اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران ججز اور وکلا کے درمیان بحث میں سخت سوالات سامنے آئے۔
 

سپر ٹیکس پر دورانِ سماعت عدالت میں ججز اور وکلا کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا جس میں ٹیکس کی نوعیت، اس کے اثرات اور ٹیکس دہندگان میں تفریق پر مختلف پہلوؤں پر بحث ہوئی۔

ایف بی آر کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سابقہ عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سپر ٹیکس صرف ان اداروں پر لاگو کیا گیا ہے جن کی آمدن 300 ملین روپے سے زائد ہے۔ یہ ٹیکس 15 منتخب شعبوں پر لگایا گیا ہے اور کسی کمپنی نے اب تک مالی استطاعت نہ ہونے کا جواز پیش نہیں کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان نے ٹیکس دہندگان میں تفریق کیوں رکھی؟ ٹیکس کا بنیادی مقصد حکومتی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے مگر ایسے اقدامات سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلوں میں ٹیکس کی تفریق کی وجوہات واضح نہیں کی گئیں اور اس خلا کو پر کرنا ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹیکس کا اصل بوجھ بالآخر صارف اور عام آدمی پر ہی منتقل ہوتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ چاہے سیمنٹ کی بوری ہو یا ایل این جی کا ایک بوجھ، اثر عوام ہی پر پڑتا ہے۔ عوام کے لیے سہولتیں پیدا کی جائیں گی تو کاروبار آگے بڑھے گا، بصورت دیگر مشکلات برقرار رہیں گی۔

وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے سناتے وقت کوئی ڈیٹا طلب نہیں کیا۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ مقدمہ صرف اتنا ہے کہ آخر ٹیکس دہندگان میں فرق کیوں رکھا گیا اور اس سوال کا تسلی بخش جواب دیا جانا لازمی ہے۔

دوران سماعت یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس کی تعریفیں الگ ہیں اور یہ ٹیکس دیگر محصولات کے ساتھ ہی متعارف کرایا گیا تھا،  تاہم ججز نے زور دیا کہ جب تک پالیسی کی وجوہات واضح نہ ہوں، ٹیکس دہندگان میں تفریق کی قانونی حیثیت سوالیہ نشان رہے گی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سپر ٹیکس سے متعلق اہم مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکس دہندگان میں سپر ٹیکس ٹیکس کی کہا کہ

پڑھیں:

کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ

کراچی:

گجر، اورنگی اور محمود آباد کے نالہ متاثرین نے حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر حربے آزمانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے  گجر، اورنگی، محمود آباد کے نالہ متاثرین نے کہا کہ پلاٹ کی الاٹمنٹ تک ہر خاندان  کو 30 ہزار روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے اور ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہوسکے ۔

نالہ متاثرین نے متاثرین نے سپریم کورٹ سے عدالتی حکم کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ نہ دینے، تعمیراتی رقم میں اضافے اور پلاٹ کی الاٹمنٹ تک کرائے کی ادائیگی کے مطالبات کردیے اور کہا کہ انہیں اب تک ان کا حق نہیں دیا گیا اور حکومت کی غفلت، افسران کی بدعنوانی اور انصاف کی نفی کے خلاف عدالت عظمیٰ سےنوٹس لینے کی اپیل کردی۔

کراچی بچاؤ تحریک کے تحت خرم علی نیئر، عارف شاہ اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ  پانچ سال قبل 2020 کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے بعد کراچی کو جو نقصان پہنچا، اس کا گزشتہ برسوں کے دوران سارا ملبہ کچی آبادیوں پر ڈالا گیا، 2021 میں گجر، اورنگی اور محمودآباد نالوں کے اطراف کے ہزاروں مکان مسمار کیے گئے اور تقربیاً 9 ہزار سے زائد گھروں کی تباہی سے 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ گجر نالے کے عوام کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے کم سے کم عدالت نے ان متاثرین کو دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ دیا اور جب تک انہیں آباد نہیں کیا جاتا انہیں کرایہ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا مگر متاثرین کو فقط دسمبر 2023 تک کرائے جاری کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے آخری حکم نامے میں ہر متاثرہ خاندان  کو ہر مسمار مکان کے عوض 80 گز کا پلاٹ اور تعمیراتی رقم جاری کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر  حکومت سندھ نے محض معمولی تعمیراتی رقم جاری کی، جس سے ایک کمرہ بنوانا مشکل تھا جبکہ پلاٹ 2027 تک دینے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

 متاثرین نے مطالبہ کیا کہ فی خاندان30 ہزار  روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے، جب تک پلاٹ الاٹ اور تعمیر ممکن نہ ہو اس وقت تک ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو دو ہزار سے زائد شکایات خارج کی گئیں ان کا فوری اندراج کیا جائے اور اندراج کا عمل مکمل طور پر شفاف اور عوامی نگرانی میں ہو، نیز  پلاٹس 90 دن کے اندر الاٹ کیے جائیں اور متبادل اراضی فراہم کی جائے۔

 متاثرین نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کا فوری نفاذ یقینی بنایا جائے، عدالت نے جو 80 گز پلاٹ اور تعمیراتی معاوضہ طے کیا تھا، اس میں کسی قسم کی تاخیر یا من مانی قبول نہیں ہوگی۔

مزید کہا کہ جو لوگ بے گھر ہونے کے نتیجے میں دل کے دورے پڑنے یا حادثات میں ہلاک ہوئے، ان کے لواحقین کو مناسب معاوضہ اور سرکاری امداد دی جائے اور تمام چیک کا اجرا، پلاٹ الاٹمنٹ اور اندراج کا عمل آن لائن شفاف ریکارڈ میں ڈال دیا جائے اور متاثرین اور سول سوسائٹی کی مستقل نگرانی ممکن بنائی جائے۔

متاثرین نے کہا کہ اگر ان مطالبات کو ایک ہفتے تک پورا نہیں کیا گیا تو کراچی بچاؤ تحریک متعلقہ قانونی راستوں کے ساتھ ساتھ پر امن مگر سخت عوامی احتجاج، دھرنے اور سڑکوں پر مؤثر تحریک شروع کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی اپیل کریں گے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدام کرے اور حکومت اور بیوروکریسی کو  نوٹس جاری کرے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں، سہیل لغاری رجسٹرار تعینات 
  • کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • گورنرسندھ اور اسپیکر کے درمیان اختیارات کا تنازع، سپریم کورٹ 3 نومبر کو سماعت کرے گی
  • سپریم کورٹ میں تقرریاں، سیشن جج سہیل لغاری ڈیپوٹیشن پر رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتظامی تقرریاں، متعدد ڈپٹی رجسٹرارز کو اضافی چارجز تفویص
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: پاراچنار حملہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
  • پارا چنار حملہ کیس: راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ