Express News:
2025-09-17@22:48:00 GMT

نیا عالمی نظام

اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا واضح طور پر دو عالمی طاقتوں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان تقسیم ہو چکی تھی۔ یہ دونوں ممالک جو دوسری عالمی جنگ میں بظاہر جرمنی و جاپان کے خلاف اتحادی تھے۔ بعدازاں اپنی اپنی طاقت کے نشے میں ڈوب کر ایک دوسرے پر اپنی حاکمیت و برتری ثابت کرنے کے لیے برسر پیکار ہو گئے۔

امریکی سرپرستی میں مغربی و یورپی ممالک نے اپنا بلاک بنا لیا اور سوویت یونین کی آشیرباد سے مشرق وسطیٰ و ایشیا کے بعض ممالک نے اس کی چھتری تلے عافیت تلاش کرکے دوسرا بلاک تشکیل دے دیا۔ اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جغرافیائی، سیاسی تناؤ، فوجی مسابقت، نظریاتی کشمکش اور پراکسی جنگیں اور برتری کی دراڑ معمول کے مطابق جاری رہی لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کبھی براہ راست جنگ نہیں ہوئی۔

اسی نسبت اور حوالے سے دونوں بڑے ممالک کے درمیان رسہ کشی کی صورت حال کو عالمی سیاسی منظرنامے میں ’’سرد جنگ‘‘ سے تعبیر کیا جانے لگا۔ 80 کی دہائی میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں مداخلت اور افغانوں کی جرأت مندانہ مزاحمت کے باعث اس کی شکست پھر سوویت یونین کے داخلی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل نے اس کی عالمی طاقت ہونے کا پرچم سرنگوں کر دیا۔ سوویت جمہوریاؤں نے اپنی اپنی آزادی کا پرچم بلند کرکے سوویت یونین کی سپرپاور کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور سوویت یونین کے بطن سے روس نے جنم لیا۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپرپاور بن کر اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرکے دنیا کو اپنا تابع بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور ایران جیسے مسلم ممالک میں اپنے گماشتوں کے ذریعے اصل حاکموں کو اقتدار سے بے دخل کرکے اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں۔ اپنے بغل بچہ اسرائیل کی پشت پناہی کرکے لبنان اور فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کا محرک بن رہا ہے۔

امریکا کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے خلاف کوئی ملک عالمی اتحاد مضبوط قدموں کے ساتھ اس کے مقابل کھڑا ہو جس کی دفاعی، فوجی، معاشی اور علاقائی طاقت بھی مسلمہ ہو اور امریکا کے لیے اسے چیلنج کرنا آسان نہ ہو۔ چین اور روس کی پرجوش سرپرستی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں وہ اتحاد اب ابھرتا، مربوط و مضبوط ہوتا اور امریکا کے واحد عالمی طاقت ہونے کے غرور کو چیلنج کرتا ہوا نظر آ رہا ہے جس کے اثرات سے امریکا و یورپ لامحالہ متاثر ہوں گے۔

چین کے شہر تیانجن میں حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد تیان من اسکوائر میں ایک شان دار فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا جس میں روسی صدر پیوٹن، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سمیت 25 ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔

فوجی پریڈ میں چین نے جدید ہتھیاروں کو نمائش کے لیے پیش کرکے دنیا کو یہ بتا دیا کہ ماضی کے مقابلے میں آج کا چین معاشی و دفاعی اور فوجی و جنگی لحاظ سے مضبوط ترین قوت بن چکا ہے اور امریکا کے لیے اسے چیلنج کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چینی عوام نے بے پناہ قربانیاں دے کر انسانی تہذیب کے تحفظ اور عالمی امن کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام عالم جنگ کی جڑوں کو ختم کریں۔

انھوں نے واضح طور پر کہا کہ دنیا امن اور جنگ کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ دنیا کو امن یا جنگ میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا، چینی عوام امن کے لیے پرعزم اور تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہیں۔ چینی صدر نے موجودہ عالمی منظر نامے کے تناظر میں بجا طور پر کہا کہ ایسا عالمی نظام چاہتے ہیں جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہو۔ انھوں نے امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ چین اب رکنے والا نہیں اور نہ ہی ہم بدمعاشوں سے خوف زدہ ہوں گے۔ چینی صدر شی جن پنگ بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات اور امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم اور کمزور ملکوں کو اپنی فوجی طاقت سے ڈرا دھمکا کر اپنا دست نگر بنانے کی امریکی پالیسی سے بخوبی آگاہ ہے۔

اسی تناظر میں انھوں نے کہا کہ چین جتنا بھی مضبوط ہو جائے لیکن توسیع پسندانہ راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ بنی نوع انسان کی ترقی و امن ہمارا نصب العین ہے۔

چین میں ایس سی او اجلاس کے بعد امریکا و یورپ میں کھلبلی مچ گئی ہے جو ناقابل فہم نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پیوٹن، شی جن پنگ اور کم جونگ امریکا کے خلاف سازش کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جب کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کا موقف ہے کہ نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے۔ بجا طور پر ایسا ہی ہے چین اور روس کی سرپرستی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو نیا عالمی نظام معرض وجود میں آ رہا ہے وہ امریکا اور یورپ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور سوویت یونین سوویت یونین کی سوویت یونین کے اور امریکا کے عالمی نظام کے درمیان کے بعد کہا کہ رہا ہے

پڑھیں:

اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) ہر سال 16 ستمبر کو اقوام متحدہ اوزون کی تہہ میں شگاف کو ختم کرنے اور کرہ ارض کو تحفظ دینے کے اقدامات پر توجہ دلانے میں عالمی برادری کی کامیابی کا دن مناتا ہے۔۔

گزشتہ صدی میں سائنس دانوں نے اس تشویشناک حقیقت کی تصدیق کی تھی کہ اوزون کی تہہ میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ یہ گیس کی نظر نہ آنے والی تہہ ہے جس نے زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور اسے سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے تحفظ دیتی ہے۔

Tweet URL

اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں کے مجموعے میں 'سی ایف سی' یعنی کلورو فلورو کاربن بھی شامل ہیں جو 1980 کی دہائی کے وسط میں روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسا کہ ایئر کنڈیشنر، فریج اور ایروسول کین میں عام پائے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

سائنس نے اوزون گیس کی تہہ کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کی راہ ہموار کی۔ جب یہ احساس ہوا کہ نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعیں ممکنہ طور پر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچنے کے باعث فضا میں داخل ہو رہی ہیں تو رکن ممالک نے 1985 میں ویانا کنونشن کے تحت یہ عہد کیا کہ وہ لوگوں اور زمین کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔

انتونیو گوتیرش نے امسال عالم یوم اوزون پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج اوزون کی تہہ میں شگاف پُر ہو رہے ہیں جبکہ ویانا کنونشن اور اس کا مونٹریال پروٹوکول اس معاملے میں کثیرالفریقیت کی کامیابی کی تاریخی مثال بن گئے ہیں۔

ویانا کنونشن کیا ہے؟

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ چالیس سال پہلے رکن ممالک نے سائنس کی رہنمائی میں اور مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے اوزون کی تہہ کے تحفظ کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔

اوزون کی تہہ کے تحفظ کے لیے منظور کردہ ویانا کنونشن اس معاملے میں عالمگیر تعاون کو باضابطہ شکل دیتا ہے۔ یہ کنونشن 22 مارچ 1985 کو 28 ممالک کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔

یہ پہلا معاہدہ ہے جس پر دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کیے اور اسی کے نتیجے میں مونٹریال پروٹوکول بنایا گیا ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کا مقصد ان مادّوں کی عالمی سطح پر پیداوار اور استعمال کی نگرانی کرنا ہے جو اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

کثیر الفریقی تعاون کی بہترین مثال

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام(یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے اس دن پر اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ کنونشن کے تحت کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادے اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور اس کی تہہ میں موجود سوراخ بند ہو رہا ہے۔

جب سائنسدانوں نے اس معاملے میں خطرے کی گھنٹی بجائی تو رکن ممالک اور کاروباری ادارے اکٹھے ہوئے اور زمین کی حفاظت کے لیے عملی قدم اٹھایا جو کہ کثیرالملکی تعاون کی بہترین مثال ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کی بدولت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں اوزون کی تہہ کو مضبوط بنانے کے معاملے میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے اور زیادہ تر ممالک نے نقصان دہ مادّوں کی پیداوار بند کرنے کے لیے مقرر کردہ وقت میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی یاد دلاتی ہے کہ جب رکن ممالک سائنس کے انتباہات پر دھیان دیتے ہیں تو ترقی ممکن ہوتی ہے۔

کیگالی ترامیم کی اہمیت

سیکرٹری جنرل نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مونٹریال پروٹوکول میں شامل کیگالی ترمیم کی توثیق اور اس پر عملدرآمد کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیگالی ترمیم پر عملدرآمد اس صدی کے آخر تک عالمی حدت میں 0.5 ڈگری سیلسیئس تک اضافے سے بچا سکتا ہے۔

اگر اسے توانائی کی بچت کرنے والی کولنگ ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑا جائے تو ان فوائد کو دوگنا بڑھایا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ پیرس معاہدے میں واضح کیا گیا ہے، رکن ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اوزون کے اس عالمی دن پر سبھی کو یہ گیس محفوظ رکھنے اور انسانوں اور زمین کے تحفظ کے عزم کو دہرانا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے
  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • رکن ممالک اسرائیل کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں، یورپی کمیشن
  • رکن ممالک اسرائیلی کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزراء پر پابندی عائد کریں،یورپی کمیشن
  • رکن ممالک اسرائیلی کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں؛ یورپی کمیشن
  • عالمی تنازعات میں اموات کا بڑا سبب کلسٹر بم، یو این رپورٹ
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو 
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی