جھنجھلاہٹ کی شکار مودی حکومت کا راہل گاندھی کے خلاف ایک اور مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
بہار پولیس نے کانگریس رہنما راہل گاندھی کے خلاف 29 اگست کو دربھنگہ ریلی میں لگائے گئے مبینہ ’غیر شائستہ نعروں‘ کے معاملے میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ اقدام وزیرِاعظم نریندر مودی کے دور میں بڑھتے ہوئے سیاسی انتقام کی جھلک ہے، جہاں اپوزیشن رہنماؤں کو من گھڑت کیسز اور پولیس کارروائیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
معمول کی نعرہ بازی کو جرم بنا دیا گیاانتخابات کے دوران جلسوں اور ریلیوں میں نعرہ بازی معمول کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن راہل گاندھی کی دربھنگہ ریلی کو سیاسی سرگرمی کے بجائے قانونی مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کے ایک اشارے پر مودی نے سرینڈر کردیا، راہول گاندھی کے بھارتی وزیر اعظم کو طعنے
یہ معاملہ ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی ایک اور کڑی ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک متنازعہ ہتکِ عزت کے مقدمے پر پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں، جبکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کے خلاف کئی ایف آئی آرز درج ہیں۔
ریاستی مشینری کا سیاسی استعمالسیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مودی کی قیادت میں ریاستی اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پولیس سے لے کر تحقیقاتی ایجنسیوں — ای ڈی (Enforcement Directorate) اور سی بی آئی (CBI) — تک کا استعمال اپوزیشن کی آواز دبانے کے لیے بارہا کیا گیا ہے۔ بہار جیسے سیاسی طور پر حساس خطے میں راہل گاندھی پر مقدمہ درج کرنا اس بات کی علامت ہے کہ بی جے پی ان کے بڑھتے ہوئے عوامی اثرورسوخ کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے مودی بھگوان کو بھی بتائیں گے کہ کائنات کیسے چلائی جاتی ہے، راہل گاندھی کا امریکا میں طنزیہ خطاب
جمہوریت اور سیاسی آزادی پر سوالیہ اقدامات نہ صرف جمہوری مکالمے کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وزیرِاعظم مودی راہل گاندھی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، بالخصوص نوجوانوں اور پسماندہ طبقات میں، سے خائف ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ انصاف نہیں بلکہ کھلا سیاسی انتقام ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رایل گاندھی نریندر مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رایل گاندھی راہل گاندھی کے خلاف
پڑھیں:
شبر زیدی کے خلاف دو دن قبل درج ہونے والی ایف آئی آر ختم کیوں کرنا پڑی؟
سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی کے خلاف مالی بے ضابطگیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک اہم معاملہ سامنے آیا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کے اینٹی کرپشن سرکل، کراچی نے شبر زیدی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
اس مقدمے کے مطابق شبر زیدی پر بطور چیئرمین ایف بی آر (مئی 2019 سے جنوری 2020 کے درمیان) 16 ارب روپے سے زائد کے غیر مجاز انکم ٹیکس ریفنڈز کی منظوری دینے کا الزام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کیخلاف مالی بے ضابطگیوں کا الزام، ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرلیا
ایف آئی اے کے مطابق شبر زیدی نے مبینہ طور پر ایف بی آر کے بعض افسران اور بینک حکام کے ساتھ ملی بھگت کی اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ بھاری ریفنڈز قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور کیے۔
تحقیقات کے نکات
تحقیقات میں یہ بھی بتایا گیا کہ جن کمپنیوں کو یہ ریفنڈز جاری کیے گئے، ان میں کچھ ایسی کمپنیاں شامل تھیں جو ایف بی آر چیئرمین تعینات ہونے سے قبل شبر زیدی کی نجی آڈٹ فرم کی کلائنٹس رہ چکی تھیں۔
ایف آئی اے کے مطابق یہ لین دین مفادات کے ٹکراؤ کے زمرے میں آتا ہے۔ مقدمے میں شبر زیدی کے علاوہ ایف بی آر کے متعلقہ افسران اور بینکوں کے اعلیٰ عہدیداران کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
کیس کی نوعیت اور تازہ پیشرفت
بنیادی طور پر یہ معاملہ اپنے سابق کلائنٹس کو غیر قانونی طور پر بھاری انکم ٹیکس ریفنڈز جاری کرنے کے لیے اختیارات کے ناجائز استعمال کے گرد گھومتا ہے۔ تاہم تازہ ترین معلومات کے مطابق ایف آئی اے کراچی زون نے سابق چیئرمین ایف بی آر کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ریحام خان اور بشریٰ بی بی سے شادی کرنے والا کبھی لیڈر نہیں ہو سکتا، شبر زیدی
ایف آئی آر منسوخی کی اجازت پولیس رول 1934 کے رول 24.7 کے تحت دی گئی اور کیس کو ’سی کلاس‘ میں شامل کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔
مقدمہ ختم کرنے کی وجوہات
اس فیصلے کے بعد سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور ایف بی آر افسران کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا جائے گا۔ فیلڈ یونٹ کی سفارش پر ڈسچارج رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی گئی ہے اور یہ حکم ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی زون کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ 3 برس قبل یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں زیرِ بحث آچکا تھا۔ ایف بی آر نے اُس وقت شبر زیدی پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کیا تھا۔ فروری 2022 کی ایف بی آر رپورٹ میں غیرقانونی ریفنڈ کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔
تحریکِ عدم اعتماد کے بعد معاملہ فائلوں میں دب گیا جس کی وجہ سے اس پر فیصلہ نہ ہوسکا۔
ایف آئی اے نے اب دوبارہ انہی الزامات کی بنیاد پر انکوائری رجسٹر کی تھی، شبر زیدی اور ان کی سابق فرم کا ریکارڈ ایف بی آر سے طلب کیا گیا تھا اور ایف بی آر رپورٹ کے مطابق ریفنڈز قانونی طریقہ کار کے تحت جاری ہوئے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایف آئی اے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی چیئرمین ایف بی آر شیبر زیدی مفادات کا ٹکراؤ