کراچی میں سلسلہ وارثی کے زیر اہتمام سیرت نبوی ﷺ کانفرنس 2025 کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عشاقان رسول ﷺ کی بڑی تعداد نے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت کی۔

گلشن اقبال کے علاقے میں منعقد ہونے والے اس عظیم اجتماع میں شرکا کی تعداد 5 ہزار سے زائد رہی اور پورا پنڈال لبریز ہو کر ایمان و عشق مصطفیٰ ﷺ کے ولولہ انگیز مناظر پیش کر رہا تھا۔

محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک کی روح پرور تلاوت اور نعت خوانوں کی والہانہ نعتوں سے ہوا جس نے حاضرین کے دلوں کو محبت رسول ﷺ سے مزید منور کر دیا۔

اس تاریخی اجتماع کی سب سے نمایاں جھلک امیر سلسلہ وارثی حضرت حاجی سیّد احمد سعید رضوی وارثی کا ایمان افروز اور روح پرور بیان تھا جس میں انہوں نے نہ صرف سیرت نبوی ﷺ کے سنہری پہلوؤں کو اجاگر کیا بلکہ موجودہ دور کے چیلنجز اور مسائل کے حل بھی تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں بیان کیے۔

یہی بیان اس قدر عظیم الشان اجتماع کا اصل محرک ثابت ہوا اور ہزاروں نفوس اس فیض سے سیراب ہوئے۔
اس موقع پر ملٹی نیشنل اداروں کے نمائندگان و دیگر نے بھی خطابات کیے اور اپنی تقاریر میں سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں عصر حاضر کے سماجی و معاشی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

محفل کے دوران بہترین انتظامات دیکھنے میں آئے جنہیں عوام و خواص نے دل سے سراہا۔

خواتین کے لیے علیحدہ اور پردے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تاکہ وہ بھی اس بابرکت اجتماع میں سکون و تحفظ کے ساتھ شریک ہو سکیں۔

عوامی سہولت کے پیش نظر انتظامیہ کی جانب سے نشستوں اور نظم و نسق کا خاص خیال رکھا گیا۔

اس موقع پر واجب الاحترام امیر صاحب نے عصرِ حاضر کے پیچیدہ حالات اور عوام الناس کے بے پناہ مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے تمام شرکا کے لیے فی سبیل اللہ اجتماعی روحانی علاج بھی فرمایا جس نے اہلِ عقیدت کے دلوں کو مزید اطمینان اور سکون بخشا۔

محفل کے اختتام پر تمام شرکا کی خدمت میں پرکیف عشائیہ پیش کیا گیا جس نے اس یادگار اور پرنور اجتماع کو مزید رونق بخشی۔

حاضرین نے اسے اپنی زندگی کا ایک انمول اور ایمان افروز لمحہ قرار دیا اور کہا کہ سلسلہ وارثی کی یہ محافل نہ صرف ایمان کی تازگی کا سبب بنتی ہیں بلکہ عشقِ رسول ﷺ کی حرارت کو نئی زندگی عطا کرتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سیرت النبی کانفرنس 2025.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سیرت النبی کانفرنس 2025 نبوی ﷺ

پڑھیں:

اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-5

 

غلام حسین سوہو

یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔

“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔

یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔

’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔

’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔

کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔

(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)

متعلقہ مضامین

  • میاں مقصود شکارپورڈسٹرکٹ بار میں آج جلسہ سیرت النبی ؐ سے خطاب کرینگے
  • نبی کریمﷺ کی تعلیمات پرعمل کرکے امن قائم کیاجاسکتا ہے،مولاناعتیق
  • کراچی میں آشوب چشم کی وبا پھیل گئی، مریضوں میں اضافہ
  • مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • غزہ: اسرائیلی عسکری کارروائی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری، یو این کی مذمت
  • نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر سینیٹ کمیٹیوں سے استعفے دے رہے ہیں، بیرسٹر علی ظفر
  • کراچی، میں بوندا باندی کا سلسلہ جاری، ٹریفک پولیس نے احتیاطی تدابیر جاری کر دیں
  • وزیراعظم شہباز شریف عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے قطر روانہ