قطر برطانوی سلطنت کاحصہ تھا ۔ 3ستمبر 1971 کو ایک معاہدے کے تحت خود مختار ملک بن گیا۔اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ کا باج گزارتھا۔ اس چھوٹے سے ملک میں بادشاہت کا نظام موجود ہے۔ مگر انتقال اقتدار ہمیشہ یک دم اور طاقت کے زور پر ہوتا ہے ۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 1995میںامیرحماد بن خلیفہ نے اپنے والد خلیفہ بن حماد کو نظر بند کر دیا ۔
قطری افواج‘ کابینہ‘ سعودی عرب اور فرانس کے اتحاد سے اپنے سگے والد سے حکومت چھین لی ۔ دیکھا جائے تو تمام مسلمان ملکوں میں انتقال اقتدار کا کوئی جمہوری اور مہذب طریقہ نظر نہیں آتا ۔ دورکیا جانا۔ ہمارے اپنے ملک میں تخت پر براجمان ہونے کے لیے ہر ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ جس کے بازو میں دوسرے کو زیر کرنے کی طاقت ہوتی ہے ۔ وہ بڑے آرام سے مسند نشین ہو جاتا ہے ۔ جس میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ہزاروں برس سے ہر ریاست ‘ ملک اور سلطنت میں یہی خونی کھیل تسلسل سے کھیلا جا رہا ہے۔ مسلمان ممالک وہ واحد بدقسمت ریاستیں ہیں جن میں کسی نہ کسی طور پر آج بھی بادشاہت قائم و دائم ہے ۔ قطر کی آبادی تقریباً تیس لاکھ کے قریب ہے۔
قدرت نے اس چھوٹے سے ملک کو تیل اور گیس کے خزانوں سے نوازا ہے ۔ ایل این جی کی برآمد میں اسے کمال حاصل ہے ۔ یہ ملک دنیا کے امیر ترین ممالک میں آتا ہے ۔ جس میں ایک شخص کی سالانہ آمدن ایک لاکھ اکیس ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ چند ماہ پہلے جب امریکی صدر قطر کے دورے پر گیا تو اسے وہاں ارب ہا ڈالر کے تحفے تحائف دیے گئے ۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی بھی غیر ملکی ریاست نے امریکی صدر کو بیش قیمت ہوائی جہاز تحفے میں دیا ہو۔دنیا کے تمام ممالک سے حد درجے اچھے تعلقات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ قطر ایک بہترین خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔ مگر چند دن پہلے اسرائیلی جنگی جہازوں نے قطر پر بہیمانہ حملہ کیا ۔
وہاںحماس کے عہدے داروں میں سے چند قائدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔جنگی جہاز اسرائیل سے حملہ کرنے کے لیے دو سے تین مسلم ممالک کی فضائی حدود میں سے گزرے ۔کمال بات یہ ہے کہ فضا میں انھیں امریکی ٹینکرز نے ‘ تیل مہیا کیا ۔ مطلب بالکل صاف سا ہے کہ بنیادی طور پر یہ حملہ اسرائیل نے بھرپور امریکی طاقت کے ساتھ کیا ہے ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا قطر اتنا کمزور ملک ہے کہ اس کے اوپر ہر درجے تسلی سے حملہ کرنے کے بعد اسرائیلی جہاز خیریت سے واپس بھی چلے گئے۔ قطری صرف اور صرف تماشا دیکھتے رہ گئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ قطر کی ایئر فورس کے پاس 96ایسے جدید ترین لڑاکا طیارے تھے جو دنیا میں بہت کم ممالک کے پاس ہیں۔ ان میں امریکا سے منگوائے گئے ‘ ایف 15‘ فرانس کے مہیا کردہ رافیل اور یوکے سے خریدے گئے ٹائی فون جہاز شامل تھے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قطر کے پاس جدید ترین پیٹریاٹ میزائل بھی موجود تھے ۔
اس کے علاوہ تقریباً آٹھ سو پی اے سی میزائل بھی دفائی نظام میں موجود تھے۔دنیا کے جدید ترین ریڈار سسٹم بھی بری اور فضائی افواج کے لیے موجود تھے۔ جس میں اے این ریڈارزشامل تھے ۔ مگر قیامت دیکھیے اسرائیل کے ایف 35لڑاکا طیاروں نے اپنی مرضی کے مطابق قطر کے دل یعنی دوہا پر حملہ کیا۔ جہاں حماس کی اعلیٰ ترین قیادت مشاورت میں مصروف تھی ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملہ بہت بڑے علاقے پر کیا گیا ۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کے بدولت ایک مخصوص عمارت پر ہوا جہاں حماس کے قائدین موجود تھے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ حملہ ان لوگوں پر کیا گیاجو غزہ میں جنگ بندی کے لیے متحارب فریقین سے مذاکرات کر رہے تھے اور صلح کروا رہے تھے۔اس میں خلیل الحیا کا بیٹا بھی مارا گیا ۔
اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس کامیاب آپریشن کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے ٹویٹر پر یہ لکھا کہ اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی منصوبہ بندی ‘ کامیاب حکمت عملی اور ملکی ہوائی جہازوں کے ذریعے قطر پر کامیاب حملہ کیا اور وہ اس کی مکمل ذمے داری قبول کرتا ہے۔ قطر کی جانب سے ان کے وزیراعظم نے ہر درجے کمزور سا بیان دیا۔ وہ یہ کہ قطر اس حملے کی مکمل بھرپور مذمت کرتا ہے۔ یہ بیان کمزوری کا مرقع ہے ۔ ویسے بادشاہ سے کون پوچھ سکتا ہے ۔ لیکن کیا یہ سوال جائز نہیں ہے کہ قطر کے جدید ترین لڑاکا جہاز‘ ریڈار اور میزائل کیوں استعمال میں نہیں لائے گئے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قطر کی حکومت حماس کے خلاف خاموش تماشائی تھی ۔ معاملہ سفارتی اور مذمتی بیانات سے آگے نہیں گیا۔
کیا ایک عام فہم اور معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا بندہ اسرائیلی حملے کے بعد اس نتیجے پر نہیں پہنچے گا۔ کہ قطری حکومت نے اپنے دفاع کے لیے جمع کیا ہوا اسلحہ قصداً استعمال نہیں کیا۔آسان زبان میں قطر کی حکومت میں اتنی جرأت ہی نہیں تھی کہ اپنی جغرائی حدود کی حفاظت کر سکے۔ ویسے مسلمان ملک بھی کمال ہیں۔ یہ بھیڑیئے کے ساتھ بھی مل جاتے ہیں اور بھیڑ سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں ۔ شخصی حکومتیں کبھی بھی مضبوط فیصلے نہیں کر سکتیں ۔ اور مغربی طاقتوں کے بٹھائے ہوئے موم کے بادشاہ تو ویسے ہی سورج کی پہلی گرم شعاع سے پگھل جاتے ہیں۔حماس کا نقصان تو اپنی جگہ ہے ۔ مگر اس حملے نے قطر کی کمزوری ظاہر کر دی ۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیکھیے۔ تمام کے تمام قطری حکومت کا پر تنقید کر رہے ہیں۔
ویسے ایک بات میں سمجھنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم کن جذبات کے تحت ‘ آناً فاناًایک دن کے لیے دوہا تشریف لے گئے۔ سرکاری بیان تو یہ ہے کہ دوستی کا اعادہ کرنا تھا ۔ ہو سکتا ایسا ہی ہو ۔ مگر کیا بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ میں ‘ قطر کے بادشاہ اسلام آباد تشریف لائے تھے تاکہ ان کی طرف سے یکجہتی کا پکا راگ گایا جاسکے۔ قطعاً نہیں۔ کیا حالیہ سیلاب میں قطری حکومت واقعی پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ؟ قطعاً نہیں۔ کم از کم میڈیا کے اندر تو کوئی ایسی خبر نظر نہیں آتی جس میں ہمارے ملک کا درد قطری شہزادوں نے معمولی سا بھی محسوس کیا ہو۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ ہمارے وزیراعظم بنفس نفیس یکجہتی کے لیے دوہا تشریف لے گئے۔ شاید حکومتی مفادات سے زیادہ شخصی مفادات کی حفاظت اصل مقصد ہو ؟ کیا کہا جا سکتا ہے ۔
اس تناظر میں جب میں پاکستان اور ہندوستان کی حالیہ جنگ کو دیکھتا ہوں۔ تو مجھے فخریہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری افواج ‘ فضائیہ اور بحریہ حد درجے طاقتور اور کامیاب ترین حکمت عملی سے معمور ہے ۔ جس رات ‘ بھارت کی فضائیہ نے پاکستان پر اپنی حدود سے حملہ کرنے کے لیے اڑان بھری تو ان کے سامنے دنیا کے بہترین پائلٹ جدید ترین چینی جہازوں پر استقبال کے لیے موجود تھے ۔ رافیل طیاروں کا گرنا غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ اس کمپنی کا اعلان تھا کہ ان کا بنایا ہوا طیارہ کبھی بھی گرایا نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔بھارت کو اپنے جنگی ہوائی جہاز فضا میں اڑانے کی جرأت ہی نا ہو سکی۔ وہ پرندوں کی طرح اپنے گھونسلوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔
بالکل اسی طرح پاکستان کے میزائل سسٹم نے بھارت کے اندر ہر ہدف کو کامیابی سے تباہ کیا اور ایک سنہری تاریخ نئے لفظوں سے لکھ ڈالی ۔ بھارت کے ساتھ ‘ ہم اسرائیلی کاپٹرز سے بھی لڑ رہے تھے اور وہ بھی چن چن کر ختم کیے گئے ۔ قصہ کوتاہ یہ کہ پاکستان نے بھارت اور اسرائیل دونوں کے تکبر اور غرور کو خاک میں ملا دیا۔ ہمیں اپنی طاقتور عسکری قیادت پر غیر متزلزل بھروسہ ہونا چاہیے۔ ملک کا دفاع کامیابی سے کر سکتے ہیں بلکہ کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے اسرائیلی وزیراعظم نے دو دن پہلے اپنی تقریر میں پاکستان کا بار بار ذکر کیا ۔ کیونکہ اسے علم ہے کہ دنیا میں اگر کوئی مسلمان ملک طاقتور عسکری اور فضائی قوت رکھتا ہے تو وہ صرف اور صرف ہمارا ملک ہے۔ ویسے آنیوالے وقت میں ماہرین یہ ضرور سوال اٹھائیں گے کہ جو کام پاکستان نے کر دکھایا ‘قطر اپنی بھرپور قوت رکھنے کے باوجود کیوں نہ کر سکا؟
غیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں مداخلت بہر حال غیر مناسب ہے اور اس سے اجتناب کرنا ‘ ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے ۔مگر کیا ملک کے سیاستدان حقیقت میں وہ اہلیت رکھتے ہیں ۔ کہ کسی بھی مشکل سے ہمیں کامیابی سے باہر نکال لیں۔ موجودہ اعلیٰ ترین قیادت جس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو استطاعت کے لحاظ سے گورننس کے بنیادی اچھے اصولوں سے مبرا نظر آتی ہے ۔ لیکن مجبوری ہے کہ ان لوگوں کو بین الاقوامی دباؤ کے تحت آئینے کے سامنے بیٹھنا ضروری ہے۔ یاد رکھئے کہ اسرائیل اور ہندوستان ہمارے بدترین دشمن ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آہنی مکا ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موجود تھے ضروری ہے یہ ہے کہ دنیا کے جا سکتا کرنے کے کے ساتھ حماس کے کے بعد قطر کے قطر کی کہ قطر کے لیے
پڑھیں:
فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) ایف بی آر کی سینئر قیادت نے کہا ہے کہ ادارے کا کسٹمز فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کا آغاز ریونیو کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد بد عنوانی کا خاتمہ تھا۔ اس نظام پر عمل کرنے کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہی اس کا رول بیک جاتے ہیں۔ ایف بی آر ہی کے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آٖ ف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی رپورٹ کے بعض مندرجات کی تردید کے لئے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ اس ابتدائی نوعیت کی رپورٹ کو میڈیا کو لیک کیا گیا۔ ہمیں یہ بعد میں ملی اور میڈیا پر اس کے مندرجات کی غلط تشریح کی گئی۔ اس لیکج میں وہ افسر ملوث ہیں جن کی ذاتی نوعیت کی شکایات ہیں۔ رپورٹ میں ایسی چیزیں لائی گئی تھیں جو غلط تھیں۔ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اس کو رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹمز آپریشن سید شکیل شاہ اور دیگر اعلی افسروں نے میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ کسٹم کے فیس لیس اسیسمنٹ نظام کو ریونیو کے مقصد کے لیے شروع نہیں کیا تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسٹم کلیئرنس میں رشوت کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔ گاڑیوں کی کلیئرنس کا سکینڈل سامنے آیا۔ اس میں دو افسروں کو گرفتار کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں تاجروں کی ہڑتال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کسٹم کلیئرنس کا پرانا نظام واپس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ادارے میں وہ آٹھ اگست 2024 کو تعینات ہوئے تھے، انہوں نے اب تک کبھی کسی افسر کی تعیناتی سفارش پر نہیں کی ہے۔ ممبر کسٹم آپریشن شکیل شاہ نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے پلان پر عمل ہو رہا ہے۔ انہی میں سے ایک فیس لیس کسٹم اسیسمنٹ ہے، کیونکہ زیادہ تر امپورٹس کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہیں، اس لیے وہاں یہ سسٹم شروع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بیرون ملک سے آنے والی درآمدات کے لیے مختلف مختلف اشیاء کو کلیئر کرنے کے لیے گروپس بنا دیے جاتے تھے جس میں درآمد کرنے والے کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اس کی چیز کلیئرنس کس نے کرنی ہے اور اس سے ساز باز کرنا ممکن ہوتا تھا۔ اب ایک ہال میں 40 افسر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی افسر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس جی ڈی پر کام کر رہا ہے وہ کس کی ہے اور سارا کام ایک ہی ہال کے اندر ہوتا ہے اور اس کی سخت نگرانی ہوتی ہے اور ہال میں ٹیلی فون یا ای میل کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ درآمدی اشیاء کی کلیئرنس میں ٹائم بڑھنے کا تاثر بھی درست نہیں ہے۔ معمولی تاخیر ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے کچھ بیرونی عوامل بھی ہیں جن میں بندرگاہ پر بہت زیادہ رش اور پروسیجرل رکاوٹیں موجود ہیں اور اس کی وجہ ایف سی اے نہیں ہے۔ انہوں نے بعض آڈٹ آبزرویشن کے لیک ہونے کے حوالے سے کہا کہ ان میں چیزوں کو غلط طور پر بیان کیا گیا اور بعض باتیں تو کلی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس غیر قانونی لیک کے ذمہ دار ہیںیا جان بوجھ کر مس رپورٹنگ کر رہے ہیں ان کا احتساب کیا جائے گا۔ ہم اس سسٹم کو مزید بہتر بنائیں گے اور اصلاحات کو ڈی ریل کرنے والوں کے خلاف تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔