سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری!
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
پہلا بچہ سیزیرین ہوا، اب نارمل کروانا ہے ۔۔۔
بہت سی خواتین اس خواہش کے ساتھ گائناکالوجسٹ کے پاس آتی ہیں، لیکن اس بات سے بے خبر کہ ہوگا کیا؟
پہلے تو یہ جان لیجیے کہ ایک سیزیرین کے بعد کامیاب ویجائنل ڈلیوری کا امکان پچاس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ 2 سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری کی قطعی اجازت نہیں دی جاتی۔ کچھ ڈھیٹ تجربہ کرنے کی خاطر گھر میں رہ کر دردِ زہ تیز ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ رحم کا منہ مکمل طور پر کھل جائے اور رحم بچے کو ویجائنا سے باہر دھکیل دے۔ کبھی کبھار یہ طریقہ کامیاب ہوجاتا ہے مگر زیادہ تر خواتین اس حالت میں اسپتال لائی جاتی ہیں کہ بچے دانی پھٹ چکی ہوتی ہے اور بچہ مردہ حالت میں پیٹ میں پڑا ہوتا ہے۔
سو جان لیجیے کہ 2 سیزیرین کے بعد نارمل ویجائنل ڈلیوری کا خطرہ مول نہ لیں، چاہے کوئی کچھ بھی کہے۔
ایک سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری کروانے کے لیے ڈاکٹر اور اسپتال کا انتخاب بہت ضروری ہے تاکہ کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں اس سے اچھی طرح نمٹا جائے۔ چھوٹے چھوٹے کلینکس میں بیٹھی ہوئی نرسیں یا LHV، عالیشان نظر آتے اسپتالوں میں کم تربیت یافتہ، خود کو کنسلٹنٹ کہلواتی ڈاکٹرز ۔۔۔ یہ سب خطرے کا سرخ نشان ہیں۔
اب یہ جان لیجیے کہ TOLAC (Trial of Labor after Caesarean) کا چانس کیسے لیا جائے گا اور TOLAC کیسے VBAC (Vaginal Birth after Caesarean) میں بدلے گی؟
ٹولیک (TOLAC) سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری سے گزرنے کا عمل ہے اور اگر یہ عمل کامیاب ہوجائے تو تب اسے وی بیک کہا جائے گا۔
ٹولیک سے گزرنے کی کچھ شرائط ہیں جو گائناکالوجسٹ کو نظرانداز نہیں کرنی چاہییں:
1 پچھلے سیزیرین کا زخم بچے دانی کے نچلے حصے میں ہو۔
2 بچے کا سر نیچے ہو
3 جڑواں بچے نہ ہوں
4 بچے کا وزن 4 کلو سے زیادہ نہ ہو
5 بچے دانی پر کوئی اور آپریشن (رسولی وغیرہ) نہ ہوا ہو
6 سی ٹی جی مشین، آپریشن تھیٹر، بلڈ بینک اور تجربہ کار ڈاکٹر موجود ہو
7 پچھلے سیزیرین اور اس حمل میں ایک برس سے کم وقفہ ہو
8 بچے کا وزن (IUGR) حمل کے مطابق ہو
9 بچے کے والدین کو علم ہو کہ پیچیدگی ہوسکتی ہے اور اس سے کیسے نمٹا جائے گا
ٹولیک میں ایک سب سے بڑا سوال یہ آجاتا ہے کہ اگر قدرتی طور پر دردِ زہ کا آغاز نہ ہوا تو کیا کیا جائے گا؟
کیا مصنوعی درد لگوائے جاسکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب تب سمجھا جاسکتا ہے اگر آپ یہ جانتے ہوں کہ قدرتی دردِ زہ اور مصنوعی دردِ زہ میں کیا فرق ہے؟
حمل کی مدت 9 ماہ 7 دن یعنی 40 ہفتے مقرر ہے۔ 40 ہفتے کے بعد مزید 10 دن کا وقت حاملہ کو دیا جاسکتا ہے اگر سب کچھ ٹھیک ہو اور حاملہ اور بچے کی نگرانی کی جائے۔ کچھ خواتین میں 40 ہفتے اور 10 دن کی مدت گزر جانے کے بعد بھی قدرتی دردِ زہ کا آغاز نہیں ہوتا اور تب ڈاکٹر یہ تجویز کرتی ہیں کہ مصنوعی دردِ زہ کا آغاز کیا جائے۔
یہ یاد رکھیے کہ اگر 40 ہفتے اور 10 دن کے بعد بچہ پیدا کروانے کے فیصلے میں تاخیر کی جائے تو بچے کی موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے کچھ اور اصطلاحات یاد کرلیں:
1 ایل ایم پی (LMP): Last Menstrual Period یعنی آخری ماہواری کی تاریخ (پہلا دن)
2 ای ڈی ڈی (EDD): Estimated Date of Delivery یعنی ماہواری کی تاریخ میں 9 ماہ ایک ہفتہ جمع کرکے ڈلیوری کی تاریخ
3 پوسٹ ڈیٹ (Post Date): ڈلیوری کی تاریخ کے بعد کے دن
4 پوسٹ ٹرم(Post Term) : 40 ہفتے 10 دن گزر جانے کے بعد کے دن
5 پری ٹرم (Preterm) :37 ہفتے پہلے کا وقت
عام طور پر قدرتی دردِ زہ 37 سے 41 ہفتے کے بیچ آپ ہی آپ شروع ہوتے ہیں اور ان کی علامات میں پانی کی تھیلی پھٹنا، ہلکے ہلکے درد شروع ہونا اور خون کے دھبے لگنا شامل ہیں۔
دردِ زہ کے آغاز سے ڈلیوری تک ایک طویل عمل ہے جسے مختلف اسٹیجز میں بانٹا گیا ہے۔ مختلف اسٹیجز کی نشان دہی رحم کے منہ کھلنے کی جانچ سے ہوتی ہے جسے سروکس کہتے ہیں۔
اگر سروکس 3 سینٹی تک کھلے تو اسے لیٹنٹ فیز کہتے ہیں، 4 سے 10 سینٹی میٹر تک ایکٹو فیز کہتے ہیں۔ لیٹنٹ اور ایکٹو دونوں فیز زچگی کی پہلی اسٹیج کا حصہ ہیں۔ پہلی اسٹیج میں بچے دانی کا منہ مکمل طور پر کھل جاتا ہے جو 10 سینٹی کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری اسٹیج میں بچہ ویجائنا سے گزرتا ہوا باہر آتا ہے اور تیسری اسٹیج میں آنول باہر نکلتی ہے۔
اگر یہ تینوں اسٹیجز بنا کسی پیچیدگی کے ہوتی جائیں تو زچگی قدرتی اور سہل ہوتی ہے، لیکن اگر کہیں بھی معاملہ خراب ہوجائے تو ڈاکٹر کی مہارت کام آتی ہے کہ وہ پیچیدگی کا حساب کتاب کیسے لگاتی ہے اور اس کا کیا حل تجویز کرتی ہے۔
آج کے لیے اتنا ہی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بچے دانی کی تاریخ جائے گا ہے اور اور اس
پڑھیں:
پاکستان اور فلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون کا اہم معاہدہ
اسلام آباد میں پاکستان اور فلسطین کے درمیان صحت کے میدان میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
اس مفاہمتی یادداشت پر پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال جبکہ فلسطین کی جانب سے پاکستان میں تعینات فلسطینی سفیر نے دستخط کیے۔ تقریب میں وفاقی سیکرٹری صحت حامد یعقوب، ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ہیلتھ بھی شریک تھے۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے اس موقع پر کہا کہ معاہدے پر مؤثر عمل درآمد کے لیے آئندہ 30 روز میں ’’پاکستان-فلسطین ہیلتھ ورکنگ گروپ‘‘ قائم کیا جائے گا، جو اس تعاون کو عملی شکل دینے کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے تحت جدید طبی شعبہ جات میں استعداد کار بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
دونوں ممالک انٹروینشنل کارڈیالوجی، آرگن ٹرانسپلانٹ، آرتھوپیڈک سرجری، اینڈوسکوپک الٹراساؤنڈ، برن اینڈ پلاسٹک سرجری جیسے اہم شعبوں میں مل کر کام کریں گے۔ اس کے علاوہ متعدی امراض، آنکھوں کے امراض اور دواسازی کے شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ وزیر صحت نے یہ بھی بتایا کہ مشترکہ تحقیق کے مواقع تلاش کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی تاکہ صحت عامہ کے مسائل کا بہتر حل نکالا جا سکے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اس معاہدے کا مقصد دونوں برادر ممالک کے عوام کے لیے بہتر صحت کی سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی عوام کے دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم ان کی فلاح کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
فلسطین کے سفیر نے وزیر صحت اور پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور پاکستان دونوں برادر ممالک ہیں اور وہ اپنے عوام کی صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔