اسلام آباد:

پاکستان میں ہر سال مون سون بارشوں کے بعد پیدا ہونیوالی تباہی، خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں ایک بار پھر نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر سوالات اٹھا رہی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت این ایف سی ایوارڈکا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم اور صوبائی حکومتوں کو صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی کے قابل بنانا تھا،تاہم زمینی حقائق اس مقصد کے حصول سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں، 2010 کے ساتویں این ایف سی ایوارڈکے تحت صوبوں کا حصہ 47.

5 فیصد سے بڑھاکر 57.5 فیصدکر دیاگیا تھا۔

18ویں ترمیم کے ذریعے اہم شعبے صوبوں کو منتقل کیے گئے، مگر صوبے ان اختیارات اور وسائل کامؤثر استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں، ترقیاتی بجٹ کم خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات، خاص طور پر تنخواہوں اور پنشن پر حد سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔

ناقدین کاکہنا ہے کہ صوبے سیاسی مفاد پر مبنی قلیل مدتی منصوبوں پر توجہ دیتے ہیں اور طویل مدتی انسانی ترقی میں سرمایہ کاری سے گریزکرتے ہیں۔مزید برآں صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے بجائے اختیارات کو مرکزیت دی ہے، جس سے نچلی سطح پر سروس ڈیلیوری کمزور ہو گئی ہے۔

وفاقی حکومت بھی مالی دباؤکا شکار ہے کیونکہ اسے قرضوں کی ادائیگی، دفاع،سبسڈی اور بڑے منصوبوں کی ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں، جبکہ وفاقی وسائل میں کمی کے باوجود صوبے اپنی آمدن بڑھانے کیلیے سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہے ہیں۔ وسائل کی صوبوں میں تقسیم کا فارمولا بھی تنقیدکی زد میں ہے،موجودہ فارمولے میں 82 فیصد وزن آبادی کو دیاگیا،جبکہ غربت، پسماندگی اور محصولات جمع کرنے کی صلاحیت کو کم اہمیت دی گئی ہے،بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے اس تقسیم کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں، لیکن اس کا مطلب صوبائی خودمختاری کو ختم کرنا نہیں بلکہ کارکردگی، شفافیت اور احتساب کو فروغ دینا ہے۔ اس کیلیے وسائل کی تقسیم کوکارکردگی سے مشروط کیا جا سکتا ہے،جیسے کہ تعلیم، صحت اور محصولات میں بہتری لانے والے صوبوں کو اضافی فنڈز دیے جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنا،وفاقی اور صوبائی ذمہ داریوں کی واضح تقسیم اور آزاد نگرانی کے نظام قائم کرنا بھی اصلاحات کا حصہ ہونا چاہیے۔کراچی کی موجودہ حالت این ایف سی ایوارڈکے عملی تضادات کو بے نقاب کرتی ہے۔

ملک کا سب سے بڑا مالیاتی مرکز ہونے کے باوجود ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبا ہوا نظر آتا ہے،جب وسائل کا سب سے بڑا حصہ دینے والا شہر ہی سب سے زیادہ نظرانداز ہو تو یہ سوچنا لازم ہے کہ کیاموجودہ این ایف سی ایوارڈ واقعی اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے؟جب تک احتساب، شفافیت اور منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا جاتا، این ایف سی ایوارڈ پاکستان کے مالی مسائل کاحل بننے کے بجائے ان کی علامت ہی بنارہے گا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایف سی ایوارڈ

پڑھیں:

سیلاب کی تباہ کاریاں‘ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے‘سلیم میمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-08-28
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر سلیم میمن نے حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث سندھ اور ملک بھر میں اشیاء خورونوش و زرعی اجناس کی سپلائی لائن میں بے ترتیبی و رکاوٹ پر گہری تشویش کا اِظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس کے اَثرات عوام کے ساتھ ساتھ تاجر برادری کے لیے بھی ناقابلِ برداشت بنتے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ سبزیوں اور زرعی اَجناس کی سپلائی لائن بُری طرح متاثر ہونے کے باعث ٹماٹر، پیاز، آلو اور ہری سبزیوں کی قیمتوں میں کئی گنا اِضافہ ہو گیا ہے، جس کا براہِ راست اَثر عوام و تاجروںپر پڑ رہا ہے۔ چھوٹے تاجر جن کا روزانہ کا کاروبار محدود منافع پر چلتا ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور سپلائی میں رُکاوٹ کے باعث شدید نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ ایک طرف خریدار مہنگائی سے پریشان ہیں تو دوسری جانب تاجر مناسب منافع کے بجائے نقصان کے ساتھ کاروبار چلانے پر مجبور ہیں۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے اَفسوس کا اِظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کوئی پیشگی اِقدامات نہیں کیے جاتے۔ دُنیا کے کئی ممالک نے کولڈ اسٹوریج مراکز، کسانوں کی اِنشورنس اسکیمیں، پرائس کنٹرول اور مضبوط انفراسٹرکچر کے ذریعے فوڈ چین کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے، جبکہ سندھ میں ایسے اِقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث ہر سال عوام اور تاجر برادری یکساں طور پر متاثر ہوتی ہے۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے فوری اور سنجیدہ اِقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ زرعی اجناس اور سبزیوں کے لیے محفوظ گودام اور کولڈ اسٹوریج مراکز قائم کیے جائیں تاکہ تاجروں کو ضیاع اور نقصان سے بچایا جاسکے۔ دیہی علاقوں اور منڈیوں تک پائیدار سڑکوں کی تعمیر کی جائے تاکہ ترسیلی نظام میں رُکاوٹ نہ آئے۔ اِسی طرح سبزیوں اور روزمرہ ضروریات کی اَشیاء کی بروقت درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ مقامی منڈیوں میں سپلائی بحال رہے اور قیمتوں میں استحکام پیدا ہو۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ آئندہ فصل بروقت کاشت کرسکیں، جس سے عوام اور تاجروں دونوں کو ریلیف ملے گا۔ اِس کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ عام آدمی اور تاجر برادری دونوں کو حقیقی معنوں میں سہولت حاصل ہوسکے۔ صدر چیمبر نے کہا کہ خوراک کی ترسیلی زنجیر کے استحکام کو قومی ترجیحات میں شامل کیا جانا لازمی ہے تاکہ عوام کو اشیائے خورونوش قابلِ برداشت قیمتوں پر دستیاب ہوں اور تاجروں کا کاروبار بھی بحال اور مستحکم رہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کو 2021-22ء میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 11 ارب 15 کروڑ کم ملنے کا انکشاف
  • دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
  • سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ 
  • سیلاب کی تباہ کاریاں‘ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے‘سلیم میمن
  • سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، اربوں ڈالرز سے تعمیر ہونے والی ایم 5 موٹروے کا بڑا حصہ بہہ گیا
  • پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں،جرمن سفارتخانے کا متاثرین کیلئے امداد کا اعلان
  • پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا
  • پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند
  • اداروں میں اصلاحات وقت کی ضرورت، پاکستان کا مستقبل مضبوط جمہوریت سے وابستہ ہے، صدر مملکت
  • عمران کا مقدر لمبی جیل، نئے صوبوں، فنانس ایوارڈ اور ڈیموں پر ہائبرڈ نظام میں اختلافات کا امکان ہے: طلعت حسین