بدل دیا گیا، 6 ستمبر 1965 کی جنگ بھی مصنفہ کو یاد ہے اور قومی نغموں کا ذکر، بلیک آؤٹ اور نیوز ریڈر شکیل احمد کی خبروں کا جداگانہ انداز جس میں وطن سے محبت اور جوش و جذبہ شامل ہوتا تھا، بین الکلیاتی مباحثہ کی تفصیل اور کالج کے شب و روز بھی مصنفہ کی یادوں میں چراغوں کی طرح روشن ہیں۔
پروگرام کی صدارت ابن انشا کر رہے تھے ان کے اخلاق و کردار اور پابندی وقت کو بھی تحریر کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ چوتھے باب سے دسویں باب تک ڈاکٹر صاحبہ نے تعلیمی میدان میں ہونے والی سرگرمیوں اور کامیابیوں کا ذکر مزے لے لے کر کیا ہے۔
مختار زمن صاحب کی بیگم سلمیٰ زمن اور پرنسپل آمنہ کمال کی شفقت اور تعاون ساتھ میں بحث و مباحثے میں اول آنے کی خوشی اور حیدرآباد کا سفر اور کالج میں مباحثے میں ملنے والی کامیابی گھر اور ملک کے حالات کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولی ہیں۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ، ذوالفقار علی بھٹو کا عوام سے گھل مل جانا اور سر راہ جھولے کھا کر لوگوں کو حیران کر دینا بھی ان قارئین کے لیے حیرت اور خوشی کے در وا کر دیتا ہے جو سیاسی حقائق سے ناواقف ہیں۔
نویں باب کی آخری سطور میں ان کی شادی کا تذکرہ اور والدین اور گھر سے محبت کی خوشبو بھی رچی بسی محسوس ہوتی ہے۔ تعلیم اور ملازمت کے دوران بچوں کی پیدائش اور ان کا تعلیمی سلسلہ جاری و ساری رہا۔ ایک شادی شدہ خاتون کو وہ بھی اپنی فکری و ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو، اور برق رفتاری اور ہوش مندی کے ساتھ اپنے معاملات نمٹانے ہوتے ہیں، سو فرحت عظیم نے تمام امور کو نہایت خوش اسلوبی اور ذمے داری کے ساتھ انجام دیا وہ کسی بھی موقع پر مایوس اور پریشان دکھائی نہیں دیتی ہیں، بلکہ ایک نئی امنگ اور عزم کے ساتھ کامیابیوں کا سفر طے کرتی ہیں۔
وہ سرسید کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہیں، اور ریٹائرمنٹ کے بعد ’’کالج آف اکاؤنٹنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز کامرس‘‘ کے شعبے میں پرنسپل کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
فرحت عظیم نے علم و فن کے اعتبار سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر انھوں نے ملک کی اہم شخصیات سے انعامات و اعزازات وصول کیے۔
پروفیسر سلیم الزماں نے انھیں اپنے مبارک ہاتھوں سے گولڈ میڈل کو ان کے گلے کی زینت بنایا، اس کے علاوہ وزیر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی سے ایوارڈ وصول کیا، صدر مملکت جناب ممنون حسین نے انھیں ان کی کتاب پر ایوارڈ سے نوازا، تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما آزاد بن حیدر سے کتاب لیتے ہوئے وزیر تعلیم نثار کھوڑو سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے، اسی حوالے سے بہت سی رنگ و نور (کلر فل) سے مزین تصاویر کتاب کی زینت ہیں۔ قیمتی اور دل آویز لمحات کو صفحہ قرطاس پر سجا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فرحت عظیم کی کتاب ’’فرحت نصیب‘‘ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ناول پڑھ رہے ہیں۔ ان کا انداز بیاں اچھوتا اور دل نشیں ہے۔ میں مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر فرحت دیا گیا کے والد کے ساتھ کیا ہے
پڑھیں:
دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
پاکستان ٹیلی ویژن نے 61 برس کے سفر میں بہت سے ایسے منفرد کردار متعارف کروائے ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دل میں بسیرا کر لیا۔ ٹی وی اور دنیا کی اسکرین سے ہٹ جانے کے بعد بھی یہ کردار لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہو سکے۔ بعض کی یاد میں ان کی ناگہانی موت نے درد کا رنگ پیدا کردیا۔ اس طرح کی ایک ہر دلعزیز شخصیت معروف کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کی ہے، جن کی اکتیسویں برسی جمعرات کو منائی گئی۔ میرے لیے انہیں یاد کرنے کی وجہ 1999 میں شائع ہونے والی کتاب ‘دلبر دلدار’ بنی ہے جسے پنجابی کے معروف لیکھک حسین شاد نے مرتب کیا تھا۔
کسی کی یاد دیرپا بنانے کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں کئی ذائقے ہیں، دلدار کے بڑوں، ہم عصروں اور دوستوں نے بڑی محبت سے انہیں یاد کیا ہے۔ نمونے کے طور پر دلدار کے بیس کالم بھی ہیں۔ یہ سب نگارشات بہت اہم ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دلدار پرویز بھٹی سے الفت کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔
میرے لیے اس کتاب میں توشہ خاص دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادداشتوں کے چند صفحات ہیں جن میں اپنے حالات بیان کرنے لیے جو پیرایہ اظہار اختیار کیا گیا ہے وہ معاشرے کے اس انتشار کی کہانی بن جاتا ہے جس کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اس لکھت کی اٹھان خبر دیتی ہے کہ اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچتی تو ایک منفرد آپ بیتی ہمارے سامنے آتی۔ اس کا پہلا پیراگراف ذرا ملاحظہ کیجیے:
‘میرا خاندان بہت مختصر تاریخ رکھتا ہے، میرے بزرگ محمد بن قاسم کے ساتھ نہیں آئے تھے نہ شاہوں کی اولاد تھے۔ ہم نے قائداعظم سے کبھی ملاقات نہیں کی نہ ہی انہوں نے یا کسی مرد قلندر نے ہمیں خواب میں بشارت دی۔ ہم نے پاکستان بالکل نہیں بنایا نہ اس کے لیے کوئی قربانی دی، یہ ہمیں بنا بنایا مل گیا تھا، تایا فوج میں تھے۔ ہمارا قافلہ لٹنے پٹنے سے بچ گیا (افسوس) یہاں آکر مزے سے پراٹھے کھائے، گھر الاٹ کرایا اور گوجرانولہ میں دوبارہ آباد ہو گئے۔ دوبارہ اس لیے کہ ہم یہیں سے نقل مکانی کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ ابا کو ایک دفعہ تانگے میں سوار ہوتے ہوئے ایک گولی لگتے لگتے رہ گئی یہ گولی اس ٹانگ کو نشانہ بنا رہی تھی جو وہ پائیدان پر رکھ چکے تھے، چلانے والا کوئی اناڑی بدمست سکھ تھا ورنہ زخمی ٹانگ کے بدلے لیاقت علی خان سے ایک آدھ مربع تو مل ہی جاتا اصل میں ہماری ساری زندگی ایسے ہی مس چانسز سے عبارت ہے۔‘
امرتسر کی حکایت بھی اسی طرز میں بیان ہوئی ہے جس کے قصے انہوں نے اپنی والدہ اور بڑے بھائی سے سنے تھے جن سے ان کے والد نثار علی بھٹی ایڈووکیٹ کے سکھوں اور ہندوؤں سے خوشگوار تعلقات اور محلے کے مکینوں کے دل میں ان کے لیے پائی جانے والی تکریم کا پتا ملتا ہے، گاؤں میں اپنی یاد زندہ رکھنے کے لیے وہ اپنے دادا کے حسنِ عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:
‘گاؤں چھوڑنے کے غم کو دادا نے اسی گلی میں کنواں کھدوا کر غلط کیا، اس کنویں پر شطرنج اور چوسر کی بازی لگتی اور کیا بڑا کیا چھوٹا بلا امتیاز مذہب سب مل بیٹھتے۔’
فسادات میں محبت کے نفرت میں بدلنے کا تذکرہ بھی وہ کرتے ہیں، خاندانی روایات کے علاوہ امرتسر کے بارے میں ان کی معلومات کا ماخذ اے حمید اور خواجہ افتخار کی کتابیں تھیں۔
گوجرانولہ میں سینٹ میری اسکول کی مسیحی استانیوں کو وہ بڑی محبت سے یاد کرتے ہیں جو ان کے بقول ‘ٹافیاں چاکلیٹ بھی دیتی تھیں اور مسکراہٹیں اور شاباشیں بھی، سب سے اچھی اور پیاری نیلی آنکھوں والی سسٹر وکٹرین تھیں، لمبا قد اور پیار ہی پیار۔ پیانو پر بیٹھ جاتیں اور ہم سب اے بی سی ڈی گاتے۔’
وہ اس اسکول پر عیسائیت پھیلانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے اپنے ہاں کے پرائیوٹ انگریزی اسکولوں پر کاٹ دار تبصرہ کرتے ہیں:
‘اب تو گھر گھر انگریزی اسکول کھل گئے ہیں، میٹرک فیل ماہر تعلیم ان کو چلا رہے ہیں، ڈبل فیس پر بچے، آدھی تنخواہ پر استانیاں، ایک آدھ اچھی سی استانی سے دوسری شادی اور دنوں میں لکھ پتی اب کوئی ان اسکولوں کے خلاف نہیں بولتا۔’
دلدار پرویز بھٹی میں ریڈیو اور ٹی وی پر کام کرنے کی فطری صلاحیت کا اظہار بھی ان کے بچپن میں ہونے لگا تھا، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
لکھتے ہیں: ‘اداکار میں بچپن ہی سے تھا، بس اشارے کی دیر تھی، بیٹا آنکھ مارو، انگریز کیسے سیگریٹ پیتے ہیں، شیر کیسے گرجتا ہے، سردی کیسے لگتی ہے، جیسے چھوٹے چھوٹے اشاروں پر فوراً عمل کرتا، کان مروڑنے پر فوراً ریڈیو بن جاتا اور خبریں، گانے اور سارے دن کے واقعات اگلنے شروع کر دیتا۔’
اب ہم ان کی ادھوری خودنوشت سے ان کی وفات سے قریباً 2 ماہ پہلے فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو کی طرف بڑھتے ہیں جو گزشتہ دنوں اس اخبار کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کے دوران میری نظروں سے گزرا۔
اس سے اسکول کے زمانے میں ان کی رومانوی طبیعت کی جھلک سامنے آتی ہے، ان دنوں اداکارہ ثریا ان کے خوابوں کی شہزادی تھی اور تصورات کی دنیا میں کافی عرصہ ان کی بیوی بھی رہیں۔ ان کی دادی نے یقین دلا رکھا تھا کہ ثریا اس لیے شادی نہیں کررہیں کہ دلدار کے بڑے ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔
اس انٹرویو میں دلدار نے بتایا ہے کہ ریڈیو پر اناؤنسر کے لیے آڈیشن انہوں نے پاس کر لیا تھا لیکن وہ ریڈیو جوائن نہیں کر سکے کیوں کہ ان کے والد چاہتے تھے وہ پہلے ایم اے انگریزی کریں سو اس خواہش کا احترام کیا اور لیکچرار بن گئے۔ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو زبانیں اہم ہیں۔ پنجابی لوگوں کے دلوں کو گرفت میں لیتی ہے اور انگریزی ان کے دماغوں پر تصرف جماتی ہے۔
ان سے کامیاب کمپیئر ہونے کے باوجود پرائم ٹائم میں شاذو نادر نظر آنے کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ وہ اوپر والوں کو مکھن نہیں لگاتے، ان کی کوئی پی آر نہیں ہے اور وہ دوسروں کی طرح پیپلز پارٹی کے چمچے نہیں بن سکتے۔ ان کے خیال میں اسی بنا پر لوگ انہیں جمہور میلے اور جشن آزادی کی تقریب میں نہیں دیکھ سکے۔
دلدار کو پاکستان میں کمپیئرنگ میں نیا اسٹائل متعارف کروانے پر نہ صرف ناز تھا بلکہ ان کی دانست میں دوسروں نے اس کی تقلید کی، وہ صرف ضیا محی الدین کے اسٹائل کو مختلف قرار دیتے تھے، جسے دلدار کے خیال میں انہوں نے مغرب سے مستعار لیا۔
دلدار پرویز بھٹی نے بتایا کہ ان کے والد کا رنگ پکا جبکہ والدہ کا صاف تھا۔
رنگ کے معاملے میں بھائی والد اور بہنیں والدہ پر گئیں جس کی وجہ سے دلدار کے والد ازراہِ تفنن ان کی والدہ کو اکثر چھیڑتے تھے۔ کالے رنگ کی وجہ سے خاندان اور اس سے باہر بھی انہیں تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا۔ احساسِ کمتری سے بچانے کے لیے ان کی والدہ ہمیشہ انہیں چاند کا ٹکڑا کہا کرتی تھیں اور اس بات پر یقین سے وہ کالے رنگ کے خلاف تعصب کا مقابلہ کر سکے، اس لیے فرنٹیئر پوسٹ کو انٹرویو میں انہوں نے خود کو پیدائشی نرگسیت پسند بتایا تھا۔
اس پروفائل میں 23 مارچ 1978 کو ان کی شادی کا بھی تذکرہ ہے جس سے مجھے دلدار کے یار عزیز امجد اسلام امجد کے مضمون میں درج ان کی شادی سے جڑا ایک قصہ یاد آتا ہے جو ان کے سعادت مند ہونے کا ثبوت ہے۔
امجد صاحب کے بقول ‘اس کی شادی کا دن تھا، بارات گوجرانولہ سے ہمارے ہمسائے میں آنا تھی، سو طے پایا کہ ہم بھابھی کے گھر کے سامنے ایک جگہ جمع ہو جائیں اور وہیں سے بارات میں شامل ہوں، کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ بارات پہنچ گئی ہے، لیکن دولہا گاڑی سے اتر کر کہیں چلا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بارات ہمارے گھر کے سامنے رکی تھی اور دولہا ہماری والدہ کو سلام کرنے اور ان کی دعا لینے ہمارے گھر گیا تھا کیونکہ والدہ علالت کی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہو سکتی تھیں۔’
امجد اسلام امجد کی دلدار سے 25 سالہ دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ایم اے او کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ امجد صاحب کے بقول: ‘دوستی بھی ایسی جیسی اسکول کے لڑکوں میں ہوتی ہے کہ دوست دن کو رات کہے تو آپ ستارے گننا شروع کردیں۔’
امجد اسلام امجد سے دلدار کا گہرا یارانہ تھا اور احمد ندیم قاسمی سے ان کی ارادت مندی تھی، ایک دن وہ ان حضرات کو بااصرار سوپ پلانے چینی ریستوران میں لے گئے جہاں سے باہر نکلنے پر فقیر ان سے پیسے مانگنے لگا، اس نہ جب بہ تکرار یہ کہا :
‘بادشاہ کچھ دیتا جا’
اس پر دلدار پرویز بھٹی کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے ہاتھ جوڑ کر فقیر سے کہا ‘ابھی کچھ دیر پہلے تک میں واقعی بادشاہ تھا مگر اب ان لوگوں (مراد قاسمی صاحب اور امجد صاحب) نے مجھے تمہاری طرح فقیر کردیا ہے۔ اس لیے معاف کرو۔’
امجد اسلام امجد نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ہمدمِ دیرینہ کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے:
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
(دلدار پرویز بھٹی کے لیے ایک نظم)
کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
اپنی باتوں سے سبھی درد بھلا دیتا تھا
اس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکے، غم کے
پھر بھی ہر بزم کو گلزار بنا دیتا تھا
ہر دکھی دل کی تڑپ
اس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گھل کر
اس کی راتوں میں سلگ اٹھتی تھی
میری اور اس کی رفاقت کا سفر
ایسے گزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
یہ جو پچیس برس
آرزو رنگ ستارے کی طرح لگتے تھے
کیسے آنکھوں میں اتر آئے ہیں آنسو بن کر
اس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے
وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خوشبو بن کر
اس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
نام کا اپنے بھرم اس نے کچھ ایسے رکھا
دل احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
کوئی پھل دار شجر ہو سرراہے، جیسے
کسی بدلے، کسی نسبت کا طلب گار نہ تھا
اپنی نیکی کی مسرت تھی اثاثہ اس کا
اس کو کچھ اہل تجارت سے سروکار نہ تھا
کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
دلدار پرویز بھٹی نے ٹی وی پر اداکاری کی، خبریں پڑھیں لیکن انہیں احساس ہوا کہ ان کا اصل میدان کمپیئرنگ ہے۔ ‘ٹاکرا’ سے انہیں پہچان ملی اور پھر ‘میلہ’ اور ‘پنجند’ سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ پنجابی کمپیئرنگ میں وہ اپنے اسٹائل کے مؤجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ ان کے بعد پنجابی میں کمپیئر آتے رہے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
انسانی شخصیت کی تعمیر میں مادری زبان کا بنیادی کردار ہوتا ہے، یہ آپ کے ذہن کو جلا بخشتی ہے جس کے بعد آپ دوسری زبانوں سے علاقہ پیدا کرکے ذہنی افق وسیع کرتے ہیں۔
دلدار پرویز بھٹی کی وجہ شہرت ان کے پنجابی پروگرام بنے لیکن دوسری زبانوں سے بھی ان کا برابر ربط ضبط رہا۔ کالج میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اردو میں کالم لکھتے تھے۔ اس لیے بیک وقت تین زبانوں سے ان کا معاملہ رہتا تھا جس سے ان کی طبیعت میں کشادگی پیدا ہوئی۔
انٹرنیٹ پر ان کی ویڈیوز سے آپ ان کی حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کے نمونے دیکھ کر آج بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔
ایک ویڈیو میں وہ دوسروں کی کمال مہارت سے نقل اتارتے ہیں اور ان کے برابر بیٹھے معروف ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر ‘پنجند’ کے ایک کلپ سے ان کے پروگرام کے تنوع کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
اس میں ہماری ملاقات پنجابی کے معروف فکشن نگار، شاعر اور مترجم افضل احسن رندھاوا سے ہوتی ہے۔ ببو برال اور نشیلا کی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ لکڑی سے مجسمے بنانے والے ہنرمند سے دلدار گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، ایک خاتونِ خانہ سے کھانے کے بارے میں پرلطف مکالمہ ہوتا ہے۔
دلدار پرویز بھٹی کے فنی کمالات کا سب اعتراف کرتے ہیں، استاد اور لکھاری کی حیثیت سے بھی معروف ہوئے، ان کے شخصی محاسن بھی بہت تھے لیکن ان کی ذات کی ایک خوبی جو ان کی وفات کے بعد اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ان کی مالی اعانت سے مستفید ہونے والے ضرورت مندوں اور ناداروں نے ان کے مرنے پر گریہ کیا اور دنیا نے جان لیا کہ دلدار کتنوں کے چارہ ساز تھے۔
زندگی کی آخری سانسوں تک وہ انسانیت کی خدمت میں جٹے رہے اور انہیں اجل کا سندیسہ اس وقت ملا جب وہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کے لیے امریکا میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے اور روشن دماغ دلدار کو برین ہیمبرج ہم سے ہمیشہ کے لیے دور لے گیا تھا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews ادھوری یادیں پاکستان ٹیلی ویژن دلدار پرویز بھٹی محمودالحسن وی نیوز