اسلو:  ناروے  میں  قومی اسمبلی کے الیکشن 2025ء میں 3 پاکستانی نژاد امیدوار اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے منتخب ہو گئے۔

میڈیاذرائع کے مطابق لبرل پارٹی کی طرف سے عابد راجہ ضلعی حلقہ صوبے آکرہوس سے کامیاب ہوئے ہیں، مدثر کپور کنزرویٹو پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے ضلعی حلقہ اوسلو سے منتخب ہوئے جبکہ لبنیٰ جعفری لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے ضلعی حلقہ ہوردالینڈ سے منتخب ہوئی ہیں۔

مدثر کپور موجودہ حکومت کنزرویٹو ہائرے پارٹی کی طرف سے 2013ء سے 2025ء تک ایم این اے رہے ہیں، اس ٹرم میں وہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے بلدیات اور رابطہ سرکاری اداروں کی کمیٹی کے متحرک ممبر رہے۔

اب ہائرے نے کیپٹل اوسلو کی اپنی امیدوار لسٹ پر مدثر کپور کو 3 نمبر پر رکھا ہے، وہ کام سے کام رکھنے والے سیاستدان ہیں، میڈیا سے دور رہ کر کام کرتے ہیں، ان کی سیاست کا اسٹائل باتیں کم، کام پر زیادہ توجہ ہے۔

لبنیٰ جعفری ناروے کی سب سے بڑی پارٹی لیبر پارٹی کی ممبر ہیں، وہ لیبر پارٹی کی موجودہ حکومت میں وزیرِ مساوات اور ثقافت ہیں۔

لبنیٰ جعفری ضلع ہوردے لاند سے 2021ء میں لبیر پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی امیدوار منتخب ہوئی تھیں، 2025ء کے قومی اسمبلی انتخابات میں لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہ ضلعی حلقہ ہوردالینڈ سے منتخب ہوئی ہیں۔

لبنیٰ جعفری ایڈمنسٹریشن اینڈ آرگنائزیشن مضامین میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں، وہ لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی طور پر سرگرم ہونے کے ساتھ تارکینِ وطن، تعلقاتِ عامہ اور انٹیگریشن معاملات پر پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔

عابد راجہ کو وینسترے پارٹی نے صوبے آکرہوس کی امیدوار لسٹ میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: لیبر پارٹی پارٹی کی پارٹی کے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔

پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔

ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ  یعنی دسمبر اور جنوری  کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • بلدیاتی انتخابات، استحکام پاکستان پارٹی نے تیاریاں شروع کر دیں
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • امارات،سنگاپوراور ناروے اے آئی کے استعمال میں نمایاں، پاکستان بہت پیچھے
  • گورنر کے امیدوار کیلئے 8 ،10 نام؛ پارٹی فیصلہ کرے گی : گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی
  • مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی ملاقات
  • سندھ بار کونسل کا الیکشن؛ پیپلز پارٹی کے گڑھ میں صوبائی وزیر ہا گئے
  • اسلام آباد بار کونسل کے انتخابات میں انڈیپنڈنٹ گروپ کامیاب
  • بھارتی نژاد بینکم برہم بھٹ پر 500 ملین ڈالر کے فراڈ کا الزام، جعلی ایمیلز سے اداروں کو کیسے لوٹا؟