مون سون کی تباہ کاریاں، این ایف سی ایوارڈ میں اصلاحات وقت کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان میں ہر سال مون سون بارشوں کے بعد پیدا ہونیوالی تباہی، خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں ایک بار پھر نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر سوالات اٹھا رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت این ایف سی ایوارڈکا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم اور صوبائی حکومتوں کو صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی کے قابل بنانا تھا،تاہم زمینی حقائق اس مقصد کے حصول سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں، 2010 کے ساتویں این ایف سی ایوارڈکے تحت صوبوں کا حصہ 47.
18ویں ترمیم کے ذریعے اہم شعبے صوبوں کو منتقل کیے گئے، مگر صوبے ان اختیارات اور وسائل کامؤثر استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں، ترقیاتی بجٹ کم خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات، خاص طور پر تنخواہوں اور پنشن پر حد سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔
ناقدین کاکہنا ہے کہ صوبے سیاسی مفاد پر مبنی قلیل مدتی منصوبوں پر توجہ دیتے ہیں اور طویل مدتی انسانی ترقی میں سرمایہ کاری سے گریزکرتے ہیں۔مزید برآں صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے بجائے اختیارات کو مرکزیت دی ہے، جس سے نچلی سطح پر سروس ڈیلیوری کمزور ہو گئی ہے۔
وفاقی حکومت بھی مالی دباؤکا شکار ہے کیونکہ اسے قرضوں کی ادائیگی، دفاع،سبسڈی اور بڑے منصوبوں کی ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں، جبکہ وفاقی وسائل میں کمی کے باوجود صوبے اپنی آمدن بڑھانے کیلیے سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہے ہیں۔ وسائل کی صوبوں میں تقسیم کا فارمولا بھی تنقیدکی زد میں ہے،موجودہ فارمولے میں 82 فیصد وزن آبادی کو دیاگیا،جبکہ غربت، پسماندگی اور محصولات جمع کرنے کی صلاحیت کو کم اہمیت دی گئی ہے،بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے اس تقسیم کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں، لیکن اس کا مطلب صوبائی خودمختاری کو ختم کرنا نہیں بلکہ کارکردگی، شفافیت اور احتساب کو فروغ دینا ہے۔ اس کیلیے وسائل کی تقسیم کوکارکردگی سے مشروط کیا جا سکتا ہے،جیسے کہ تعلیم، صحت اور محصولات میں بہتری لانے والے صوبوں کو اضافی فنڈز دیے جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنا،وفاقی اور صوبائی ذمہ داریوں کی واضح تقسیم اور آزاد نگرانی کے نظام قائم کرنا بھی اصلاحات کا حصہ ہونا چاہیے۔کراچی کی موجودہ حالت این ایف سی ایوارڈکے عملی تضادات کو بے نقاب کرتی ہے۔
ملک کا سب سے بڑا مالیاتی مرکز ہونے کے باوجود ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبا ہوا نظر آتا ہے،جب وسائل کا سب سے بڑا حصہ دینے والا شہر ہی سب سے زیادہ نظرانداز ہو تو یہ سوچنا لازم ہے کہ کیاموجودہ این ایف سی ایوارڈ واقعی اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے؟جب تک احتساب، شفافیت اور منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا جاتا، این ایف سی ایوارڈ پاکستان کے مالی مسائل کاحل بننے کے بجائے ان کی علامت ہی بنارہے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایف سی ایوارڈ
پڑھیں:
ڈینگی کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں جائیں،میئر حیدرآباد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-2
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)میئر حیدرآباد کاشف علی شورو کی شہر میں ڈینگی کی روک تھام کے سلسلے میں بلدیہ اعلی حیدرآباد کے شعبہ ملیریا کی جانب سے ضلع کے 9 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز کی حدود میں آنے والے علاقوں میں جاری فیومیگیشن مہم کو مزید تیز اور موثر بنانے کے حوالے سے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد اقدامات تیز کردیئے ہیں اور اسپرے کی نئی مشینوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات سے عملے کی شعبہ ملیریا میں تعیناتی کرکے ویکسینیٹرز کی تعدا د میں اضافہ کردیا گیا ہے،تمام تعلقہ سٹی، لطیف آباد، قاسم آباد اور رورل پر مشتمل 9 ٹاؤنز میں عوام الناس کو ڈینگی سے بچانے اورمہم کو موثر بنانے کیلئے بلدیہ اعلیٰ کے مختلف افسران و انڈر ٹرینی افسران کی بھی ٹاؤن وائز ٹیمیں تشکیل دیکر فیومیگیشن کی مکمل مانٹیرنگ کی جارہی ہے ۔