برازیل کے سابق صدر بولسونارو بغاوت کے الزام میں مجرم قرار،27 سال قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
برازیل کے سابق صدر بولسونارو بغاوت کے الزام میں مجرم قرار،27 سال قید کی سزا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 September, 2025 سب نیوز
برازیل: سپریم کورٹ نے سابق صدر جائر بولسونارو کو بغاوت کی سازش کا مجرم قرار دیتے ہوئے 27 سال اور 3 ماہ قید کی سزا سنادی۔
پانچ رکنی بینچ میں سے چار ججز نے سزا کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ ایک جج نے بولسونارو کو تمام الزامات سے بری کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
گھر میں نظر بند بولسونارو عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کے وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت 11 رکنی فل کورٹ کرے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بولسونارو کی سزا کو “مایوس کن” قرار دیا۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ برازیلین سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر متوقع ہے۔
فیصلے کے بعد برازیل کے متعدد شہروں میں بولسونارو کے حق میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ یاد رہے کہ بولسونارو پر 2022 کے الیکشن کے بعد اقتدار پر قبضے کی کوشش کا الزام تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرقطری وزیراعظم کی آج امریکی صدر ٹرمپ سے اہم ملاقات، اسرائیلی حملے اور غزہ سیز فائر پر بات چیت ہوگی قطری وزیراعظم کی آج امریکی صدر ٹرمپ سے اہم ملاقات، اسرائیلی حملے اور غزہ سیز فائر پر بات چیت ہوگی پاک فوج کے آپریشن میں فتنۃ الخوارج کے ہتھیار ڈالنے والے خارجی کے تہلکہ خیز انکشافات سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی نمائندے کے ریمارکس پر پاکستان کا کرارا جواب عدالت نے مختلف یو ٹیوب چینلز کی بندش کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا،11 یوٹیوب چینل بحال ہر ریٹائر جج کو تین تین پولیس اہلکار دیے جائیں، سپریم کورٹ کا محکمہ داخلہ کو خط اسلام آبادکے تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر مکمل پابندی عائدCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کی سزا
پڑھیں:
وقف قانون پر سپریم کورٹ کی متوازن مداخلت خوش آئند ہے، مسلم راشٹریہ منچ
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون 2025 پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) نے اس حکم کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا اور اسے ملک اور معاشرے کے مفاد میں ایک متوازن اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ فورم کے قومی رابطہ کار شاہد سعید اور خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے اسے ایسا اقدام قرار دیا جو ملک میں بھائی چارہ، اتحاد اور منصفانہ ماحول کو مزید مضبوط کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ ان میں مسلمانوں کے لئے اسلام کی پانچ سال تک پیروی کی شرط، کلکٹر کو وقف کی جائیدادوں کے تعین کا اختیار اور وقف کی جائیدادوں سے متعلق فیصلے کرنے کی انتظامی طاقت شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ان شقوں پر تفصیلی سماعت کے بعد ہی حتمی فیصلہ ہوگا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں، یعنی باقی قانون لاگو رہے گا جب کہ متنازعہ شقوں پر عدالت حتمی فیصلہ سنائے گی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے قومی رابطہ کار شاہد سعید نے سپریم کورٹ کے حکم کو ہر طبقے کے لئے قابل احترام اور قابل قبول قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ قومی اتحاد اور سالمیت کو مزید مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوازن اور دل کو سکون دینے والا ہے، اس نے مسلمانوں میں پیدا شدہ الجھن کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد ریلیف دیا، جس سے یہ یقین مضبوط ہوتا ہے کہ عدلیہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرتی ہے، یہ حکم بھارت کی جمہوری روایت کو مکمل طور پر مضبوط کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ کے خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالتی غیر جانبداری اور بھارتی جمہوریت کی مضبوطی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ عدلیہ نہ صرف غیر جانبدار ہے بلکہ ہر طبقے، ہر کمیونٹی اور ہر حصے کے جذبات کا مکمل احترام بھی کرتی ہے۔ اس حکم نے نہ صرف وقف ترمیمی قانون سے متعلق شبہات دور کیے ہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی الجھن کو بھی ختم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ معاشرتی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور ہم نصابی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ اس کا دل سے خیرمقدم کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ نے اس حکم کو بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق سے منسلک کیا۔ تنظیم کے مطابق یہ فیصلہ آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، آرٹیکل 25 (مذہبی آزادی) اور آرٹیکل 300A (جائیداد کا حق) کی عملی تشریح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بھارت میں کسی مخصوص مذہب پر من مانے پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی حکومت انتظامی طاقت کے ذریعے جائیداد کے حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کا ماننا ہے کہ یہ حکم صرف ایک تکنیکی قانونی معاملہ نہیں بلکہ سماجی انصاف اور آئینی اخلاقیات کی بحالی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد اصل چیلنج یہ ہے کہ وقف کی جائیدادوں کا فائدہ صحیح مستحقین تک پہنچے۔