موسمیاتی تغیرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ترقی پذیر سے لے کر ترقی یافتہ ممالک تک سب بدلتے ہوئے موسموں سے کسی نہ کسی صورت متاثر ہو رہے ہیں۔ زلزلے، بارشیں اور سیلاب نے نہ صرف یہ کہ ملکوں کی معاشی سرگرمیوں کو بگاڑا ہے بلکہ عوام الناس کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں تباہی و بربادی سے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
بجا کہ قدرتی آفات انسانوں کے لیے آزمائشیں ہوتی ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس ہے کہ پیش آمدہ خطرات سے آگاہی حاصل کرکے اگر قبل از وقت اس کے تدارک کا سامان اور حفاظتی اقدامات کر لیے جائیں تو قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کی شدت نہ صرف کم ہو جاتی ہے بلکہ متاثر ہونے والے عام لوگوں کی مشکلات اور مسائل میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ حکمرانوں کی اولین ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ جن لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں ان کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق پالیسیاں بنائیں اور ایسی دیرپا منصوبہ بندی کریں کہ جن سے عوام الناس کو فیض پہنچے
۔ ہمارا المیہ اور دکھ یہ ہے کہ ہم اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت تو بن گئے، ہم نے جنگی میدان میں ایسی بے مثال مہارت حاصل کر لی کہ محض چار دن کی جنگ میں اپنے سے چار گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے پوری دنیا پر اپنی عسکری قوت کی دھاک بٹھا دی۔ لیکن سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اپنے ہم وطنوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے میں آج تک ناکام چلے آ رہے ہیں۔
ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا، خیبرپختونخوا سے لے کر گلگت بلتستان تک اور پنجاب سے لے کر صوبہ سندھ تک ہزاروں ایکڑ زمین سیلابی پانیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مون سون سیزن کی مسلسل بارشوں، بادلوں کے پھٹنے اور گلیشیئر کے پگھلنے سے سیلابی ریلوں نے گاؤں کے گاؤں پانیوں میں ڈبو دیے لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی بہہ گئی، کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں، کسانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے وقفے وقفے سے چناب، ستلج، راوی میں پانی چھوڑے جانے کے باعث سیلاب کی شدت میں تیزی آتی جا رہی ہے۔
پنجاب کا آدھے سے زائد حصہ پانیوں میں ڈوبا ہوا ہے بڑے شہروں کو بچانے کے لیے بند توڑ کر سیلابی پانی کو آس پاس کے گاؤں دیہات میں دھکیلا جا رہا ہے جس سے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے کچے مکانات پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ رابطہ سڑکیں، اسکول، کالج، بازار غرض ہر ایک شے اس بری طرح تباہ و برباد ہو گئی ہے کہ اس کی تعمیر نو میں بھی ایک عرصہ درکار ہوگا۔اخباری اطلاعات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے غریب لوگ کیمپوں میں بے سہارا و بے یار و مددگار کتنی مشکل زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، وفاقی اور پنجاب حکومت اپنے طور پر امدادی کاموں میں بساط بھر کوشش کر رہی ہے۔
پاک فوج کے دستے بھی سیلابی ریلوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ دیگر سماجی تنظیمیں بھی اپنے اپنے طور پر پنجاب کے مختلف علاقوں میں امدادی کام کر رہی ہیں۔ امریکا، چین اور دیگر ممالک سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان بھی آ رہا ہے۔ اس کے باوجود نقصانات اس قدر زیادہ اور ان کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ متاثرین سیلاب کی مکمل بحالی میں سالوں کا عرصہ درکار ہے۔
ماضی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ 2022 میں آنے والے سیلاب سے جو بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے تھے ان کا ازالہ آج تک نہ ہو سکا اور متاثرین آج بھی سوالیہ نظروں سے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مستقبل میں اگر ہم سیلابی تباہ کاریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے فوری طور چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کرنا ہوگا۔ متنازع ڈیموں کی تعمیر کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے۔ سات دہائیاں گزر گئیں حکمران اپنے لوگوں کو سیلابی پانیوں میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے کوئی جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی نہ کر سکے جو آج کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پانیوں میں کے لیے
پڑھیں:
سیلابی ریلوں سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (آن لائن) سیلابی ریلوں سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گڈو بیراج پر پانی کی آمد چھ لاکھ اور سکھر بیراج پر پانچ لاکھ کیوسک سے زیادہ ہے۔ ادھر کشمور گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ پنجاب سے آنے والا ریلا گڈو بیراج سے گزر رہا ہے۔ سیلاب سے گمبٹ کے کچے کے سینکڑوں علاقے زیر آب آگئے ہیں جس کے باعث سیلاب متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے ہیں جبکہ ضلع
انتظامیہ منظر عام سے غائب ہے۔ گڈو بیراج پر سیلابی صورتحال برقرار ہے۔ سندھ کے ضلع سجاول میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پاک بحریہ کا ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے۔ سیلاب متاثرین کو خوراک، عارضی رہائش اور طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ سورجانی بند پر پاک بحریہ کے جوانوں نے سیلاب متاثرین میں راشن، ٹینٹ اور روزمرہ ضروریات کا سامان تقسیم کیا۔ متاثرین کے علاج معالجے کے لیے میڈیکل کیمپ بھی قائم کیا گیا جہاں ماہر ڈاکٹرز نے مریضوں کو مفت ادویات اور صحت کی سہولت فراہم کی ہیں۔ شاہ بندر، کوکہ بند، منارکی اور کوٹ عالم سمیت متعدد متاثرہ علاقوں میں امدادی کیمپس قائم کیے گئے ہیں، جہاں سیلاب متاثرین کو عارضی پناہ فراہم کی جا رہی ہے۔ جبکہ کچے کے دور افتاہ علاقوں میں، جہاں زمینی راستے بند ہیں، وہاں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے خوراک اور امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔