Express News:
2025-09-17@23:45:55 GMT

ٹیرنس اسٹیمپ… شوبز کا ایک عہد جو تمام ہوا

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

روشنیوں کی دنیا میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو محض کردار ادا نہیں کرتے بلکہ وقت کے دھارے پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ فنکار اپنی موجودگی سے ایک ایسا طلسم پیدا کرتے ہیں کہ پردہ سیمیں لمحہ بھر کے لیے ایک جیتی جاگتی حقیقت میں بدل جاتا ہے۔

ان کی آنکھوں کی گہرائی، مکالمے کی نرمی یا شدت اور باڈی لینگوئج میں چھپی ہوئی کہانیاں ناظر کے دل تک پہنچتی ہیں۔ وہ اداکار جو محض ڈائیلاگ نہیں بولتے بلکہ ہر لفظ میں اپنی روح ڈال دیتے ہیں، وہی سینما کے حقیقی جادوگر ہوتے ہیں۔ ایسے فنکاروں کی پہچان صرف ان کی کامیاب فلموں سے نہیں ہوتی بلکہ اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ ہر کردار میں کس حد تک اتر سکتے ہیں، اس کی گہرائی میں چھپے جذبات کو کس مہارت سے آشکار کر سکتے ہیں۔ کبھی وہ ایک معصوم روح بن کر سامنے آتے ہیں تو کبھی ایک پراسرار سائے کی طرح جو پردے پر لرزتا ہے۔

ان کی اداکاری میں ایک ایسا وقار اور نفاست ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ پرانی نہیں ہوتی۔ ہر منظر میں ان کی موجودگی ایک خاموش مگر پْراثر طاقت کی مانند محسوس ہوتی ہے، جو ناظر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس تناظر میں ہالی وڈ سٹار ٹیرنس اسٹیمپ کا نام سن کر ذہن میں ایک ایسی شخصیت کا عکس ابھرتا ہے جو اپنی آنکھوں کی گہرائی اور مکالمے کے وزن سے پردہ سیمیں پر ایک منفرد سحر طاری کر دیتا ہے۔

یہ فنکار نہ صرف اپنی اداکاری کی تکنیک میں مہارت رکھتا تھا بلکہ اپنی موجودگی سے ہر منظر کو وقار عطا کرتا تھا۔ 17 اگست 2025ء کو 87 برس کی عمر میں زندگی کی ایک بھرپور اننگز کھیلنے کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہو گئے تو انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہم نے بھی یہ ایک سعی کی ہے۔

ٹیرنس ہنری اسٹیمپ، پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے، 22 جولائی 1938 کو لندن کے مشرقی علاقے اسٹیپنی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایتھل ایستر (1914–1985) اور والد تھامس اسٹیمپ (1913–1982) تھے، جو پیشے کے اعتبار سے ٹگ بوٹ پر اسٹوکر (کشتی کو چلانے والے انجن کی بھاپ کے لئے کوئلہ ڈالنے والا مزدور) کے طور پر کام کرتے تھے۔ بچپن کے ابتدائی سال انہوں نے کینال روڈ، باؤ کے علاقے میں گزارے، لیکن بعد میں خاندان نے پلیسٹو، ویسٹ ہیم، ایسیکس (جو اب گریٹر لندن میں شامل ہے) کے 124 چیڈون روڈ پر رہائش اختیار کی۔ یہیں ٹیرنس نے پلیسٹو کاؤنٹی گرامر اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اسٹیمپ کے والد اکثر طویل عرصے تک مرچنٹ نیوی کی ملازمت کے باعث گھر سے دور رہتے تھے، اس لیے ان کی پرورش زیادہ تر ماں، نانی اور خالاؤں نے کی۔

کم عمری ہی میں ان کا جھکاؤ فلموں کی جانب ہو گیا۔ محض تین برس کی عمر میں، جب ماں اسے 1939 کی فلم Beau Geste دکھانے لے گئی، تو گیری کوپر ان کا آئیڈیل بن گیا۔ لندن میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران انہوں نے اپنے بچپن کے دن بمباری اور بلیک آؤٹ کے سائے میں گزارے۔ بعد ازاں فلم Valkyrie کے لیے ڈائریکٹر برائن سنگر کو اس منظر کی ترتیب میں مشورہ بھی دیا، جس میں وون اسٹافن برگ خاندان اتحادیوں کی بمباری سے بچنے کے لیے چھپتا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیرنس نے لندن کی مختلف اشتہاری کمپنیوں میں ملازمت کی اور رفتہ رفتہ ایک معقول تنخواہ پانے لگے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط میں انہوں نے وانسٹیڈ گالف کلب میں پیشہ ور گالفر ریگ نائٹ کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اپنی سوانح Stamp Album میں انہوں نے اس دور کو اپنی زندگی کا خوشگوار زمانہ قرار دیا۔

ہالی وڈ سٹار ٹیرنس اسٹیمپ نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں لندن کے مزدور طبقے سے اٹھ کر فلمی صنعت تک کا سفر طے کیا۔ یہ سفر آسان نہ تھا مگر ان کی صلاحیتیں یہ راہ ہموار کرتی گئیں۔ 1962ء میں جب انہوں نے اپنی پہلی بڑی فلم Billy Budd میں کام کیا تو فلمی دنیا کو ایک نیا چہرہ ملا، ایک ایسا اداکار جس کے لب و لہجے، انداز اور آنکھوں کی کہانی سب پر اثر ڈالتی تھی۔

اس کردار نے انہیں نہ صرف عالمی سطح پر متعارف کروایا بلکہ اْسی فلم پر انہیں اکیڈمی ایوارڈ کی نامزدگی اور گولڈن گلوب جیتنے کا اعزاز ملا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب فلمی نقادوں نے اعلان کیا کہ یہ نوجوان مستقبل میں بڑا مقام حاصل کرے گا۔ اگلے برسوں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔ 60ء کی دہائی میں اسٹیمپ کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ Teorema، Crowd، From the Madding، Blaiseجیسی فلموں نے انہیں بین الاقوامی شہرت بخشی۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اسٹیمپ کسی مخصوص دائرے تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔ وہ کرداروں کی تلاش میں سرحدیں عبور کرتا رہے۔

70ء کی دہائی کے اختتام پر جب ہالی ووڈ میں سپرہیروز کا زمانہ شروع ہوا تو اسٹیمپ نے بھی اس دنیا میں قدم رکھا۔ 1978 اور 1980 میں ریلیز ہونے والی فلموں Superman اورII Superman میں انہوں نے جنرل زوڈ کا کردار ادا کیا۔ یہ کردار ان کی شناخت کا ایک لازوال حصہ بن گیا۔ اس کردار میں اسٹیمپ نے جو کرشمہ دکھایا، وہ آج بھی سپر ہیرو فلموں کے چاہنے والوں کے لیے ایک حوالہ ہے۔

وقت گزرتا گیا، فلمی صنعت بدلتی رہی، لیکن اسٹیمپ کا جادو کم نہ ہوا۔ نوّے کی دہائی میں انہوں نے ایک ایسا کردار نبھایا جو ان کے فن کی وسعت کا ایک نیا باب ثابت ہوا۔ The Adventures of Priscilla, Queen of the Desert میں انہوں نے Bernadette کا کردار ادا کیا، جو ایک ٹرانس ویمن ہے۔ یہ کردار ان کے لیے ایک چیلنج تھا مگر اسٹیمپ نے اسے اس مہارت سے نبھایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ اس کردار پر انہیں گولڈن گلوب اور بافاٹا ایوارڈز کی نامزدگیاں ملیں۔ اس فلم نے نہ صرف اس کی اداکاری کے نئے پہلو سامنے لائے بلکہ اسے ایک ایسے فنکار کے طور پر منوایا جو کسی بھی حد تک جا کر کردار میں ڈھل سکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ٹیرنس کی توانائی کم نہ ہوئی۔

Big Eyes، Song for Marion اور Last Night in Soho جیسی فلموں میں ان کی موجودگی نے ثابت کیا کہ عمر کے کسی بھی حصے میں فن کی چمک مدھم نہیں ہوتی۔ خاص طور پر Last Night in Soho جو ان کی آخری نمایاں فلم تھی، میں انہوں نے ایک بار پھر اپنی گہری اور پراثر اداکاری سے ناظرین کو متاثر کیا۔

ٹیرنس اسٹیمپ کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف فلمی دنیا کو اپنے کام سے مالا مال کیا بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کیا۔ وہ ایک ایسا اداکار تھا جو کردار میں ڈھلنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا، اور یہی اس کی اصل پہچان ہے۔ اس کی آنکھوں کی گہرائی میں چھپے جذبات، مکالموں میں چھپا وزن اور جسمانی زبان میں چھپی ہوئی نفاست نے اسے ایک لازوال فنکار بنا دیا۔ آج جب ہم اس کے فلمی سفر پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک عہد تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔

ہالی وڈ کے ’’ولن‘‘ کی پیشہ وارانہ زندگی کے اعدادوشمار
ہالی وڈ کے ’’ولن‘‘ نے اپنے فنی سفر کا آغاز اگرچہ 50ء کی دہائی میں کر دیا تھا، لیکن شوبز کی دنیا میں ان کی پہلی باقاعدہ انٹری 21 برس کی عمر میں ایک تھیٹر The Long and the Short and the Tall سے ہوئی، جو 1959ء میں پیش کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے 1960ء میں ایک اور تھیٹر This Year, Next Year کرنے کے بعد دنیائے فلم میں خود کو آزمانے کا فیصلہ کیا، تاہم یہاں ہم بتاتے چلیں کہ انہوں نے مجموعی طور پر 5 تھیٹرز میں کام کیا۔

1962ء میں ان کی فلم Billy Budd کے نام سے ریلیز ہوئی، جسے شائد توقعات کے بھی برعکس اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہوئی، جس کے بعد اداکار نے ہالی وڈ کی دنیا میں کئی شاہکار فلموں جیسے Wall Street، Superman ، Billy Budd، The Adventures of Priscilla, Queen of the Desert، Young Guns، Alien Nation، Full Frontal، The Limey، Star Wars: Episode I – The Phantom Menace اور Last Night in Soho میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

چھوٹی سکرین کی بات کریں تو انہوں کل 7 ٹیلی ویژن پروگرامز یا ڈراموں میں کام کیا، ان کے علاوہ وہ 5 ویڈیو گیمز میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ٹرینس اسٹیمپ کے 6 دہائیوں سے زائد طویل عرصہ پر محیط شاندار کیرئیر کے دوران انہیں شوبز کے ہر پلیٹ فارم پر عزت بخشی گئی، انہیں ناصرف دنیائے فلم کے سب سے بڑے اعزاز اکیڈمی یعنی آسکر کے لئے نامزد کیا گیا بلکہ گولڈن گلوب، کانز فلم فیسٹیول، بافٹا، انڈیپنڈنٹ اسپِرٹ، سیٹل انٹرنیشنل فلم فیسٹیول اور بیجنگ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول ایوارڈ سے نوازا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیرنس اسٹیمپ میں انہوں نے ا نکھوں کی اسٹیمپ نے کی گہرائی میں ان کی کی دہائی دنیا میں ایک ایسا ہالی وڈ میں ایک بلکہ ا کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار

دوحہ(نیوز ڈیسک) نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دیناہوگا کیونکہ اسرائیل کی اشتعال انگیزی سے واضح ہے وہ ہر گز امن نہیں چاہتے۔

تفصیلات کے مطابق نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ حملہ مکمل طور پر غیر متوقع اور ناقابل قبول اقدام ہے، ایک خودمختار ملک پر حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ایک واضح لائحہ عمل سامنے لایا جائے، دنیا کو اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا۔

پاکستان کے کردار سے متعلق سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ برادر ملک قطر کے ساتھ کھڑے ہوکر فعال کردار ادا کیا ہے۔ او آئی سی فورم سے اسرائیل کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی اور قطر پر حملے کے بعد ہم نے صومالیہ کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کے ہنگامی اجلاس کی درخواست بھی دی ہے۔

غزہ اور فلسطین کی صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام انتہائی مشکل وقت گزار رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ وہاں غیر مشروط جنگ بندی ہونی چاہیے، اسرائیل کی اشتعال انگیزی سے یہ واضح ہے کہ وہ کسی صورت امن نہیں چاہتے۔

نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے پرامن حل کی حمایت کی ہے، میرے نزدیک مسائل کے حل کے لیے مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں، مگر اس کے لیے سب کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے کردار کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات پر اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، اس ادارے میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ عالمی امن کے حوالے سے اس کا کردار مؤثر ہوسکے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بطور ایٹمی قوت پاکستان امتِ مسلمہ کے ساتھ کھڑا ہے، ہمارے پاس مضبوط فوج اور بہترین دفاعی صلاحیتیں موجود ہیں، ہم کسی کو بھی اپنی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔

بھارت کے حوالے سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا تاہم بھارت سےکشمیرسمیت تمام مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کا مقصد فلسطینیوں کی جبری مہاجرت ہے، اردن
  • شوبز انڈسٹری بدل گئی ہے، اب ڈرامے بنا کر خود کو لانچ کیا جارہا ہے، غزالہ جاوید کا انکشاف
  • بحری مفادات کے تحفظ میں نیوی کا کردار قابل ستائش ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • ادارۂ ترقیات شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے‘ آصف جان صدیقی
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)
  • صیہونی عہدیداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، رجب طیب اردگان
  • ہم اپنی خودمختاری کے دفاع کیلئے جوابی اقدام کیلئے پُرعزم ہیں، امیر قطر