Express News:
2025-09-18@13:53:08 GMT

ڈیم نہیں بناؤگے تو سیلاب توآئیں گے

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

پچھلے کئی سالوں سے عالمی سطح پر یہ کہاجاتا رہاہے کہ آیندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہواکریں گی، یعنی اگلے چند سالوں میں خشک سالی کے سبب یابارشیں کم ہونے کے سبب دنیاکے کئی ممالک صاف پانی کی کمی کاشکار ہوجائیں گے اورہوسکتا ہے پانی نہ ملنے کی وجہ سے یہ ممالک آپس میں لڑپڑیں گے۔

انھیں اپنی زرعی زمینیں خشک ہوتی نظر آنے لگے گی اوروہ قحط کی خوف سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ہمارا پانی روکنے کا جب عندیہ دے ڈالا تھا تو ہم کس طرح سیخ پاہوگئے تھے اورسندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر عالمی سطح پر شور مچانا شروع کردیاتھا۔ ہمیں خطرہ لاحق ہونے لگاتھا کہ پانی روکے جانے کی صورت میں ہمارا کسان بے روزگار ہوجائے گا اورسارا ملک غذائی اجناس کی کمی کاشکار ہوجائے گا۔ ہمیں اس کی اس دھمکی میں اپنی موت نظر آنے لگی تھی لیکن وہ مرحلہ ابھی آیا نہیں تھا کہ اس خطے میں قدرت کی مہربانیوں کی وجہ سے اس قدر زیادہ بارشیں ہونے لگیں کہ ہمیں سیلابی صورتحال کاسامنا ہونے لگا ۔

ایسے میں بھارت نے اپنا اضافی پانی بھی پاکستان کی طرف دھکیل دیا اورہم ایک بار پھر واویلا مچانے لگے کہ یہ ایک آبی جارحیت ہے۔ہم وہ قوم ہیں جو کسی حال میں خوش نہیں ہوتی۔ بھارت پانی روک دے تو بھی اوروہ پانی چھوڑدے تو بھی۔دنیا میں یہ ہوتا آیا ہے کہ جب بارشیں زیادہ ہوا کرتی ہیں توڈیموں کو بچانے کے لیے اس کے کچھ اسپیل کھولنے پڑجاتے ہیں۔ورنہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں پانی کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے ڈیم کونقصان نہ پہنچ جائے، اگر اسپیل نہ کھولے گئے اورڈیم ٹوٹ جائے تو بہت زیادہ تباہی ہوسکتی ہے۔

اس سال ہم نے پہلے کی طرح اپنے کچھ ڈیموں کے اسپیل اسی خطرے کی وجہ سے کھولے ہیں اوربھارت نے بھی شاید یہی کچھ کیا ہے ۔ مگر ہم نے ہمیشہ کی طرح اپنی نااہلی کی ذمے داری اس بار بھی بھارت کے اسپیل کھولے جانے پر ڈال دی۔دنیا ہماری اس چیخ وپکار پر کچھ نہ بولی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اسپیل کھولنا ہر اس ملک کا استحقاق ہے جس نے یہ ڈیم بنائے ہیں۔ ہم اسے آبی جارحیت کانام دیں یا کچھ اورلیکن ہم اس پانی کو روک نہیں سکتے تھے۔ پانی بند کردینے کی صورت میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر ہم اس کے ساتھ جنگ لڑسکتے تھے یااسکے ڈیموں کوبم سے اُڑا سکتے تھے لیکن یاد رہے کہ اسپیل کھولے جانے پر ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں خود اپنے طورپر اس سیلابی پانی سے بچاؤ کے انتظامات کرنا چاہیے تھے۔     

 دوبرس قبل جب کچھ ایسی ہی صورتحال کے سبب پنجاب اورسندھ میں سیلاب نے زبردست تباہی مچادی تھی اورلاکھوں گھر تباہ ہوگئے تھے اور دنیا ہمارے شور کوسن کر ہماری مدد کو بھی آپہنچی تھی ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی ذاتی کوششوں سے کئی ارب ڈالرز بھی امداد کی شکل میں مل گئے تھے لیکن دنیا ہرسال اس طرح ہماری مدد ہرگز نہیں کرسکتی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو اب سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک ایسی صورتحال کاسامنا کرتے رہیں گے ۔ جو بڑے ڈیمز ایوب خان کے دور میں بنائے گئے تھے ہم آج تک انھی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔

اس کے بعد جب بھی کسی اوربڑے ڈیم کی تعمیر کی بات کی جاتی ہے سندھ اورخیبر پختون خوا سے اس کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ آوازیں اس قدر سخت اورسنگین ہوتی ہیں کہ ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہونے لگتا۔ لاشوں پرسے گزر جانے کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔ کالاباغ ڈیم چالیس سال پہلے تجویز کیاگیا تھا اورآج تک بن نہیں پایا۔ کسی جمہوری حکمران تو کیا کسی غیر جمہوری حکمران نے بھی ہمت دکھانے کی کوشش نہیں کی۔

ذرا سوچا جائے کہ اس ملک کو ایک نہیں اب کئی بڑے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے۔ وہ اگر نہ بنے تو ہم ہرسال ایسی ہی تباہی سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ کلائمیٹ چینج کے اثرات ہمارے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ ہم نے ابھی بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ سیلابی آفات سے بچنے کا واحد راستہ پانی کے وافر اور بڑے بڑے ذخائر بنانے میں مضمر ہے۔ہم نے ذخائر بنانے کے بجائے سیلابی پانی کی گذر گاہوں کو اور بھی چھوٹا اورمختصر کردیا ہے ۔

دریاؤں کے راستوں پرمکانات اوربستیاں آباد کرلی ہیں۔ ہم سمجھ بیٹھے تھے یہ دریا اب خشک ہوچکے ہیں اورشاید پھر سے کبھی بھی نہیں بھریں گے۔دریائے چناب ، ستلج، جہلم اور دریائے راوی کے ساتھ بھی ہم نے یہی سلوک کیا۔ اِن دریاؤں کو ہم نے اس قدر چھوٹا کردیا اوروہاں سیوریج کاپانی بھی داخل کردیا کہ اب ذرا سے اضافی پانی سے وہ کناروں سے باہرنکل آئے۔ راوی کو خشک ہوتادیکھ کروہاں ایک نئی بستی بلکہ ایک نیاشہرآباد کرنے کی ٹھان لی۔RUDA کے نام سے ایک ایسی اتھارٹی بناڈالی کہ لاکھوں ایکڑ پرمشتمل جس میں زرعی زمینیں بھی شامل تھیں سوسائٹی بناناشروع کردی۔ ہمارے ایک سابق وزیراعظم خود اس منصوبے کو لے کر اتنے جذباتی ہوگئے کہ اس کی پبلسٹی بھی میڈیا پرآکرکرنے لگے۔

وہ اسے اسلام آباد سے بھی اچھا ایک نیاشہر کا نام دے رہے تھے اورسارا کریڈٹ بھی اپنے نام کرنے لگے تھے۔ اُس منصوبے کی تشہیر اس پیمانے پرکی جانے لگی کہ غریب اورمعصوم عوام بھی اس کے دھوکے اورشکنجے میں آکر اپنی جمع پونجی اس میں لگانے لگے ۔ آج وہ سارا منصوبہ دریابرد ہوچکا ہے اورمنصوبے کے کرتا دھرتا ایک دوسرے کو الزام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ سیلابی پانی کچھ دنوں میں بستیاں اجاڑکر سمندر میں جاگرے گا اورہم اسے محفوظ بناکر اپنی زراعت کی استعمال سے بھی محروم رہ جائیں گے۔

ہم ویسے سارا سال پانی کی کمی کارونا روتے ہیں لیکن جب قدرت اپنی فیاضی دکھاتے ہوئے ہمیں وافر مقدار میں پانی فراہم کرتی ہے توہم اسے اگلے دنوں کے لیے ذخیرہ بھی نہیں کرپاتے ۔ہم نے اپنی زرعی زمینوں کو بھی مکانوں اورسوسائٹیوں کی تعمیر کے لیے استعمال کرلیا ہے ۔ قدرت نے تو ہمیں بے تحاشہ نعمتوں سے نوازا تھا، مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی۔

آج یہ سیلابی پانی کو بھی ہم اگر ایک نعمت سمجھ کرذخیرہ کردیتے تو ہم سے بڑا خوش نصیب کوئی اور نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کل قدرت ہماری اس ناشکری پر ہم پریہ مہربانیاں روک دے اورہم بوند بوند کو ترسنے لگیں جب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے کس قدر کفران نعمت کیاتھا۔ ویسے بھی کلائمیٹ چینجز مستقل نہیں رہتے ۔آج اگر بارشیں ہورہی ہیں تو ہوسکتا ہے کل خشک سالی کا دور بھی آجائے۔ پھر ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔

ہمیں ابھی سے آیندہ آنے والے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ بڑا دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر جب یہ صاف پانی دریاؤں سے گزر کرسمندر میں جا گرتا ہے۔ہمیں اب سنجیدگی سے اپنے طرز عمل پرغور کرنا چاہیے اورڈیم بنانے کی مخالفت چھوڑکرکسی مستقل حل پرتیار ہونا پڑے گا۔ ایسے ڈیم بنانے ہونگے جن سے ہم سارا سال مستفید ہوتے رہیں اوراپنی زمینوں کو ممکنہ خشک سالی سے بچاتے رہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیلابی پانی کی وجہ سے بھی ہم نے لگے کے لیے

پڑھیں:

دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی

دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی کے بعد بہاولپور کی دریائی تحصیلوں میں پانی کی سطح کم ہونے لگی مگر اب بھی کئی کئی فٹ پانی موجود ہے ۔

اوچ شریف، تحصیل خیرپور ٹامیوالی، تحصیل صدر بہاولپور میں درجنوں بستیاں بستور زیر آب ہیں۔

قادر آباد کے علاقے میں سرکاری اسکول کی عمارت میں پانچ فٹ پانی بھرا ہوا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے سینکڑوں افراد ریلیف کیمپ منتقل کردیے گئے۔

سیلاب میں پھنسے لوگوں کو کشتیوں کے ذریعےکھانے کی فراہمی کی جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • سیلاب
  • ملالہ یوسف زئی کا ادارہ تعلیم و آگاہی کیلئے 2 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود