Al Qamar Online:
2025-11-03@10:03:28 GMT

سیلاب میں اجڑے گھر، ڈوبے خواب اور قرض کی زنجیریں

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

سیلاب میں اجڑے گھر، ڈوبے خواب اور قرض کی زنجیریں



لاہور:

سیلاب کی تباہ کاریوں نے جہاں کھیت کھلیانوں کو روند ڈالا وہیں بہت سے لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی بھی چند ہی لمحوں میں مٹی اور پانی میں دفن ہوگئی۔

لاہور میں موہلنوال کے قریب ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں وہ گھر جو خوشیوں کے خوابوں سے آباد کیے گئے تھے، آج شکستہ دیواروں، گرے ہوئے دروازوں اور پانی میں ڈوبے سامان کے ساتھ ویران کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ان مکینوں کے دکھ صرف سامان اور مکان کے نقصان تک محدود نہیں بلکہ ان پر قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی ایسا ہے جو ان کے کاندھوں پر اور زیادہ بھاری محسوس ہوتا ہے۔

بشارت بی بی نے چند روز پہلے ہی اپنے خوابوں کا گھر مکمل کیا تھا۔ خوشی اتنی زیادہ تھی کہ گھر میں دعا کروانے کی تیاری ہو رہی تھی لیکن قدرت کی بے رحم آفت نے ان کی خوشیاں چھین لیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں جب وہ بتاتی ہیں کہ 10 اگست کو گھر مکمل ہوا، ابھی دعا کروانی تھی کہ سیلاب نے سب کچھ اجاڑ دیا۔

بشارت بی بی کے شوہر جو رکشہ چلاتے ہیں، گھر کی رنگ و روغن کے دوران گر کر زخمی ہوگئے۔ بازو فریکچر ہے اور کام بھی رکا ہوا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ گھر انہوں نے "اپنی چھت اپنا گھر” اسکیم کے تحت اخوت سے قرض لے کر بنایا تھا۔ پہلی قسط ابھی ادا بھی نہ ہوئی تھی کہ گھر پانی میں بہہ گیا۔ بشارت بی بی کی آواز میں بے بسی صاف جھلکتی ہے اب نہ گھر ہے نہ سامان، اور قرض بھی واپس کرنا ہے۔

ندیم اقبال اور ان کے بھائیوں کا دکھ بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ برسوں کی محنت، پسینے اور جمع پونجی کو یاد کر کے ٹوٹے دل سے کہتے ہیں ہم نے زندگی بھر کی کمائی خرچ کر کے یہ گھر بنایا تھا لیکن سیلاب نے سب خواب اور ساری خوشیاں برباد کر دیں۔ ان کے گھر میں اب بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور وہ بے بسی سے اپنی کھڑکیوں کے باہر لہروں کو دیکھتے رہتے ہیں۔

محمد جہانگیر کے گھر سے اگرچہ پانی اتر چکا ہے مگر تباہی کی داستانیں وہاں ہر کونے میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کے دروازے کیچڑ میں اٹے ہوئے ہیں، فرنیچر سوج کر ٹوٹ چکا ہے، پانی کی موٹر اور برقی آلات ناکارہ ہو گئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب سیلابی پانی آیا تو پولیس اور حکام نے سب کو گھر سے نکال دیا اور کسی کو کچھ ساتھ لینے کی اجازت نہ دی۔ جہانگیر کی والدہ چھت پر بیٹھی اپنی بیٹی کے جہیز کا سامان دھوپ میں سکھا رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ کپڑوں پر رگڑتے ہیں مگر آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں بیٹی کے جہیز کا سامان خریدا تھا، سب خراب ہوگیا۔ کچھ چیزیں تو چوری بھی ہو گئیں۔

جہانگیر دکھ بھری آواز میں بتاتے ہیں کہ ان کا سولر سسٹم کا انورٹر بھی کوئی اٹھا کر لے گیا۔ یہ صرف انہی کا نہیں، بلکہ علاقے کے کئی رہائشیوں کا حال ہے جو نہ صرف سیلاب سے محرومی کے زخم سہہ رہے ہیں بلکہ چوریوں کا دکھ بھی جھیل رہے ہیں۔

یہ کہانیاں ان سیکڑوں گھروں کی ہیں جو  نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قرض لے کر تعمیر کیے گئے تھے۔ اب جب پانی نے اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے تو مکین نہ صرف اپنے اجڑے گھروں کو دیکھ کر دکھی ہیں بلکہ قرضوں کی قسطیں لوٹانے کی فکر نے انہیں مزید کچل دیا ہے۔

یہ لوگ اب حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ہماری آواز سنیں۔ ہم نے خواب دیکھے تھے، محنت کی تھی، قرض لے کر اپنے بچوں کے لیے چھت بنائی تھی مگر سب کچھ ختم ہوگیا۔ کم از کم ہمارے قرض معاف کر دیے جائیں تاکہ ہم دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔

یہ انسانی المیہ صرف تباہ گھروں کا نہیں، بلکہ ٹوٹے خوابوں، بہتے جہیز، ملبے تلے دبے مستقبل اور قرض کی زنجیروں میں جکڑے ان لوگوں کا ہے جنہیں اب بھی امید ہے کہ شاید ریاست ان کی آواز سنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے راوی ستلج اور چناب میں سیلاب کے 33 سو سے زائد موضع جات  میں 33 لاکھ 63 ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب میں پھنس جانے والے 12 لاکھ 92 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان رہے ہیں ہیں کہ

پڑھیں:

جاپانی کمپنی نے پیٹ کی چربی ختم کرنے والا پانی متعارف کرادیا

جاپانی کمپنی Suntory نے ایک ایسا ’فنکشنل واٹر‘ متعارف کرایا ہے جو پیٹ کی چربی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 

اس پانی میں HMPA نامی ایک مالیکیول شامل ہے جو چاول کے بھوسے کے تخمیر سے بنتا ہے۔یہ پروڈکٹ جاپان کے قانون کے تحت منظور شدہ ہے، یعنی اسے صحت سے متعلق فوائد کے ساتھ تشہیر کرنے کی اجازت ہے۔ 

یہ خاص طور پر اُن افراد کے لیے ہے جنہیں پیٹ کی چربی جمع ہونے کا مسئلہ ہے، جیسے دفتر میں کام کرنے والے اور غیر مستحکم طرزِ زندگی والے افراد۔ 

تاہم اگرچہ دعویٰ ہے کہ یہ پانی اندرونی چربی کم کرسکتا ہے، مگر یہ معجزاتی حل نہیں ہے۔ طرزِ زندگی اور غذائی عادات کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ اس طرح کے “پروڈکٹس” سے متعلق  دعوے ہوتے ہیں مگر تمام افراد پر اس کا یکساں اثر ہو، اس کی ضمانت نہیں ہوتی۔

متعلقہ مضامین

  • تہران کو پانی فراہم کرنیوالے مرکزی ڈیم میں صرف 2 ہفتوں کا پانی باقی رہ گیا
  • تاریخی خشک سالی، تہران میں پینے کے پانی کا ذخیرہ 2 ہفتوں میں ختم ہوجائے گا
  • جاپانی کمپنی نے پیٹ کی چربی ختم کرنے والا پانی متعارف کرادیا
  • گورنر پنجاب کی کسانوں سے ملاقات، سیلاب سے متاثرہ فصلوں اور مالی مشکلات پر تبادلہ خیال
  • پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ’اینٹی اسموگ گنز‘ کا استعمال
  • ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
  • لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 
  • ویتنام: بارش اور سیلاب سے ہلاکتوں میں اضافہ‘ 11 افراد لاپتا
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا