WE News:
2025-11-03@14:44:09 GMT

سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری!

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

پہلا بچہ سیزیرین ہوا، اب نارمل کروانا ہے ۔۔۔

بہت سی خواتین اس خواہش کے ساتھ گائناکالوجسٹ کے پاس آتی ہیں، لیکن اس بات سے بے خبر کہ ہوگا کیا؟

پہلے تو یہ جان لیجیے کہ ایک سیزیرین کے بعد کامیاب ویجائنل ڈلیوری کا امکان پچاس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ 2 سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری کی قطعی اجازت نہیں دی جاتی۔ کچھ ڈھیٹ تجربہ کرنے کی خاطر گھر میں رہ کر دردِ زہ تیز ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ رحم کا منہ مکمل طور پر کھل جائے اور رحم بچے کو ویجائنا سے باہر دھکیل دے۔ کبھی کبھار یہ طریقہ کامیاب ہوجاتا ہے مگر زیادہ تر خواتین اس حالت میں اسپتال لائی جاتی ہیں کہ بچے دانی پھٹ چکی ہوتی ہے اور بچہ مردہ حالت میں پیٹ میں پڑا ہوتا ہے۔

سو جان لیجیے کہ 2 سیزیرین کے بعد نارمل ویجائنل ڈلیوری کا خطرہ مول نہ لیں، چاہے کوئی کچھ بھی کہے۔

ایک سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری کروانے کے لیے ڈاکٹر اور اسپتال کا انتخاب بہت ضروری ہے تاکہ کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں اس سے اچھی طرح نمٹا جائے۔ چھوٹے چھوٹے کلینکس میں بیٹھی ہوئی نرسیں یا LHV، عالیشان نظر آتے اسپتالوں میں کم تربیت یافتہ، خود کو کنسلٹنٹ کہلواتی ڈاکٹرز ۔۔۔ یہ سب خطرے کا سرخ نشان ہیں۔

اب یہ جان لیجیے کہ TOLAC (Trial of Labor after Caesarean) کا چانس کیسے لیا جائے گا اور  TOLAC  کیسے VBAC (Vaginal Birth after Caesarean) میں بدلے گی؟

ٹولیک (TOLAC) سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری سے گزرنے کا عمل ہے اور اگر یہ عمل کامیاب ہوجائے تو تب اسے وی بیک کہا جائے گا۔

ٹولیک سے گزرنے کی کچھ شرائط ہیں جو گائناکالوجسٹ کو نظرانداز نہیں کرنی چاہییں:

1 پچھلے سیزیرین کا زخم بچے دانی کے نچلے حصے میں ہو۔

2  بچے کا سر نیچے ہو

3  جڑواں بچے نہ ہوں

4  بچے کا وزن 4 کلو سے زیادہ نہ ہو

5  بچے دانی پر کوئی اور آپریشن (رسولی وغیرہ) نہ ہوا ہو

6  سی ٹی جی مشین، آپریشن تھیٹر، بلڈ بینک اور تجربہ کار ڈاکٹر موجود ہو

7  پچھلے سیزیرین اور اس حمل میں ایک برس سے کم وقفہ ہو

8  بچے کا وزن (IUGR) حمل کے مطابق ہو

9  بچے کے والدین کو علم ہو کہ پیچیدگی ہوسکتی ہے اور اس سے کیسے نمٹا جائے گا

ٹولیک میں ایک سب سے بڑا سوال یہ آجاتا ہے کہ اگر قدرتی طور پر دردِ زہ کا آغاز نہ ہوا تو کیا کیا جائے گا؟

کیا مصنوعی درد لگوائے جاسکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب تب سمجھا جاسکتا ہے اگر آپ یہ جانتے ہوں کہ قدرتی دردِ زہ اور مصنوعی دردِ زہ میں کیا فرق ہے؟

حمل کی مدت 9 ماہ 7 دن یعنی 40 ہفتے مقرر ہے۔ 40 ہفتے کے بعد مزید 10 دن کا وقت حاملہ کو دیا جاسکتا ہے اگر سب کچھ ٹھیک ہو اور حاملہ اور بچے کی نگرانی کی جائے۔ کچھ خواتین میں 40 ہفتے اور 10 دن کی مدت گزر جانے کے بعد بھی قدرتی دردِ زہ کا آغاز نہیں ہوتا اور تب ڈاکٹر یہ تجویز کرتی ہیں کہ مصنوعی دردِ زہ کا آغاز کیا جائے۔

یہ یاد رکھیے کہ اگر 40 ہفتے اور 10 دن کے بعد بچہ پیدا کروانے کے فیصلے میں تاخیر کی جائے تو بچے کی موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے کچھ اور اصطلاحات یاد کرلیں:

1  ایل ایم پی (LMP): Last Menstrual Period یعنی آخری ماہواری کی تاریخ (پہلا دن)

2  ای ڈی ڈی (EDD): Estimated Date of Delivery یعنی ماہواری کی تاریخ میں 9 ماہ ایک ہفتہ جمع کرکے ڈلیوری کی تاریخ

3  پوسٹ ڈیٹ (Post Date): ڈلیوری کی تاریخ کے بعد کے دن

4  پوسٹ ٹرم(Post Term) : 40 ہفتے 10 دن گزر جانے کے بعد کے دن

5   پری ٹرم (Preterm) :37 ہفتے پہلے کا وقت

عام طور پر قدرتی دردِ زہ 37 سے 41 ہفتے کے بیچ آپ ہی آپ شروع ہوتے ہیں اور ان کی علامات میں پانی کی تھیلی پھٹنا، ہلکے ہلکے درد شروع ہونا اور خون کے دھبے لگنا شامل ہیں۔

دردِ زہ کے آغاز سے ڈلیوری تک ایک طویل عمل ہے جسے مختلف اسٹیجز میں بانٹا گیا ہے۔ مختلف اسٹیجز کی نشان دہی رحم کے منہ کھلنے کی جانچ سے ہوتی ہے جسے سروکس کہتے ہیں۔

اگر سروکس 3 سینٹی تک کھلے تو اسے لیٹنٹ فیز کہتے ہیں، 4 سے 10 سینٹی میٹر تک ایکٹو فیز کہتے ہیں۔ لیٹنٹ اور ایکٹو دونوں فیز زچگی کی پہلی اسٹیج کا حصہ ہیں۔ پہلی اسٹیج میں بچے دانی کا منہ مکمل طور پر کھل جاتا ہے جو 10 سینٹی کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری اسٹیج میں بچہ ویجائنا سے گزرتا ہوا باہر آتا ہے اور تیسری اسٹیج میں آنول باہر نکلتی ہے۔

اگر یہ تینوں اسٹیجز بنا کسی پیچیدگی کے ہوتی جائیں تو زچگی قدرتی اور سہل ہوتی ہے، لیکن اگر کہیں بھی معاملہ خراب ہوجائے تو ڈاکٹر کی مہارت کام آتی ہے کہ وہ پیچیدگی کا حساب کتاب کیسے لگاتی ہے اور اس کا کیا حل تجویز کرتی ہے۔

آج کے لیے اتنا ہی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بچے دانی کی تاریخ جائے گا ہے اور اور اس

پڑھیں:

ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت

اس وقت ایک اور خطرہ ڈنگی وائرس بھی پھیل چکا ہے۔ محکمہ صحت کی نااہلی، بلدیاتی اداروں کی غفلت اور عوامی بے حسی نے اس خطرے کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ شہر کے گلی کوچے، اسکول، اسپتال، حتیٰ کہ گھروں کے صحن تک مچھروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔

رواں سال صوبے بھر میں ملیریا کے 1 لاکھ 92 ہزار 571 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے صرف کراچی میں 2 ہزار 736 کیسز سامنے آئے۔ اسی دوران سندھ میں ڈنگی کے 698 تصدیق شدہ مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 524 کا تعلق کراچی سے ہے اور ایک مریض جان کی بازی ہار چکا ہے۔

محکمہ صحت سندھ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں کراچی میں ڈنگی کے 30، حیدرآباد میں 11 اور تھرپارکر میں 10 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسئلہ محض چند علاقوں تک محدود نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے۔

ڈنگی مریضوں کی تعداد میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کی حاضری کم ہو رہی ہے، کلاس رومز میں خوف کا ماحول ہے، والدین اپنے بچوں کو بھیجنے سے گریزاں ہیں۔

بارشوں کے بعد صفائی کے ناقص انتظامات، نالیوں کا بند ہونا،کچرے کے ڈھیر اور مچھروں کی افزائش نے حالات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ نجی و سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ایمرجنسی وارڈز بھرچکے ہیں اور ڈنگی کے مریضوں کے لیے بسترکم پڑگئے ہیں۔

مچھر مار اسپرے کی مہم محض کاغذوں تک محدود ہے، نہ کوئی مربوط حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی نگرانی۔ شہری علاقوں میں تو صورتحال ابتر ہے ہی دیہی علاقوں میں تو لوگ محض گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

ڈنگی بخار کی ابتدا ایک خاص قسم کے مچھر ایڈیز ایجپٹائی (Aedes Aegypti) کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ مچھر عام طور پر دن کے اوقات میں کاٹتا ہے اور صاف پانی میں افزائش پاتا ہے۔ یعنی وہ پانی جو گھروں کے گملوں، ٹینکیوں، ٹائروں،کولروں یا چھتوں پر جمع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں غفلت کی ابتدا ہوتی ہے۔

شہری انتظامیہ صفائی کے دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر نہ کوئی نکاسیِ آب کا نظام فعال ہے اور نہ ہی مچھر مار ادویات کا اسپرے باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ ڈنگی بخارکی علامات میں اچانک تیز بخار، شدید جسمانی درد، جوڑوں میں اکڑاؤ، آنکھوں کے پیچھے درد، جلد پر سرخ دھبے اورکمزوری شامل ہیں۔ بعض کیسز میں خون کے خلیے کم ہونے لگتے ہیں، جسے ڈنگی ہیمرجک فیورکہا جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

اسپتالوں میں ایسے درجنوں مریض زیرِ علاج ہیں جنھیں پلیٹ لیٹس کی فوری فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مگر خون کے عطیات کی کمی ایک الگ المیہ بن چکی ہے۔ ڈنگی سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ گھروں، دفاتر اور اسکولوں میں صفائی کو اولین ترجیح دی جائے۔

کسی بھی برتن،گملے یا ٹینکی میں پانی کو جمع نہ ہونے دیا جائے۔ بچوں کو پوری آستین کے کپڑے پہنائے جائیں، مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور جسم پر مچھر بھگانیوالا لوشن لگایا جائے۔ شہری حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے کروانا چاہیے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بارش کا پانی اب تک جمع ہے۔ڈنگی کا علاج عام طور پر علامات کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔

مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام اور پانی کی وافر مقدار دی جاتی ہے تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔ بخارکم کرنے کے لیے پیراسیٹامول کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اسپرین یا بروفن جیسی دوائیں ہرگز نہیں دینی چاہئیں،کیونکہ یہ خون پتلا کرتی ہیں اور خون بہنے کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں، اگر پلیٹ لیٹس بہت کم ہو جائیں تو ڈاکٹر کے مشورے سے اسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے۔

ڈنگی کے مریض کی خوراک میں ہلکی، توانائی بخش اور وٹامن سی سے بھرپور غذائیں شامل ہونی چاہئیں جیسے کہ پھلوں کے جوس، ناریل پانی، سوپ، پپیتا، سیب اورکیلا۔ مریض کو کیفین والے مشروبات، چکنائی والی اشیاء اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیزکرنی چاہیے۔

پپیتے کے پتوں کا رس کچھ تحقیقات کے مطابق پلیٹ لیٹس بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا ہے، تاہم اس کا استعمال صرف ڈاکٹر کی مشاورت سے کرنا چاہیے۔ ڈنگی بخارکے پھیلاؤ کی اصل وجوہات میں شہری حکومت کی نااہلی، صفائی کے ناقص انتظامات، مچھرمار مہمات کا غیر سنجیدہ رویہ اور عوامی غفلت شامل ہیں۔

شہریوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ ڈنگی محض ایک عام بخار ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وائرس جسم کے خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے اور وقت پر علاج نہ ہونے کی صورت میں موت کا باعث بن سکتا ہے۔

تشخیص کے لیے خون کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جیسے ڈنگی کی تشخیص کے لیے طبی ماہرین دو بنیادی ٹیسٹ استعمال کرتے ہیں۔ پہلا NS1 Antigen Test ہے، جو بخارکے آغاز کے ابتدائی پانچ دنوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ وائرس کے اینٹی جن کی موجودگی کو براہِ راست ظاہرکرتا ہے، لہٰذا اس سے ڈنگی کی فوری شناخت ممکن ہوتی ہے۔

دوسرا IgM Antibody Test ہے، جو عام طور پر بخار کے پانچ سے سات دن بعد مؤثر ہوتا ہے،کیونکہ اس وقت جسم وائرس کے خلاف مدافعتی ردِعمل میں IgM اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے۔ ان دونوں ٹیسٹوں کے ذریعے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ مریض حالیہ انفیکشن میں مبتلا ہے یا بیماری کا عمل پرانا ہے۔

بعض اوقات IgG Antibody Test بھی کیا جاتا ہے جو سابقہ یا بار بار ہونیوالے ڈنگی انفیکشن کی نشاندہی کرتا ہے۔ درست تشخیص کے لیے مریض کو صرف مستند لیبارٹریز سے ہی ٹیسٹ کرانے چاہییں تاکہ بروقت علاج ممکن ہو سکے۔

مگر حیدرآباد کے کئی اسپتالوں میں یہ سہولت موجود نہیں، جس کے باعث مریض یا تو کراچی جانے پر مجبور ہیں یا نجی لیبارٹریوں میں مہنگے داموں ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ اس صورتحال نے عام شہریوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتِ سندھ اور محکمہ صحت محض اعداد و شمار جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ مچھر مار مہم کو مؤثر اور شفاف بنایا جائے، صفائی کا نظام فعال کیا جائے، نالیوں اورکچرے کے ڈھیروں کی فوری صفائی کی جائے۔

اسپتالوں میں ڈنگی کے لیے خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں، ٹیسٹوں کی قیمت کم کی جائے اور اسکولوں میں آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ بچے، اساتذہ اور والدین حفاظتی تدابیر اختیارکریں۔

عوام کو بھی اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ گھروں میں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے، مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جائیں اور اگرکسی کو بخار ہو تو فوراً ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ وائرس مزید نہ پھیلے۔

ڈنگی ایک خطرناک مگر قابلِ تدارک بیماری ہے، اگر بروقت صفائی،آگاہی اور علاج کی سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ وائرس چند ہفتوں میں قابو میں آسکتا ہے، لیکن اگر حکومت کی بے حسی اور عوام کی غفلت جاری رہی تو آنیوالے دنوں میں یہ وبا مزید شدت اختیارکرسکتی ہے۔

اب ضرورت اس امرکی ہے کہ حیدرآباد کراچی سمیت پورے سندھ میں ہنگامی بنیادوں پر مچھر مار مہم، اسپتالوں میں معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنایا جائے اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس وبا کا راستہ روکا جائے تاکہ شہریوں کی قیمتی جانیں محفوظ رہ سکیں، اگر یہ مربوط اور عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو حیدرآباد کراچی اور سندھ کے دیگر شہر ایک طویل وبائی دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

اسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے، اسکولوں میں حاضری مزید کم ہو گی اور شہری خوف و بے بسی کے عالم میں روزمرہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ صفائی اور سیوریج کی خرابی سے صرف ڈنگی نہیں بلکہ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ہیضہ جیسی بیماریاں بھی جنم لیں گی۔

گلیوں میں گندے پانی کی بدبو، مچھروں کی بھرمار اور اسپتالوں میں ادویات کی قلت ایک ایسے بحران کو جنم دے گی جس پر بعد میں قابو پانا ممکن نہیں رہے گا، محکمہ تعلیم نے طلبہ میں شعور بیدار نہیں کیا تو اسکولوں اورکالجوں میں ڈنگی وائرس میں مزید اضافہ ہوگا، اگر بلدیہ نے صفائی اور نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر نہ بنایا تو شہرکا ہر محلہ مچھروں کی افزائش گاہ بن جائے گا اور اگر عوام نے اپنے گھروں، چھتوں اور صحنوں میں احتیاط نہ کی تو یہ وائرس گھر گھر پہنچ جائے گا۔

ڈنگی وائرس کے متعلق خصوصی پروگرامز نشرکیے جائیں، فلاحی تنظیمیں شہر میں اہم شاہراہوں پر امدادی کیمپ قائم کریں اور عوام کو طبی سہولیات فراہم کریں۔ حکومتی نمایندے ہنگامی بنیادوں پر اس وباء پر قابو پانے ؐثٌٰٔ بھرپور اقدامات کریں، اگر اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو یہ وباء صرف جسموں کو نہیں بلکہ معیشت، تعلیم اور سماجی زندگی کو بھی مفلوج کر دے گی۔ شہری حکومت پر اعتماد کھو بیٹھیں گے، اسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا اور خوف و بد اعتمادی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
  • وزیر داخلہ کا ٹی چوک فلائی اوور اور شاہین چوک انڈر پاس کا دورہ  
  • بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم
  • عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟
  • ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
  • بالی ووڈ کے کپور خاندان پر ڈاکیومنٹری جلد نیٹ فلیکس پر ریلیز کی جائے گی
  • پی ایچ ایف صدر کی منظوری کے بعد کانگریس اور ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس طلب
  • چین کا نیا خلائی مشن شین ژو 21 روانہ
  • گلبرگ ٹاؤن میں ڈینگی سے بچاؤ کے لیے اسپرے مہم کا آغاز
  • کراچی چڑیا گھر سے ریچھ رانو کو منتقل نہ کیا جا سکا