Express News:
2025-11-03@01:46:02 GMT

آہنی مکا ضروری ہے!

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

قطر برطانوی سلطنت کاحصہ تھا ۔ 3ستمبر 1971 کو ایک معاہدے کے تحت خود مختار ملک بن گیا۔اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ کا باج گزارتھا۔ اس چھوٹے سے ملک میں بادشاہت کا نظام موجود ہے۔ مگر انتقال اقتدار ہمیشہ یک دم اور طاقت کے زور پر ہوتا ہے ۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 1995میںامیرحماد بن خلیفہ نے اپنے والد خلیفہ بن حماد کو نظر بند کر دیا ۔

قطری افواج‘ کابینہ‘ سعودی عرب اور فرانس کے اتحاد سے اپنے سگے والد سے حکومت چھین لی ۔ دیکھا جائے تو تمام مسلمان ملکوں میں انتقال اقتدار کا کوئی جمہوری اور مہذب طریقہ نظر نہیں آتا ۔ دورکیا جانا۔ ہمارے اپنے ملک میں تخت پر براجمان ہونے کے لیے ہر ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ جس کے بازو میں دوسرے کو زیر کرنے کی طاقت ہوتی ہے ۔ وہ بڑے آرام سے مسند نشین ہو جاتا ہے ۔ جس میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ہزاروں برس سے ہر ریاست ‘ ملک اور سلطنت میں یہی خونی کھیل تسلسل سے کھیلا جا رہا ہے۔ مسلمان ممالک وہ واحد بدقسمت ریاستیں ہیں جن میں کسی نہ کسی طور پر آج بھی بادشاہت قائم و دائم ہے ۔ قطر کی آبادی تقریباً تیس لاکھ کے قریب ہے۔

قدرت نے اس چھوٹے سے ملک کو تیل اور گیس کے خزانوں سے نوازا ہے ۔ ایل این جی کی برآمد میں اسے کمال حاصل ہے ۔ یہ ملک دنیا کے امیر ترین ممالک میں آتا ہے ۔ جس میں ایک شخص کی سالانہ آمدن ایک لاکھ اکیس ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ چند ماہ پہلے جب امریکی صدر قطر کے دورے پر گیا تو اسے وہاں ارب ہا ڈالر کے تحفے تحائف دیے گئے ۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی بھی غیر ملکی ریاست نے امریکی صدر کو بیش قیمت ہوائی جہاز تحفے میں دیا ہو۔دنیا کے تمام ممالک سے حد درجے اچھے تعلقات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ قطر ایک بہترین خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔ مگر چند دن پہلے اسرائیلی جنگی جہازوں نے قطر پر بہیمانہ حملہ کیا ۔

وہاںحماس کے عہدے داروں میں سے چند قائدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔جنگی جہاز اسرائیل سے حملہ کرنے کے لیے دو سے تین مسلم ممالک کی فضائی حدود میں سے گزرے ۔کمال بات یہ ہے کہ فضا میں انھیں امریکی ٹینکرز نے ‘ تیل مہیا کیا ۔ مطلب بالکل صاف سا ہے کہ بنیادی طور پر یہ حملہ اسرائیل نے بھرپور امریکی طاقت کے ساتھ کیا ہے ۔

 سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا قطر اتنا کمزور ملک ہے کہ اس کے اوپر ہر درجے تسلی سے حملہ کرنے کے بعد اسرائیلی جہاز خیریت سے واپس بھی چلے گئے۔ قطری صرف اور صرف تماشا دیکھتے رہ گئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ قطر کی ایئر فورس کے پاس 96ایسے جدید ترین لڑاکا طیارے تھے جو دنیا میں بہت کم ممالک کے پاس ہیں۔ ان میں امریکا سے منگوائے گئے ‘ ایف 15‘ فرانس کے مہیا کردہ رافیل اور یوکے سے خریدے گئے ٹائی فون جہاز شامل تھے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قطر کے پاس جدید ترین پیٹریاٹ میزائل بھی موجود تھے ۔

اس کے علاوہ تقریباً آٹھ سو پی اے سی میزائل بھی دفائی نظام میں موجود تھے۔دنیا کے جدید ترین ریڈار سسٹم بھی بری اور فضائی افواج کے لیے موجود تھے۔ جس میں اے این ریڈارزشامل تھے ۔ مگر قیامت دیکھیے اسرائیل کے ایف 35لڑاکا طیاروں نے اپنی مرضی کے مطابق قطر کے دل یعنی دوہا پر حملہ کیا۔ جہاں حماس کی اعلیٰ ترین قیادت مشاورت میں مصروف تھی ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملہ بہت بڑے علاقے پر کیا گیا ۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کے بدولت ایک مخصوص عمارت پر ہوا جہاں حماس کے قائدین موجود تھے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ حملہ ان لوگوں پر کیا گیاجو غزہ میں جنگ بندی کے لیے متحارب فریقین سے مذاکرات کر رہے تھے اور صلح کروا رہے تھے۔اس میں خلیل الحیا کا بیٹا بھی مارا گیا ۔

اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس کامیاب آپریشن کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے ٹویٹر پر یہ لکھا کہ اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی منصوبہ بندی ‘ کامیاب حکمت عملی اور ملکی ہوائی جہازوں کے ذریعے قطر پر کامیاب حملہ کیا اور وہ اس کی مکمل ذمے داری قبول کرتا ہے۔ قطر کی جانب سے ان کے وزیراعظم نے ہر درجے کمزور سا بیان دیا۔ وہ یہ کہ قطر اس حملے کی مکمل بھرپور مذمت کرتا ہے۔ یہ بیان کمزوری کا مرقع ہے ۔ ویسے بادشاہ سے کون پوچھ سکتا ہے ۔ لیکن کیا یہ سوال جائز نہیں ہے کہ قطر کے جدید ترین لڑاکا جہاز‘ ریڈار اور میزائل کیوں استعمال میں نہیں لائے گئے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قطر کی حکومت حماس کے خلاف خاموش تماشائی تھی ۔ معاملہ سفارتی اور مذمتی بیانات سے آگے نہیں گیا۔

کیا ایک عام فہم اور معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا بندہ اسرائیلی حملے کے بعد اس نتیجے پر نہیں پہنچے گا۔ کہ قطری حکومت نے اپنے دفاع کے لیے جمع کیا ہوا اسلحہ قصداً استعمال نہیں کیا۔آسان زبان میں قطر کی حکومت میں اتنی جرأت ہی نہیں تھی کہ اپنی جغرائی حدود کی حفاظت کر سکے۔ ویسے مسلمان ملک بھی کمال ہیں۔ یہ بھیڑیئے کے ساتھ بھی مل جاتے ہیں اور بھیڑ سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں ۔ شخصی حکومتیں کبھی بھی مضبوط فیصلے نہیں کر سکتیں ۔ اور مغربی طاقتوں کے بٹھائے ہوئے موم کے بادشاہ تو ویسے ہی سورج کی پہلی گرم شعاع سے پگھل جاتے ہیں۔حماس کا نقصان تو اپنی جگہ ہے ۔ مگر اس حملے نے قطر کی کمزوری ظاہر کر دی ۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیکھیے۔ تمام کے تمام قطری حکومت کا پر تنقید کر رہے ہیں۔

ویسے ایک بات میں سمجھنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم کن جذبات کے تحت ‘ آناً فاناًایک دن کے لیے دوہا تشریف لے گئے۔ سرکاری بیان تو یہ ہے کہ دوستی کا اعادہ کرنا تھا ۔ ہو سکتا ایسا ہی ہو ۔ مگر کیا بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ میں ‘ قطر کے بادشاہ اسلام آباد تشریف لائے تھے تاکہ ان کی طرف سے یکجہتی کا پکا راگ گایا جاسکے۔ قطعاً نہیں۔ کیا حالیہ سیلاب میں قطری حکومت واقعی پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ؟ قطعاً نہیں۔ کم از کم میڈیا کے اندر تو کوئی ایسی خبر نظر نہیں آتی جس میں ہمارے ملک کا درد قطری شہزادوں نے معمولی سا بھی محسوس کیا ہو۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ ہمارے وزیراعظم بنفس نفیس یکجہتی کے لیے دوہا تشریف لے گئے۔ شاید حکومتی مفادات سے زیادہ شخصی مفادات کی حفاظت اصل مقصد ہو ؟ کیا کہا جا سکتا ہے ۔

اس تناظر میں جب میں پاکستان اور ہندوستان کی حالیہ جنگ کو دیکھتا ہوں۔ تو مجھے فخریہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری افواج ‘ فضائیہ اور بحریہ حد درجے طاقتور اور کامیاب ترین حکمت عملی سے معمور ہے ۔ جس رات ‘ بھارت کی فضائیہ نے پاکستان پر اپنی حدود سے حملہ کرنے کے لیے اڑان بھری تو ان کے سامنے دنیا کے بہترین پائلٹ جدید ترین چینی جہازوں پر استقبال کے لیے موجود تھے ۔ رافیل طیاروں کا گرنا غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ اس کمپنی کا اعلان تھا کہ ان کا بنایا ہوا طیارہ کبھی بھی گرایا نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔بھارت کو اپنے جنگی ہوائی جہاز فضا میں اڑانے کی جرأت ہی نا ہو سکی۔ وہ پرندوں کی طرح اپنے گھونسلوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔

بالکل اسی طرح پاکستان کے میزائل سسٹم نے بھارت کے اندر ہر ہدف کو کامیابی سے تباہ کیا اور ایک سنہری تاریخ نئے لفظوں سے لکھ ڈالی ۔ بھارت کے ساتھ ‘ ہم اسرائیلی کاپٹرز سے بھی لڑ رہے تھے اور وہ بھی چن چن کر ختم کیے گئے ۔ قصہ کوتاہ یہ کہ پاکستان نے بھارت اور اسرائیل دونوں کے تکبر اور غرور کو خاک میں ملا دیا۔ ہمیں اپنی طاقتور عسکری قیادت پر غیر متزلزل بھروسہ ہونا چاہیے۔ ملک کا دفاع کامیابی سے کر سکتے ہیں بلکہ کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے اسرائیلی وزیراعظم نے دو دن پہلے اپنی تقریر میں پاکستان کا بار بار ذکر کیا ۔ کیونکہ اسے علم ہے کہ دنیا میں اگر کوئی مسلمان ملک طاقتور عسکری اور فضائی قوت رکھتا ہے تو وہ صرف اور صرف ہمارا ملک ہے۔ ویسے آنیوالے وقت میں ماہرین یہ ضرور سوال اٹھائیں گے کہ جو کام پاکستان نے کر دکھایا ‘قطر اپنی بھرپور قوت رکھنے کے باوجود کیوں نہ کر سکا؟

غیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں مداخلت بہر حال غیر مناسب ہے اور اس سے اجتناب کرنا ‘ ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے ۔مگر کیا ملک کے سیاستدان حقیقت میں وہ اہلیت رکھتے ہیں ۔ کہ کسی بھی مشکل سے ہمیں کامیابی سے باہر نکال لیں۔ موجودہ اعلیٰ ترین قیادت جس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو استطاعت کے لحاظ سے گورننس کے بنیادی اچھے اصولوں سے مبرا نظر آتی ہے ۔ لیکن مجبوری ہے کہ ان لوگوں کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت آئینے کے سامنے بیٹھنا ضروری ہے۔ یاد رکھئے کہ اسرائیل اور ہندوستان ہمارے بدترین دشمن ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آہنی مکا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موجود تھے ضروری ہے یہ ہے کہ دنیا کے جا سکتا کرنے کے کے ساتھ حماس کے کے بعد قطر کے قطر کی کہ قطر کے لیے

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد