نیپال اور پاکستان میں فرق
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
نیپال میں نوجوانوں نے حکومت کو اٹھا کر گھر بھیج دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ تیسرا ملک ہے جہاں اس طرح حکومت کو گھر بھیجا گیا ہے۔
سب سے پہلے سری لنکا میں ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کے بعد لوگوں نے ایوان صدر کی طرف مارچ کیا۔ اور سری لنکا کے صدر کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد وہاں بھی حکومت تبدیل ہوئی۔ بعدازاں ڈھاکہ میں بھی نوجو ان باہر نکلے اور انھوں نے حسینہ واجد کی حکومت کو گھر بھیج دیا اور حسینہ واجد کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اب نیپال میں بھی تقریباً یہی ہوا ہے۔
ہمارے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے دوستوں نے سب سے پہلے سری لنکا میں حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو سری لنکا بنانے کا بیانیہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ شاید آپ کو یاد ہو سب کہتے تھے پاکستان سری لنکا بن جائے گا۔ یہاں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ سری لنکا اور پاکستان میں مماثلت تلاش کرنی شروع کر دی گئی تھیں۔ لیکن سب دوستوں نے دیکھا نہ تو پاکستان نے ڈیفالٹ کیا اور نہ پاکستان سری لنکا ہی بنا۔
پھر جب بنگلہ دیش میں حالات خراب ہوئے۔ نوجوان کوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے پہلے نوجوانوں کو ریاست کی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔ لیکن پھر فوج نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور حسینہ واجد کو ملک سے بھاگ کر بھارت جانا پڑ گیا۔
اس کے بعد ہمارے نادان دوستوں نے پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی رٹ شروع کر دی۔ یہاں تحریک انصاف نے یک دم اپنے نوجوانوں کے ونگ کو متحرک کرنا شروع کر دیا۔ ایک بیانیہ بنانا شروع کر دیا کہ پاکستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے حالات ہیں۔ اس لیے یہاں بھی ایسے ہی ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ شاید دوست نہ تو پاکستان اور سری لنکا کا فرق سمجھ سکے تھے اور نہ پاکستان اور بنگلہ دیش کا فرق ہی سمجھ سکے۔
اب کے صورتحال کافی مختلف ہے۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نیپال کیوں نہیں بن سکتا۔ نیپال کے حالات کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ دیکھیں کمال ہوگیا۔
ایسی ہوتی ہیں زندہ قومیں۔ ایسی ہوتی ہے زندہ نوجوان نسل۔ نوجوان نسل کو ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن دوست پھر پاکستان اور نیپال کا فرق سمجھے بغیر بس پاکستان میں نیپال جیسے حالات کی پیش گوئی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بار امید سے زیادہ ناامیدی بھی نظر آرہی ہے۔ نوجوانوں سے گلہ بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل میں دم ہی نہیں ہے، یہ انقلاب نہیں لا سکتی ۔
بہرحال دوستوں کی خواہشات اپنی جگہ۔ پاکستان کے حالات اپنی جگہ۔ پاکستان اور نیپال میں بہت فرق ہے۔ ویسے بھی نیپال میں جو ہوا ہے وہ وہاں کوئی جمہوریت یا سول بالادستی کے لیے نہیں ہوا ہے۔ وہاں سپریم کورٹ، پارلیمان سمیت جمہوریت کی تمام نشانیاں جلا دی گئی ہیں۔ ایک خیال ہے کہ اب وہاں بادشاہت واپس آجائے گی۔
جلا وطن بادشاہ واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس لیے ایک رائے ہے کہ بادشاہت کی واپسی کی تیاریاں ہیں۔ اسی لیے نیپال کے آرمی چیف نے قوم سے جو خطاب کیا ہے۔ اس میں ان کے پیچھے نیپال کے پہلے بادشاہ کے تصویر لگی ہوئی تھی۔ حالانکہ نیپال میں 2008ء میں بادشاہت ختم کر کے جمہوریت قائم کر دی گئی تھی۔ اب دوبارہ بادشاہت کی بحالی کی بات کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ساری سازش میں فوج شامل ہے ۔
بھارت نیپال کے حالات سے خوش نہیں۔ بھارت اس تبدیلی کا سارا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت لڑائی میں نیپال بھارت کے ساتھ تھا۔ نیپال کی حکومت نے بھارت کی کھلم کھلا حمایت کی تھی۔ اس لیے نیپال میں حکومت کی تبدیلی بھارت کے لیے نیک شگون نہیں۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت بھی بھارت نواز حکومت سمجھی جاتی تھی۔ اور وہاں بھی حکومت کا جانا بھارت کے مفادات کے خلاف تھا۔
اسی طرح کیا نیپال میں حکومت کی تبدیلی بھی بھارت کے خلاف ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بنگلہ دیش کی طرز پر ابھی نیپال میں ایک عبوری حکو مت قائم کر دی گئی ہے۔ وہاں سابق چیف جسٹس کو عبوری سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ جیسے بنگلہ دیش میں محمد یونس کو عبوری سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک میں نوجوانوں کی تحریک کے بعد وہاں کی افواج نے اپنی مرضی کا سیٹ اپ بنا دیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی یونس فوج کی مدد سے بیٹھے ہیں۔ نیپال میں بھی فوج اپنی مرضی کا سیٹ اپ لے آئی ہے۔ اس لیے دونوں جگہ دیکھا جائے تو اصل فاتح فوج ہی نظر آئی ہے۔
نیپال میں بھارت کی مودی حکومت کے خلاف ایک نفرت موجود تھی جیسے بنگلہ دیش میں بھارت کی مودی حکومت کے خلاف ایک نفرت موجود تھی۔ بنگلہ دیش میں بھی یہ رائے تھی کہ مودی کے سرمایہ کار بنگلہ دیش کو لوٹ رہے ہیں، بنگلہ دیش کا استحصال کر رہے ہیں، وہاں کی حکومت بھارت کی ڈمی حکومت ہے، اسی طرح نیپال کا نوجوان بھی بھارت کی معاشی بالا دستی سے تنگ نظر آیا ہے۔ بھارت کے خلاف نفرت بنگلہ دیش اور نیپال دونوں میں نظر آئی ۔ دونوں ملکوں کا نوجوان یہی کہہ رہا ہے کہ بھارت کا سرمایہ کار ہمیں لوٹ رہا ہے۔
میں نے تحریک انصاف کے ایک دوست کا ٹوئٹ دیکھا ہے جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کا نوجوان بھی کرپٹ ہے۔ اسی لیے پاکستان میں نوجوانوں کا انقلاب نہیں آسکتا۔ میرے دوست بات سمجھ ہی نہیں رہے۔ آپ نے قوم کو امریکا کے خلاف متحرک کیا اور پھر خود ہی امریکا کی گود میں بیٹھ گئے۔ قوم امریکا اور سائفر کے معاملہ میں آپ کے ساتھ آئی لیکن پھر آپ ٹرمپ سے امیدیں لگا بیٹھے۔ نوجوان یہ سب سمجھتا ہے۔
آپ سول بالادستی کی بات کرتے ہیں لیکن فوج سے بات کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ نوجوان سمجھتا ہے کہ اگر وہ باہر نکلے گا تو آپ اس کا سودا کر لیں گے۔ اس کی قربانیوں کو اپنے اقتدار کے لیے بیچ دیں گے۔ اس لیے نوجوان آپ کے لیے نکلنے کو تیار نہیں۔ پاکستان پر اللہ کا فضل ہے۔
اللہ نہ کرے یہاں نیپال اور بنگلہ دیش جیسے حالات ہوں۔ یہ کوئی قابل تقلید مثالیں نہیں ہیں، ملک تباہ ہو گئے ہیں، عالمی دنیا میں ان کی ساکھ گر گئی ہے، وہ کمزور ہو گئے ہیں۔ حاصل کچھ نہیں ہوا بلکہ زیادہ برا ہوگیا ہے۔ یہ ملک کسی گریٹ گیم کا شکار ہو گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے ہم کسی گریٹ گیم کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔ مجھے اس پر فخر ہے۔ پاکستان کا نوجوان زیادہ باشعور ہے، وہ جھوٹے فریب میں نہیں آتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان میں پاکستان اور حسینہ واجد کہ پاکستان جیسے حالات کا نوجوان نیپال میں بھارت کی نیپال کے کی حکومت سری لنکا بھارت کے کے خلاف رہے ہیں میں بھی کے لیے کے بعد کر دیا اس لیے
پڑھیں:
سیلاب ،بارش اور سیاست
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل
کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭