WE News:
2025-11-03@10:31:49 GMT

سندھ: تہذیب کا گہوارہ، پاکستان کی روح

اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT

سندھ: تہذیب کا گہوارہ، پاکستان کی روح

سندھ کی تہذیبی تاریخ 5 ہزار سال پر محیط ہے۔ یہ نہ صرف برصغیر کی شہری تمدن کی جائے پیدائش ہے بلکہ پاکستان کی ثقافتی بنیاد بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھی ثقافت سے جڑا قدیم ہنر، اجرک کی تیاری کے 16 مراحل

قدیم سندھ کی سرزمین جہاں انڈس ویلی تہذیب نے جنم لیا آج بھی پاکستان کی پہچان اور اصل سے جڑنے کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔

موئن جو دڑو جیسے تاریخی شہر ہمیں اس عظیم تمدن کی جھلک دکھاتے ہیں جو آج بھی ہماری قومی شناخت میں زندہ ہے۔

سندھ کی صوفی روایت، خاص طور پر حضرت لعل شہباز قلندر اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزارات، ملک بھر سے لاکھوں زائرین کو روحانی سکون فراہم کرتے ہیں اور قومی یکجہتی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیے: کراچی: 150 سالہ قدیم برگد کے درخت کی کامیاب بحالی

کراچی سندھ کا دل ہے جہاں مختلف زبانوں، ثقافتوں اور برادریوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کا محرک ہے۔ یہ شہر سندھ کی ہمہ جہتی اور پاکستان کے روشن مستقبل کا مظہر ہے۔

سندھ کسی علیحدہ شناخت کی کوشش نہیں بلکہ ایک ایسا خطہ ہے جو اپنی تاریخ، شاعری، تصوف اور تنوع سے پاکستان کی وحدت کو مضبوط کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: وادی سندھ کی تحریریں سمجھنے پر ایک ملین ڈالر انعام کا اعلان، مگر ان کو سمجھنا مشکل کیوں؟

یہ سرزمین صرف قدیم آثار یا روحانی مراکز کی وجہ سے اہم نہیں بلکہ آج کے پاکستان میں اس کا کردار ایک زندہ، متحرک اور پرامن معاشرے کے نمونے کے طور پر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سندھ قدیم تہذیب کا گہوارہ سندھ قدیم سندھ کراچی موئن جو دڑو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کراچی موئن جو دڑو پاکستان کی سندھ کی

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • نمبر پلیٹس کی تبدیلی،گاڑی مالکان کو مزید دو ماہ کی مہلت مل گئی
  • سندھ میں نمبر پلیٹس کی تبدیلی کی ڈیڈ لائن میں مزید توسیع
  • سندھ میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس بنوانے کی تاریخ میں مزید 2 ماہ کی توسیع
  • سندھ : گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی میں مزید 2 ماہ کا اضافہ  
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • سندھ میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی میں مزید توسیع کردی گئی
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم